• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
موجودہ برطانوی حکومتی پارٹی کا ایک پاپولر مقبول عام سلوگن ون نیشن ٹوریز ، ایک قوم ٹوریز رہا ہے۔ برطانیہ متعدد اکائیوں اور کئی طبقات پر مشتمل جزیرہ ہے۔ عام فہم میں ون نیشن سے مراد تو یہی لیا جاتا ہے کہ ملک کی ایک بڑی اور قدیمی جماعت اس ملک کے مختلف حصوں اور ان میں بسنے والے تمام لوگوں کو ایک قوم سمجھتی ہے اور اس کی پالیسیاں مختلف طبقات کو متحد رکھنے ان میں یگانگت قائم کرنے ان سے متعلق معاملات اور جڑے مسائل کے حل میں دلچسپی دکھائے گی۔ تاہم ٹوری کے طویل عرصہ اقتدار کے باوجود اس سلوگن کے برعکس ملک میں ایک تو ساؤتھ اور نارتھ کی تقسیم رہی ہے۔ ساؤتھ ایسٹ پر زیادہ وسائل خرچ کرنے کے باعث عمومی طور پر ملک کے جنوبی حصے امارت اور شمالی علاقے افلاس کا نمونہ پیش کرنے لگے، ملک کا ہر شہری ریاست اور مملکت کے امور میں اسی وقت دلجمعی سے دلچسپی کا اظہار کرتا ہے جب سب کو مساوی مواقع مہیا کیے جائیں، ون نیشن کا تصور تب ہی تقویت پاتا ہے۔ پھر بریگزٹ پر کنزرویٹیو حکومت نے ہی ریفرنڈم کرادیا تو ای یو سے نکلنے کے حق میں رائے سامنے آئی جس سے ملک نئے خلفشار کا شکار ہوگیا، کیونکہ ساتھ ہی برطانیہ کی جغرافیائی یکجہتی پر سوال اٹھنے لگے۔ کئی حلقوں کی طرف سے یہ صدا بلند کرنے کی سعی جاری رہی کہ آپ عوامی رائے کا تو پاس کر رہے ہیں مگر ساتھ ہی برطانیہ کے حصے بخرے کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں، بالآخر بورس جانسن کے گیٹ بریگزٹ ڈن Get Brexit done کے نعرہ ہائے مستانہ کے سامنے دیگر دلائل کارگر ثابت نہ ہوسکے اور ایگزٹ ہوگیا، تاہم بعض اعلی صحافتی حلقوں کی جانب سے اس عرصہ میں مسٹر جانسن کی ون نیشن تھیوری پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں ، یعنی یہ نشاندہی کی جاتی رہی ہے کہ بورس جانسن کے اقدامات سے ون نیشن فلاسفی کو تقویت نہیں بلکہ ضعف پہنچ رہا ہے۔ مجھے یاد ہے دسمبر میں دی ٹائمز میں ایک کالم نگار نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ جانسن کس قسم کے ون نیشن ٹوری ہیں ؟ What kind ofOne Nation Tory is Johnson? انہوں نے توجہ دلائی تھی کہ پرائم منسٹر کی منفی اپروول ریٹنگ اور معمر مرد ووٹروں پر انحصار ملک کو متحد رکھنا دشوار بنا رہا ہے، جبکہ انہوں نے ون نیشن سلوگن کے پس منظر میں تاریخی عوامل بیان کیے تھے کہ اس کا مقصد امیر اور غریب سب طبقات کی نمائندگی کرنا تھا ۔ لوگوں کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ کنزرویٹیو پارٹی ملک کے طول و عرض میں دونوں طبقات تک رسائی کرے گی،مگر اب ازراہ تفنن صرف اس حد تک بورس جانسن کی ون نیشن تھیوری کام کررہی ہے کہ اس نے لیبر کی سرخ دیوار کو حالیہ الیکشن میں مسمار کر دیا ہے ،جس کے ذریعے لیبر کے نارتھ اور مڈلینڈ ز میں ورکنگ کلاس ووٹروں کو ٹوری فولڈ میں لے لیا گیا ورنہ ان کی مجموعی پالیسیاں ملک کے کئی صائب الفکر افراد کے نزدیک ون نیشن سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اسی طرح آج کے تازہ ترین تناظر میں اس نئی بننے والی حکومت کی ان چند دنوں میں کارکردگی بھی ون نیشن کا امیج ابھارنے میں کامیاب نظر نہیں آتی ۔ ٹوریز نے غالبا” یہ سمجھ لیا ہے کہ حالیہ انتخابات میں سلائیڈ کامیابی کے بعد تو گویا راوی سیاسی طور پر ان کے لیے بظاہر چین ہی چین لکھ رہا ہے، اپوزیشن کی بڑی پارٹی اپنی شدید اور تاریخی ہزیمت کے زخم چاٹ رہی ہے اور لیڈر شپ کے چناؤ کے مرحلے میں پھنسی ہوئی ہے، لیبر اسی کشمکش میں ہے کہ لیڈر اور ڈپٹی لیڈر کے طور پر کس کا انتخاب کیا جائے ، وہ اس وقت بورس جانسن پر فوکس کرنے کے بجائے پارٹی کے معاملات پر فوکس کرنے پر مجبور ہیں۔ تاہم محاورے والے سیاسی طوفانوں سے تو اب نہیں بورس کو حقیقی موسمیاتی طوفانوں کا سامنا ہے مگر چونکہ اب حکومت سیاسی طور پر گویا ایزی رائیڈ لے رہی ہے اس لیے ان سے بہتر طور پر نمٹنے اور ون نیشن کا تصور ابھارنے پر ضرورت کے مطابق توجہ نہیں دی گئی، جیسا کہ دی گارڈین نے ہفتہ 22 فروری کو اپنے ایڈیٹوریل پالیٹیکس ون نیشن ٹوریز کو بھول جائیں ،جانسن گورنمنٹ صرف قوم پرستوں کے لیے ہے، میں ہائی لائٹ کیا ہے کہ طوفان کیارہ کے دو ہفتے بعد برطانیہ اور آئرلینڈ تک اس کے اثرات مرتب ہوئے اور ایک ہفتہ بعد طوفان ڈینس نے بھی وہی کام کیا، بہت سے برطانوی دیہی علاقے کئی فٹ پانی کے نیچے رہے اور پھر گزشتہ 48گھنٹوں کی شدید بارش نے اس صورتحال کو مزید گمبھیربنا دیا۔ سرے سے کیومبریا تک اور سکاٹش بارڈر ز ولیش مار چیز تک سیلاب کا اضافہ ہوا ہے، وائی ،سیورن ، ٹرینٹ اور یارکشائر میں کاونٹیز میں آوس واٹر شیڈز کو پھر سخت ہٹ ہوا ہے، جیساُکہ ماحولیاتی بحران میں گہرائی آتی جاتی ہے ایسے ایونٹس یا بے حد کامن ہو رہے ہیں یا پھر ان میں شدت آتی جارہی ہے۔ لوگ اس طرح کی ایمرجینسی سے سخت کبیدہ خاطر اور پریشان حال ہیں۔ جب سیلاب تسلسل سے لوگوں کے گھروں ، زندگیوں ، روزمرہ امور ، لینڈ، انفراسٹرکچر اور سروسزکو نقصان پہنچا رہا ہو، ہیومن ہارڈ لائینز ، کمیونٹی سالیڈیرٹی اور انفرادی ہمدردی کافی نہیں، بالآخر یہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مقامی اور قومی دونوں سطح پر اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے اور آئندہ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیے کمربستہ ہو، جن سے لوگوں کے اندر شراکت داری اور تحفظ کا احساس ابھرے۔ 1821سے جرنلزم کے اس شاہکار اور اعلی صحافتی معیار کے علم بردار اخبار دی گارڈین جسے اردو میں گارجین کے نام سے بھی لکھا جاتا ہےکے بقول اس مرحلہ پر ریاست بڑی حد تک خاموش دکھائی دی، جب کہ یہ سیلاب نیشنل کرائسئز قومی بحران ہیں، جن سے نیشنل ریسپانسیز ، قومی ردعمل کی ضرورت ہے۔اخبار نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب گورنمنٹ کی ضرورت تھی تو وہ کہاں پر تھی؟ وزیراعظم کہاں ہیں؟ کس کو علم ہے؟ بلکہ اس کی حکومت نے ایک بڑی پبلک تھنگ رولنگ آوٹ اے نیو پوسٹ بریگزٹ امیگریشن سسٹم ، اور ساتھ ہی ایک اور ویری بگ انڈر دی ریڈار پروجیکٹ بی بی سی پر حملہ ہے۔ اخبار نے نئے امیگریشن اعلانات پر کامنٹس کیا ہے کہ امیگریشن کنٹرولز کو نیشنل نیڈز National needs قومی ضرورت کے نام پر ایڈوانس کیا گیا ہے یعنی قومی ضرورت کے لبادے میں نئی کنٹرولڈ امیگریشن پالیسی یا نیا نظام متعارف کرایا جا رہا ہے۔ لیکن ان کی برطانیہ کے کئی حصوں بشمول لندن اور سکاٹ لینڈ میں ضرورت نہیں، ملینز کی تعداد میں جن لوگوں نے ای یو کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیے تھے وہ اس نئے نظام کو نہیں چاہتے ۔یہ نیا سسٹم امیگریشن کے نئے رولز کم از کم مدت وسطی میں معیشت کے بہت سے سیکٹرز بشمول ، ایگریکلچر، زراعت، کئیر سروسز، نگہداشت کے شعبے، این ایچ ایس یعنی قومی محکمہ صحت، ہاس پیٹا لیٹی اور کنسٹرکشنز تعمیرات کو ضعف پہنچائیں گے۔ ان تمام شعبوں میں افرادی قوت کی طلب بہت ہوتی ہے۔ بلکہ گارڈین نے یہ بھی انتباہ کیا ہے کہ اس سے پہلے سے کمزور پڑتی ہوئی مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ ہمارے حساب سے نیا امیگریشن نظام اگر ملک کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو مطمئن نہیں کر پاتا تو ٹوریز جن کے جماعتی اور حکومتی نظام پر عموما” دائیں بازو‘‘ کی چھاپ رہی ہے، اس کے متعلق مزید منفی تاثر ابھرے گا جبکہ بورس جانسن سے یہ توقع کی گئی ہے کہ وہ اس چھاپ کو اتارنے کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔ اخبار نے مزید لکھا ہے کہ مسٹر جانسن جب اپنے متعلق بات کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ایک لبرل کنزرویٹیو جو ایک ون نیشن گورنمنٹ کو لیڈ کر رہا ہے کہہ کر متعارف کراتے ہیں اگرچہ اس طرح کی ٹرمز اب کافی مدت سے بے مقصد ہوچکی ہیں لیکن ان کے ذریعے کسی ڈیسنٹ، شاندار امیج کو ابھارنا مقصود ہوتا ہے۔ نیو کاسل میں سابق وزیراعظم گورڈن براون اور بعض اہم شخصیات کی میٹنگ ہورہی ہے تاکہ ان قوتوں کے خلاف متبادل سوچا جائے جو اس ملک کو پارہ کرنے کے خواں ہیں۔ اخبار کے مطابق اس امر پر کوئی حیرانگی نہیں کہ مسٹر جانسن یا ان کے وزراء وہاں پر نہیں ہوں گے ۔ سیلاب کے بحران کے دوران بھی ، بی بی سی کے مستقبل پر بھی اور ایک منقسم امیگریشن پالیسی کے ان رولنگ کے موقع پر بھی مسٹر جانسن موجود نہیں ہوتے ، جس باعث اخبار اس حکومت کے رویہ کو ایک قوم کے بجائے ایک نیشنلسٹ گورنمنٹ کے رویوں کا حامل قرار دے رہا ہے۔ نئے امیگریشن سسٹم پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ ٹوری حکومت کو علم ہے کہ اب اس حکومت کی پالیسیوں کے راستے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ،اس لیے وہ اپنی مرضی کا نظام لا کر رہیں گے۔ امیگریشن، ٹوریز /کنزرویٹیو کو تاریخی طور پر یہ امتیاز حاصل رہا ہے کہ امیگریشن پالیسی امتیازی نوعیت کی اپنائے رکھی یعنی اس پر امتیازی امیگریش کے الزامات لگتے رہے ہیں ، امیگریشن غالبا” ایک بڑا اہم فیکٹر رہا ہے جس پر بالخصوص ایشیائی اپنے آپ کو لیبر پارٹی کے قریب تصور کرتے رہے ہیں جبکہ ٹوریز کی امیگریشن پالیسیاں ایشیائیوں کی ضروریات سے متصادم خیال کی جاتی رہی ہیں ،تاہم اب برطانیہ نے بريگزٹ کے بعد امیگریشن کا جو منصوبہ جاری کیا ہے بی بی سی کے مطابق وزارت داخلہ کے آفس کا کہنا ہے کہ 31 دسبمر کے بعد جب برطانیہ اور یورپی یونین کی آزاد نقل و حرکت ختم ہو جائے گی تو یورپی یونین یا غیر یورپی ممالک سے برطانیہ آنے والے شہریوں کے ساتھ یکساں انداز میں پیش آیا جائے گا۔ باالفاظ دیگر نیا سسٹم جنوری 2021 سے لاگو ہوگا جس کے بعد یورپی باشندوں کو بھی دنیا کے دیگر ممالک کے افراد کی طرح مساوی سمجھا جائے گا۔ جبکہ اس نئے نظام میں یورپ کے باشندوں کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ چھ ماہ کے لیے برطانیہ وزٹ ویزا پر آ سکیں گے۔ اس سے ٹوری پارٹی یہ تاثر اُبھار رہی ہے کہ اب اس کی امیگریشن پالیسیاں مساوات پر مبنی ہوں گی ، جبکہ بریگزٹ پراسیس کے دوران بھی ٹوریز یہ امپریشن دیتے رہے ہیں کہ ای یو سے انخلاء سے غیر ای یو افراد بشمول ایشیائیوں کو اب زیادہ بہتر سہولیات مل سکیں گی لیکن مجموعی طور پر نئی پالیسی پر مِلک بھر میں وسیع بحث شروع ہے اور اس کے کئی پہلووں پر اعتراض سامنے آئے ہیں ۔ بی بی سی اور دیگر میڈیا کے ذریعے اس پالیسی کی جو تفصیل اور اس پر جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے :کم ہنر رکھنے والے افراد یا ملازمین کو ویزا نہیں دیا جائے گا۔اس میں آجروں سے کہا گیا ہے کہ یورپ سے سستی مزدوری پر انحصار کرنے سے اجتناب برتا جائے اور متبادل کے طور پر عملہ کو روکنے اور آٹومیشن یا خودکار ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے سرمایہ کاری کی جائے۔ وائس آف امریکہ کے مطابق برطانیہ کا کہنا ہے کہ اس نئے سسٹم کے تحت دنیا بھر سے اعلیٰ مہارت کے حامل افراد کو برطانیہ آنے کے لیے ترجیح دی جائے گی مزید یہ کہ یہ سسٹم پوائنٹس کی بنیاد پر ہوگا ،حکومت کا دعوٰی ہے کہ وہ صحیح صلاحیتوں والے افراد کی حوصلہ افزائی اور کم ہنر رکھنے والے افراد کی برطانیہ آمد کو کم کرنا چاہتی ہے۔ اب صرف وہ لوگ ویزا کے حصول میں کامیاب ہو سکیں گے جن کو مطلوبہ پوائنٹس ملیں گے۔ خیال رہے کہ پوائنٹس پر مبنی امیگریشن نظام کا ٹوری نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا۔ البتہ ہنر مند افراد کی تعریف کو نئے نظام میں وسعت دی گئی ہے ۔ اب اس میں اے لیول تک کے درجہ کی تعلیم والے شخص کو بھی شامل کیا جانا رپورٹ کیا گیا ہے جبکہ فی الوقت یہ سطح گریجویٹ تک تھی، انگریزی بولنا اور ہنر والے کام کے لیے منظور شدہ سپانسر کی بنیاد پر یہاں کام کے لیے آنے والے ان افراد کو پچاس پوائنٹس ملیں گے۔البتہ تعلیم، پیش کش کی گئی تنخواہ اور کسی ایسے شعبہ میں کام کرنا جہاں افراد کی کمی ہے ان پوائنٹس میں اضافہ کریں گے۔ جبکہ ہنر مند افراد کی تعداد پر مجموعی طور پر اب مزید کوئی پابندی نہیں ہو گی۔اسی طرح نئے منصوبے کے تحت تمام تارکین وطن کو صرف آمدن کے متعلق فوائد حاصل ہوں گے جب تک کہ انہیں وہاں رہنے کی چھوٹ حاصل نہیں ہو جاتی جو کہ عام طور پر پانچ سال بعد ملتی ہے۔نئے منصوبے کے تحت اب برطانیہ آنے والے ہنرمند ملازمین کی مجموعی آمد پر کوئی اوپری حد قائم نہیں ہوگی اس بابت ملک کی حزب اختلاف کی بڑی جماعت لیبر پارٹی کا ردعمل ہے کہ مشکل حالات کی وجہ سے ملازمین کو راغب کرنا مشکل ہوگا۔لیبر پارٹی کا خیال ہے کہ نئے امیگریشن کے نظام کے تحت برطانیہ کو ہر سطح پر ہنرمند ملازموں کو تلاش کرنے میں بہت مشکل کا سامنا ہوگا۔ لبرل ڈیموکریٹ نے کہا ہے کہ یہ تجاویز اجنبیوں سے نفرت پر مبنی ہیں۔ایس این پی نے ان تجاویز کو ادھوری اور کسی کو فٹ نہ آنے والی ایک ہی سائز کی تباہ کن پالیسی کہا ہے۔ کنفیڈریشن آف برٹش انڈسٹریز جس نے بعض تجاویز کا خیرمقدم کیا ہے اس کا کہنا ہے کہ بعض کمپنیوں کو ’اپنے بزنس کو چلانے کے لیے لوگوں کو ملازمت دینے میں پریشانی ہوگی۔ رائل کالج آف نرسنگ نے نئے نظام پر خدشات ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے آبادی کی صحت اور نگہداشت کی ضرورت پوری نہیں ہو سکے گی، بی بی سی ، یونیزن کی نائب جنرل سیکریٹری کرسٹینا میک آنیا نے کہا کہ یہ منصوبہ نگہداشت کے شعبے کے لیے تباہی ثابت ہو گا۔اسی طرح یوکے ہوم کیئر ایسوسی ایشن نے تجاویز میں کم تنخواہ والے ملازموں کے انتظام کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے اور حکومت کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے امیگریشن نظام کے تحت ممکنہ کیئر ورکرز کی فراہمی میں کمی کے باعث بہت زیادہ لوگ ہسپتالوں میں انتظارگاہوں میں قطار میں کھڑے رہنے پر مجبور ہوں گے یا پھر بغیر نگہداشت کے رہیں گے۔ نیشنل فارمرز یونین نے نئے نظام میں برطانوی خوراک اور کاشتکاری کی ضروریات کی فراہمی میں ناکامی پر شدید تحفظات کااظہار کیا ہے۔ اسی طرح فوڈ ایںڈ ڈرنک فیڈریشن نے بیکرز، گوشت کے پروسیسرز اور پنیر اور پاستہ بنانے والے ملازمین کے متعلق تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ نئے نظام کے تحت یہ ملازمین اہل قرار نہیں پاتے۔ درج بالا تبصروں سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اکیلے امیگریشن کے نئے نظام پر ہی اگر غور کیا جائے تو بھی ٹوریز کی پالیسی ملک کے کئی طبقات کی نمائندہ نظر نہیں آتی۔ ادھر آج ہی لب ڈیم نے ایکٹنگ لیڈر ایڈ ڈیوی نے ٹوری حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر تبصرہ جاری کیا ہے کہ جانسن حکومت نے اکنامی کو نظرانداز کیا ہے۔انہوں نے قومی محکمہ شماریات کے ان اعداد وشمار پر ردعمل دیا ہے کہ جو یہ ظاہر کرتے ہیں جانسن کے انڈر معیشت متاثر ہورہی ہےاور رشی سنوک مزید سخت پریشر میں ہیں کہ ایک ایسا بجٹ ڈلیور کریں جو سب کے لیے ہو۔ 2019کا آخری حصہ کسی گروتھ کے بغیر اختتام پزیر ہوا ہے۔ لب ڈیم کے رہنما کے مطابق مینو فیکچرنگ اور کاروباری سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے اس لیے چانسلر اس امر کو یقینی بنائیں کہ بجٹ کارکنوں، کاروباروں اور ماحولیات کا آئینہ دار ہو۔ لب ڈیم کی تنبیہہ بروقت ہے اگر مسٹر جانسن واقعی ون نیشن کے علمبردار ہیں تو پوری قوم کے مفادات کو مقدم رکھیں۔
تازہ ترین