• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیضؔ نے اردو شاعری کو ایک نیا نصیب و نسب نہیں دیا بلکہ انسانوں کے دلوں میں امن و محبت، انصاف و مساوات، برداشت، رواداری اور جمہوریت کا جو چراغ جل رہا ہے فیضؔ نے اس چراغ میں نوکِ قلم سے اتنا تیل بھر دیا کہ صدیوں تک جلتا رہے گا اور اپنی روشنی چار سو پھیلاتا رہے گا۔

جب13فروری کو فیض صاحب کی سالگرہ کا دن آتا ہے، رات بھر سوچتا ہوں کہ فروری سال میں کتنی بار آتا ہے؟ شاید یہ ساری سوچ عناصر میں اعتدال کی کمی کی وجہ سے ہو۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں فیض صاحب ابھی زندہ ہیں، بس وہ ہمارے درمیان نہیں رہے اور یہ اتنی بڑی بات ہے کہ کبھی بھی کچھ کر گزرنے کو جی چاہتا ہے۔ فیض صاحب کے گزرنے کا واقعہ ایک بار ان کی صاحبزادی مصورہ سلیمہ ہاشمی نے سنایا ’’معروف موسیقار خورشید انور سے ابا کی دوستی گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانے سے تھی، ابا کہا کرتے تھے کہ اس زمانے میں خواجہ صاحب ان سے بہتر شاعر تھے۔ جب ابا بیروت میں تھے تو خواجہ صاحب جو دنیا سے تقریباً کنارہ کش ہو چکے تھے، مجھے کہیں ملے اور کہا ’’فیض صاحب کو خط لکھو تو کہہ دینا کہ میں بیمار ضرور ہوں لیکن اسے ملے بغیر دنیا سے نہیں جائوں گا۔ اسے معلوم ہے کہ میں کتنا ڈھیٹ ہوں‘‘ ابا جب گھر لوٹے تو خواجہ صاحب ریلوے اسپتال لاہور میں داخل تھے۔ ابا کے آتے ہی میں نے ذکر کیا اور خواجہ صاحب کا پیغام دیا تو بولے ’کل چلیں گے۔ دوسرے روز ہم اسپتال پہنچے تو دونوں ملے۔ خواجہ صاحب بہت اچھے موڈ میں تھے اور کمزور بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ ابا کی صحت بھی پہلے سے بہتر تھی۔ دونوں گلے ملے اور ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ میں نے دیکھا کہ معاملہ کچھ جذباتی ہو رہا ہے تو میں نے ذرا سختی سے کہا ’’خواجہ صاحب، سردیاں آ رہی ہیں، اب آپ دونوں بابے باغ میں بیٹھ کر اپنی اپنی کتابیں لکھیں۔ خواجہ صاحب آپ نے صدیوں سے موسیقی پر کتاب لکھنے کا وعدہ کیا ہوا ہے اور ابو آپ کو اپنی سوانح عمری شروع کرنا ہے‘‘۔ خواجہ صاحب مسکرا دیے اور کہنے لگے ’’فیض توں آ گیا ایں، ہن بس میں ٹر چلّا آں‘‘۔ (فیض تم آگئے ہو، بس اب میں جا رہا ہوں) ابا کی آنکھوں میں مجھے کچھ تیرتا نظر آیا، انہوں نے جلدی سے جواب دیا ’’ہاں دونویں نال چلّاں گے‘‘۔ (ہاں دونوں ساتھ چلیں گے) خواجہ صاحب اپنی بات کے پکے نکلے، ہفتے بھر بعد چھوڑ گئے۔ فیض جو دوستی نبھانے کے قائل تھے، 20دن بعد وفات پا گئے۔فیض صاحب کے بارے میں ایک بار سیف الدین سیف نے مجھے بتایا ’’نظریاتی اختلاف کے باوجود فیض صاحب میرے کلام کے بہت زیادہ مداح تھے۔ ایک دفعہ میرے ترقی پسند دوست و احباب مجھے سمجھا رہے تھے کہ میں سوشلسٹ ہو جائوں۔ فیض صاحب جو بڑے غور سے ہماری بحث و تکرار سن رہے تھے، اچانک بول اٹھے ’’رہنے دیں، بھئی کسی کو تو شاعر رہنے دیں۔ اگر سیف بھی سوشلسٹ ہو گیا تو پھر ہم اچھے شعر کیسے سنیں گے‘‘۔سلیمہ ہاشمی اپنے میاں شعیب ہاشمی کے ساتھ بہت پہلے لندن میں مقیم تھیں۔ فیض صاحب کا لندن آنا جانا لگا رہتا تھا، کبھی کبھار کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو سلیمہ ہی خریداری کرتی۔ ایک مرتبہ فیض صاحب لندن آئے تو ان دونوں میاں بیوی کو اچانک خیال آیا کہ انہیں شیور (الیکٹرک) کی ضرورت ہے۔ 1960ءکے زمانے میں اتوار کو سب دکانیں بند رہتی تھیں۔ شعیب ہاشمی نے کہا ’’فیض صاحب آج اتوار ہے، بہرحال ڈھونڈتے ہیں۔ شاید کوئی دکان کھلی مل جائے۔ آپ کو کیسا شیور چاہئے؟ فیض بولے ’’ایسا جو بیٹری سے بھی چلے اور بجلی سے بھی۔ ACبھی ہو اور DCبھی۔ اس کے ساتھ وہ بیٹری چارج کرنے والا بھی ہو‘‘۔ شعیب نے کہا ’’فیض صاحب فیر تے بھاپ نال چلن والا لبھے گا۔‘‘ پانچ دریائوں کی زرخیز سرزمین کی عظمت کا یہ ستارہ امتیاز جسے فیض احمد فیضؔ کہتے ہیں جب آخری بار گھر آیا تو کسی نے ان سے سوال کیا ’’فیض صاحب! آپ کا دنیا میں اتنا نام ہے اور ساری دنیا میں اتنی عزت ہے لیکن افسوس ہے کہ آپ کے اپنے ملک پاکستان میں آپ کو اتنی پریشانیوں کا سامنا ہے‘‘۔ فیض نے فوراً جواب دیا ’’نہیں، ہمارے خیال میں ہم سے زیادہ خوش قسمت بہت کم لوگ ہوں گے۔ لوگوں کو تو گلہ رہتا ہے کہ انہیں زندگی میں ان کے لائق رتبہ بھی نہیں ملا۔ ہمیں تو اپنے حصے سے کہیں زیادہ لوگوں کی محبت، خلوص اور پیار ملا‘‘۔ اور پھر ذرا زور دے کر بولے ’’شاید آپ حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام کو آپس میں Confuse (گڈمڈ) کر رہے ہیں‘‘۔ فیض کی محبت میں سرشار کوئی شخص یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ وہ انہیں کس حد تک چاہتا ہے۔ فیض بلاشبہ اپنے عہد کی آواز ہیں اور ہم عہد فیض میں جی رہے ہیں۔

یہ بھی سچ ہے کہ کڑی دھوپ میں چلنا ہے مجھے

اور یہ سایہ فگن مجھ پہ ہے، یہ بھی سچ ہے!

تازہ ترین