روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن بچوں کو اسکولوں میں ارتقاء Evolution اور تخلیق Creationismپڑھایا جاتا ہے تو بچے اپنے والدین سے گھر آکر سوال کرتے ہیں تو ہمارے دیسی والدین بچوں سےاس موضوع پر بحث کرنے سے کتراتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شاید تخلیق اور ارتقاء پر بحث ان کا ایمان خراب کرے گی اور وہ گناہ کے مرتکب ہوجائیں گے حالانکہ جس طرح مذہب پڑھایا جاتا ہے۔ اس طرح سائنس بھی پڑھنی چاہئے۔ اس سے مذہب والوں کو ڈرنا نہیںچاہئے۔ بہت سے بڑے بڑے سائنسدان گزرے ہیں یا آج بھی ہیں جنہیں سائنس نے مذہب سے نہیںنکالا لیکن انہوں نے سائنس میں بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیئے۔ اس لئے ہماری آنکھیں بند کرنے سے نہ تو سائنس آگے بڑھنے سے رکے گی اور نہ ہی ہم سائنس عمل کو روک سکتے ہیں۔ مثلا زمین گھومتی ہے تو کسی زمانے میں چرچ نے ایسا کہنے والے سائنسدانوں کو سزائے موت تک سنادی۔ ایک سائنسدان نے تو عدالت میں جان بچانے کیلئے یہ کہہ دیا تھا کہ جناب مجھے چھوڑ دیا جائے۔ میرے کہنے یا نہ کہنے سے زمین نے سورج کے گرد گھومنے سے رک تو نہیں جانا۔ چارلس ڈارون نے 158برس قبل نظریہ ارتقاء پیش کیا لیکن سائنسدانوں نے ا س کے دعوے کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس نے جو دلائل دیئے اور Geneticsحیوانات اور Molecular Biologyکی ڈوپلمنٹ پر اس کے دلائل کو پورے اس عہد کے سائنسدانوں نے تسلیم کرلیا لیکن اس کے بعد تخلیق Creationistsوالے ارتقاء والوں کے خلاف نہ صرف کھلم کھلا مخالفت پر اتر آئے بلکہ اسے کفر اور مذہب کی جنگ بنادیا اور ذہین منصوبے Intelligent Design کا نظریہ پیش کیا جس کا ذکر کرتے ہوئے برکلے یونیورسٹی کے پروفیسر فلپ جانسن نے اپنی کتاب ڈاون آن ٹرائل میںلکھا ہے کہ Intelligent Designتھیوری کا مقصد یہی تھا کہ سائنس کے کلاس روم میںخدا پر بھی بحث ہو۔ ویسے عجیب منطق ہے۔ پھر اس پر برطانیہ کی عدالت میں مقدمہ بھی آیا کہ Intelligent Designتھیوری کو سائنس کی کلاسوں میں پڑھایا جانا غیر آئینی بات ہے کیونکہ یہ تھیوری سائنسی نہیں صرف مذہبی ہے پھر یہ Creationists اس بات پر آگئے کہ ہم تو تعلیم میںصرف علمی آزادی کی بات کرتے ہیں آج بھی مذہبی لوگ بہت سی سائنسی ایجادات کو کلچرل جبر قرار دیتے ہیں۔ ایسا دراصل صرف کم علمی کی وجہ سے ہے۔ آیئے اس بحث کو خالص علمی سطح پر بہت مختصر انداز میں ذرا بحث کرکے دیکھیں۔ اگر ہمارے قارئین سمجھتے ہیں کہ اس بحث کو آگے بڑھانا چاہیے تو ایسا ضرور کرنا چاہیے اور پھر یہ بحث غیر متعلقہ بھی نہیںہے کیونکہ یورپ کے اسکولوں میں ہمارےجانے والے بچے تو اس بحث غیر متعلقہ بھی نہیںہے کیونکہ ہمارے یورپ کے اسکولوں میں جانے والے بچے تو اس بحث کو اپنے کلاس روم میںکرتے ہی ہیں اور چند پاکستان کے انگریزی اسکولوں میں بھی سائنس کی کلاسوں میںمختصرا اس موضوع کو زیر بحث ضرور لایا جاتا ہے۔ مثلا تخلیق کا نظریہ رکھتے یا ماننے والے کہتے ہیں کہ ارتقاء کی تھیوری حقائق پر مبنی نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی سائنسی قانون ہے حالانکہ میں ہمارا جوOrganismہے۔ یہ دراصل وقت کے ساتھ آگے بڑھا ہے اور تبدیل ہوا ہے گو کہ یہ تبدیلی کا عمل سست ہے۔ جسے تاریخ میں تو دیکھا جاسکتا ہے لیکن آنکھ سے نہیں جو اہم قانون فطرت سمجھا جاتا ہے دراصل اسے بھی غلط سمجھا گیا وہ ہے Survival of the First کا قانون۔ یہ اس لئے درست نہیں ہے کہ ایک جاندار کی سروائیول سے یہ قانون لاگو نہیں ہوتا بلکہ اس نسل کی آگے اپنی نسل کو بڑھانے Reproductiveکی صلاحیت اسے ختم نہیں ہونے دیتی۔ ورنہ اس قانون کو اگر قانون اور اصول مان لیا جائے تو آج تمام Speciesختم ہوچکی ہوتی۔ اگلی بات جو ارتقاء والوں کیلئے کہی جاتی ہے کہ وہ اپنے نظریئے کے بارے میں مشکوک ہوتے جارہے ہیں حالانکہ آج جنتی بھی سنجیدہ سائنسی پبلیکیشنز ہیں۔ ان میں ارتقاء کو متنازع کہنے والی اشاعتیں ختم ہوچکی ہیں۔ سب عامیانہ دلیل جو تخلیق والے دیتے ہی کہ اگر انسان بندر کی اولاد ہے تو ابھی تک جو بندر ہیں وہ انسان کیوں نہیں بن گئے حالانکہ اور ارتقاء نہیں کہتا کہ انسان بندروں کی اولاد ہیں بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ دونوں کے آباؤ اجداد Ancestorsایک ہیں۔ یعنی انسان بندر فیملی سے ہے۔ یعنی اس فیملی کی ایک شاخ انسان بن گئی یا ارتقائی عمل میں فیملی کے دوسرے حصوں سے اپنے مخصوصGenes کی وجہ سے آگے نکل گئی اور اوزاروں کے استعمال نے اسے آج کے آنسان تک پہنچادیا۔ اگر ہم آج Cellular Biochemistryدیکھیں تو وہ ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی سیل کب بنا اور علیحدہ طور پر زندہ رہنا شروع ہوگیا اور کئی ملین برس لیتے ہوئے مختلف شکلیں اختیار کرتا کرتا آج تک آن پہنچا ہے۔ ایک اتفاق سے سب کچھ ہوگیا کہ نظریہ بھی ہے۔ حالانکہ ارتقاء کو اتفاق کی ضرورت نہیں۔ اتفاق سے سب کچھ ہوجانے کا مطلب ہے کہ اس کی نہ کوئی سائنسی بنیاد ہے۔ نہ ہی استحکام ہے بلکہ یہ اتفاق سے جنم لینے والا سارا نظام کسی بھی وقت اچانک دھڑام سے گر بھی سکتا ہے۔ آج جو مختلف جاندار بمعہ انسان جو ایک دوسرے سے مطابقت اور کئی چیزوں میںمشابہت رکھتے ہیں وہ بھی اتفاق کے نظریئے سے مطابقت نہیں رکھتی۔ خیر یہ ایک خالصتا علمی ٹائپ کی بحث ہے۔ جسے بڑے مختصر انداز میں آج اپنے کالم کا حصہ بنایا کیونکہ ہمارے بچے جب اسکولوں میںپڑھتے ہیں تو اپنے طرز زندگی میں اپنے والدین کو دیکھتے ہوئے ایک تضاد کا شکار رہتے ہیںیہ تضاد ان کی پرورش میںکمی ڈال دیتا ہے اور بچے دہرے معیار کے مرض میںمبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس لئے گھروں میںبچوں کو اپنے والدین کے ساتھ اور والدین کو بچوں کے ساتھ کبھی کبھار ایسے سنجیدہ موضوعات پر بحث کرنے اور اپنے اپنے دلائل دینے کا علمی ماحول ضرور بنانا چاہیے۔ یہ ضروری نہیں کہ قائل کرکے ہی اٹھا جائے بلکہ ایسا بحث و مباحث کا ماحول گھر کی علمی نشوونما میںبہت بنیادی نوعیت کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ علم کو آگے بڑھانے کا بہترین طریقہ ہے۔