صحت اور تعلیم پر بات ہو چکی ہے، کئی اور شعبے ایسے ہیں جہاں منصوبہ بندی کی ضرورت تھی مگر پنجاب پر چالیس سالہ حکمرانی کے دور میں کسی ایک شعبے میں بھی منصوبہ بندی نہ کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پنجاب کے تمام بڑے شہر اپنی حالتِ زار پر ماتم کر رہے ہیں۔ شہروں میں زندگی اپنی تنگی کا اعلان کرتی پھر رہی ہے۔ شہروں پر بڑھتے دبائو نے جہاں بیروزگاری کو جنم دیا ہے وہیں جرائم کی بھی افزائش ہوئی ہے۔ پنجاب کے بڑے شہروں میں آبادی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے مگر وہاں روزگار کے ذرائع محدود ہیں۔ حالت یہ ہے کہ انتہائی پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا، وہ بیروزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں۔ شہروں میں آباد گھرانوں کیلئے مہنگائی کے اس دور میں آمدن اور اخراجات میں توازن قائم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ جتنے اخراجات ہیں اتنی آمدن نہیں۔ اخراجات تو نوجوانوں کے بھی ہیں، بیروزگار نوجوان کیا کریں، کیسے بیروزگاری کی کوکھ سے خرچہ نکالیں، والدین کے لئے بھی یہ مرحلہ بڑا مشکل ہے۔ پہلے انہوں نے بچوں کو پڑھایا لکھایا، اب وہ بیروزگاروں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ ان مشکل ترین حالات میں ایک مرحلہ اور بھی مشکل ترین ہے، بعض نوجوان اپنی جوانی میں والدین سے خرچہ وصول کرنا شرمناک سمجھتے ہیں، کچھ والدین بھی نوجوانوں کو اخراجات نہیں دیتے بلکہ انہیں کہتے ہیں کہ ’’جائو اب تم کمائو‘‘ یہ نوجوان جب گھر سے کمانے کیلئے نکلتے ہیں تو بیروزگاری ان کے استقبال کیلئے کھڑی ہوتی ہے، ان نوجوانوں کو کوئی کام کاروبار نہیں ملتا۔ مایوسی کے اس عالم میں وہ نئے نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہی کوشش انہیں جرائم کی طرف لے جاتی ہے، اسی لئے بڑے شہروں میں اسٹریٹ کرائم بڑھتے جا رہے ہیں، بڑے شہروں میں جعلسازیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ لالچ کے مارے انسان دولت کے حصول میں اخلاقیات کے تمام سبق بھول جاتے ہیں۔ کچھ نوجوان قبضہ گروپوں کا حصہ بن جاتے ہیں، حالیہ سالوں میں جتنے بھی جرائم پیشہ گروہ نظر آئے ان میں اکثریت پڑھے لکھے نوجوانوں کی تھی۔ بیروزگار نوجوانوں نے نت نئے دھندے اپنا رکھے ہیں، بعض نے شہروں کے گرائونڈ اور پارکوں پر قبضہ کر رکھا ہے، انہوں نے وہاں خود ہی ٹکٹ لگا رکھے ہیں، بعض نے لوٹ مار کے اور طریقے اختیار کر رکھے ہیں۔ اگر آپ شہروں میں ہونے والے جرائم کی بڑی وجہ تلاش کریں گے تو یہ بیروزگاری ہی ہو گی۔ قتل وغارت اور بدامنی کا راستہ بھی بیروزگار ہی اپناتے ہیں۔ بڑےشہروں میں جرم کرکے چھپنا آسان ہے، اس آسانی سے نوجوان بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تھانوں اور پولیس کی تعداد بڑھنے کے باوجود جرائم کم نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں، اس کی وجہ شہروں کی آبادیوں کا حد سے تجاوز کر جانا ہے۔
ہمارے حکمران منصوبہ بندی کے قریب پتا نہیں کیوں نہیں جاتے، کسی کو خیال نہ آیا کہ شہروں کی آبادی بڑھنے کے بعد گرائونڈز کم پڑ گئے ہیں، اسی طرح پارکس کم ہو گئے ہیں، نئی ہائوسنگ سوسائٹیوں نے شہروں کو تو بڑھا دیا مگر گرائونڈز اور پارکس نہ بڑھ سکے۔ یہ سوسائٹیوں والے قبرستانوں کیلئے بھی جگہ نہیں رکھتے۔ اس لیے شہروں میں پرانے قبرستانوں کی حالت بڑی عجیب ہے، ایک ایک قبر پر کئی کئی قبریں بن چکی ہیں، پھر قبرستانوں میں مردوں کی ہڈیاں نکالنے کا مکروہ دھندہ بھی ہوتا ہے۔ طاقتور قبضہ گروپوں نے تو قبرستانوں پر بھی عمارتیں کھڑی کر رکھی ہیں، کچھ نے گرائونڈز اور پارکس پر قبضہ کرکے زمین فروخت کر دی ہے۔ پنجاب کے حکمرانوں کو چاہئے تھا کہ وہ بنجر علاقوں میں ٹیکس فری صنعتی زون بناتے۔ ایسا نہ کرنے سے لوگوں نے شہروں کے اندر ہی فیکٹریاں بنا لیں، ان فیکٹریوں کا دھواں شہروں کی فضا کو مزید آلودہ کرتا رہا، فضا تو پہلے ہی سے گاڑیوں کے دھویں کے باعث آلودہ ہے، اس قدر آلودگی میں سانس لینا دشوار ہے، یہ فضا صحت کے لئے بدترین ہے۔
شہروں میں تاخیر سے سونے کا رواج ہے، تاخیر سے سونا کسی صورت بھی صحت کے لئے اچھا نہیں، اسی لیے ہماری اگلی نسل کی صحت حوصلہ افزا نظر نہیں آ رہی۔ شہروں میں قائم سیوریج سسٹم جواب دیتا جا رہا ہے، بارش ہوتی ہے تو گٹروں کا پانی ابلنا شروع ہو جاتا ہے، گٹروں کا یہ پانی بارش کے پانی میں مل جاتا ہے، پھر یہ پانی کئی کئی دنوں تک سڑکوں پر یا گلیوں میں کھڑا رہتا ہے، اس سے بھی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ باقی آئندہ، فی الحال سرور امان کا شعر؎
بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن
تب ہمارے نام یہ جاگیر کر دی جائے گی