• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام نے خواتین کو سماجی، قانونی، معاشی اور سیاسی تناظر میں تمام بنیادی حقوق عطا کیے ہیں۔ ان میں زندگی کا حق، عزّت کا تحفّظ، باپ، شوہر اور بیٹے کی طرف سے مکمل کفالت، تعلیم، کاروبار یا مال کمانے کا اختیار، جائیداد رکھنے، وراثت، رضامندی سے شادی، مہر، ناچاقی کی صُورت میں خلع، شوہر سے علیٰحدگی کی صُورت میں بچّوں کے اخراجات، مطلقہ یا بیوہ کے لیے دوسری شادی، آزادیٔ رائے کا اظہار، عبادات اور سماجی سرگرمیوں میں شمولیت جیسے حقوق شامل ہیں۔گزشتہ تہذیبوں اور مذاہب میں حقِ وراثت کے حوالے سے مختلف رویّے یا طریقے رائج تھے۔ 

کہیں انتقال کر جانے والے کا مال ریاست کی ملکیت سمجھا جاتا، تو کسی نے اُسے خاندان کی مشترکہ جائیداد قرار دیا۔ نیز، مَردوں، خصوصاً جنگوں میں لڑنے والوں یا پھر سب سے بڑے بیٹے ہی کو وراثت کا واحد حق دار تصوّر کیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس، اسلام نے مَرد اور عورت دونوں کا وراثت پر حق تسلیم کرتے ہوئے عورت کو بھی مختلف حیثیتوں میں منقولہ اور غیر منقولہ اموال و جائیداد میں حصّے دار ٹھہرایا۔مرد و عورت، دونوں اپنے ورثا کے لیے مال چھوڑ سکتے ہیں اور دونوں ہی اپنے اقربا کی وراثت سے حصّہ پانے کے حق دار ہیں۔ البتہ، جس طرح مختلف رشتے داروں کے لیے وراثت میں حصّوں کی مختلف صُورتیں ہوتی ہیں، اِسی طرح خاندانی نظام اور معاشرے میں ذمّے داریوں کی تفویض کے حوالے سے عورت کے لیے وراثت کا حصّہ بھی مَردوں سے مختلف ہو سکتا ہے۔ ناقدین اسے خواتین سے امتیازی سلوک سمجھتے ہیں ،حالاں کہ غیر جانب داری سے دیکھا جائے، تو یہ تقسیم انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔

قرآنِ حکیم میں وراثت کے بنیادی احکام سورۃ النساء کی آیات 7 تا 14 میں دیے گئے ہیں، جب کہ چند دیگر آیات میں بھی مزید معاملات کی وضاحت کی گئی ہے۔ ان احکامات کے نزول سے قبل سورۂ آلِ عمران میں مورث کی وصیّت کے ذریعے جائیداد کی تقسیم کی تاکید کی گئی تھی، لیکن سورۃ النساء میں وراثت کے اصول اور ورثا کے حصّے مقرّر کردیے گئے۔البتہ احادیثِ مبارکہؐ میں ایک تہائی مال کے بارے میں وصیّت کی اجازت دی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’مَردوں کے لیے اُس مال میں حصّہ ہے، جو ماں با پ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو۔ اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصّہ ہے، جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت ۔اور یہ حصّہ ( اللہ کی طرف سے ) مقرّر ہے۔‘‘مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیںکہ اِس آیت میںواضح طور پر پانچ قانونی حکم دیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ میراث صرف مَردوں ہی کا حصّہ نہیں، بلکہ عورتیں بھی اِس کی حق دار ہیں۔ دوسرا یہ کہ میراث ہر حال میں تقسیم ہونی چاہیے، خواہ وہ کتنی ہی کم ہو۔ تیسرے، اِس آیت میں میّت کے چھوڑے ہوئے پورے مال کو قابلِ تقسیم قرار دیا گیا ہے۔ اِس میں منقولہ، غیر منقولہ، زرعی، غیر زرعی، آبائی کی کوئی تفریق نہیں کی گئی۔ چوتھے، اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ مورث کی زندگی میں کوئی حقِ میراث نہیں ہوتا۔ 

میراث کا حق اُسی وقت ہے، جب مورث کوئی مال چھوڑ کر مَرا ہو۔ پانچویں، اِس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب ترین رشتے داروں کی موجودگی میں بعید تر رشتے دار میراث نہیں پائیں گے۔ آگے آنے والی آیات میں مختلف رشتے داروں کے حقوق متعیّن کرتے ہوئے ان احکامات کو’’ اللہ کی حدود‘‘ قراد دیا گیا۔ اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت پر جنّت کی خُوش خبری اور اِن حدود کی پامالی کی صُورت میں دائمی اور رُسوا کُن عذابِ جہنّم کی وعید سُنائی گئی ۔ اِس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں عورتوں کے حقِ وراثت کی ادائی انتہائی اہم معاملہ ہے، مگر ہمارے معاشرے میں عمومی جہالت، اسلامی احکامات سے عدم واقفیت، جاگیردارانہ ذہنیت اور ہندو تہذیب کے اثرات کی بنا پر خواتین کی حق تلفی ایک عمومی رویّہ ہے۔ البتہ ،یہ بات خوش آئند ہے کہ مختلف علمی، دعوتی اور سماجی حلقوں میں اِس معاملے پر آواز اُٹھائی جارہی ہے اور اس پر عمل درآمد کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

شریعتِ اسلامی میں عورت مختلف حیثیتوں میں وراثت کی حق دار قراد دی گئی ہے، البتہ یہ ضروری نہیں کہ ہر صُورت اور ہر حیثیت میں خاتون وراثت پائے۔ یہ مختلف حیثیت ماں، بیوی، بیٹی، نانی، دادی، نواسی، پوتی، بہن (سگی، ماں شریک، باپ شریک)، خالہ اور پھوپھی کی ہیں۔ ان میں سے کچھ رشتوں کے حصّوں کا تناسب قرآنِ پاک اور سنّتِ رسول ﷺ نے طے کر دیا ہے، جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ فقہی اصطلاح میں خواتین ذوی الفروض، عصبات اور ذی الارحام کی حیثیت سے وراثت میں حصّہ پانے کی حق دار ہیں۔ 

تاہم، خواتین کے کچھ رشتے ایسے بھی ہوتے ہیں، جہاں وہ قریبی ہونے کے باوجود تَرکے کی حق دار نہیں ہوتیں۔ جیسے سوتیلی ماں، سوتیلی بیٹی، ساس، بہو، نند، بھابھی، چچی، ممانی وغیرہ۔ کیوں کہ ان کے درمیان خون کا رشتہ نہیں ہوتا اور ان کا تعلق دوسرے خاندانوں سے ہوتا ہے، جہاں سے وہ تَرکے میں حصّہ پاتی ہیں۔ نیز، رضاعت کے رشتے بھی وراثت کے حق دار نہیں۔اِسی طرح منہ بولی بیٹی، بیٹا یا لے پالک بیٹی، بیٹے کا بھی تَرکے میں کوئی حصّہ نہیں۔ تاہم، پوتے کے لیے وصیّت میں تہائی حصّہ رکھا جا سکتا ہے۔وراثت کی تقسیم کے ان اصولوں کو صنفی امتیاز قرار دینے والے بیٹے اور بیٹی کے درمیان تقسیم کو بنیاد بناتے ہیں اور عورت کو نصف حقوق دینے کا الزام لگاتے ہیں، جب کہ عورت مختلف حیثیتوں میں مختلف حصّہ پاتی ہے۔قرآنِ پاک نے حصّوں کی تقسیم کچھ یوں فرمائی ہے۔بیٹی کا حصّہ: اگر متوفّی کی اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شامل ہوں، تو بیٹیاں، بیٹوں کی نسبت نصف حصّہ پائیں گی۔( سورۃ النساء11)یہاں اللہ تعالی نے لڑکیوں کا حصّہ طے کیا ہے اور یوں وہ ذوی الفروض میں ( جنہیں حصّہ ملنا لازم ہے) شامل ہیں۔ لڑکی کا خاص طور پر ذکر اس کے حقِ وراثت کی اہمیت بھی واضح کرتا ہے۔ اگر متوفّی کی صرف ایک بیٹی ہو یا بیٹا نہ ہو، تو بیٹی کو نصف حصّہ ملے گا اور اگر بیٹیاں دو یا دو سے زائد ہوں اور کوئی بیٹا نہ ہو، تو بیٹوں کے لیے تَرکے کا دو تہائی حصّہ ہے۔ باقی تَرکہ دیگر ورثا میں تقسیم ہو گا۔ 

بیوی کا حصّہ:متوفّی کی اولاد ہونے کی صُورت میں بیوی کا آٹھواں حصّہ ہوگا، جب کہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں ایک چوتھائی اُسے ملے گا۔ اگر متوفّی کی ایک سے زائد بیویاں ہوں، تو وہ سب آٹھویں یا چوتھائی حصّے میں برابر کی شریک ہوں گی۔ماں کا حصّہ: اگر میّت صاحبِ اولاد ہو، تو اُس کے والدین میں سے ہر ایک کو تَرکے کا چھٹا حصّہ ملے گا اور اگر میّت کی اولاد نہ ہو اور والدین ہی وارث ہوں، تو ماں کو تیسرا حصّہ دیا جائے گا۔ اگر میّت کے بھائی، بہن بھی ہوں، تو بھی ماں کو چَھٹا حصّہ ملے گا۔بہن کا حصّہ : اگر متوفّی کی کوئی اولاد ہو، نہ والدین زندہ ہوں اور نہ ہی بھائی ہوں، تو ایک بہن کی صُورت میں تَرکے کا نصف حصّہ اور ایک سے زائد بہنیں ہونے کی صُورت میں اُنہیں تَرکے کا دو تہائی حصّہ ملے گا، جس میں وہ سب شریک ہوں گی۔

اگر والدین، دادا، اولاد نہ ہو اور بہنوں کے ساتھ، بھائی بھی موجود ہوں، تو بہنوں کو بھائیوں کی نسبت آدھا حصّہ ملے گا۔ اگر متوفّی کی بیٹی یا پوتی وغیرہ میں سے کوئی موجود ہو، تو اُس بیٹی یا پوتی کا حصّہ نکال کر باقی حصّہ بہنوں کو ملے گا۔ بعض صورتوں میں ماں شریک اور باپ شریک بہنیں بھی وراثت میں حصّہ پاتی ہیں۔نانی، دادی کا حصّہ :ماں اور باپ کی موجودگی میں دادی اور نانی کا حصّہ نہیں ہوتا۔ اگر والدین فوت ہو چُکے ہوں، تو چھٹا حصّہ نانی اور دادی کے لیے ہوگا۔ اگر اُن میں سے کوئی ایک ہے، تو صرف چھٹا اس کا ہے اور اگر زیادہ ہیں، تو اس میں سب حصّے دار ہوں گی۔

تَرکے میں عورت کا حق بعض صُورتوں میں مَردوں کی نسبت کم رکھا گیا ہے، تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے خاندانی نظام میں کفالت کی ذمّے داری بنیادی طور پر مَرد کے ذمّے ہے۔ مرد کو بیوی بچّوں، والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ ان صُورتوں میں، جہاں مرد کو خاندان کے دیگر افراد کی کفالت کرنی تھی، نسبتاً زیادہ حصّہ دیا گیا، جب کہ کچھ صُورتوں میں مَردوں کا حصّہ عورتوں کے برابر بھی ہوتا ہے۔ مثلاً متوفّی کے والدین کے تَرکے میں مساوی حصّے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ماں شریک بہن بھائیوں کا بھی تَرکے میں برابر حصّہ ہے۔ کسی موقعے پر عورت بحیثیت بیوی، اپنے بچّوں کے انفرادی حصّے سے زیادہ وصول کر سکتی ہے۔ 

یعنی معاملہ صنفی امتیاز کا نہیں، بلکہ ایک نظام کے تحت اللہ تعالیٰ کے طے شدہ اصولوں کا ہے۔بسا اوقات لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص کا بیٹا نہ ہو اور صرف بیٹی یا بیٹیاں ہوں، تو کیا وہ اپنی جائیداد اُن کے نام کر سکتا ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد پر تصرّف کا مکمل حق رکھتا ہے اور بیوی، بیٹی کے نام جائیداد منتقل کر سکتا ہے۔ تاہم، اگر اپنی زندگی میں ایسا نہ کر سکے، تو وفات کے بعد جائیداد شریعت کے مقرّر کردہ قانون کے مطابق ہی تقسیم ہو گی۔

ہمارے معاشرے میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت سے غلط رویّے پائے جاتے ہیں۔ اُن میں جہیز کو وراثت کا متبادل سمجھنا، قرآن سے شادی یا حق بخشوانے کے ذریعے شادی سے روکنا اور وراثت کا اہل نہ سمجھنا، بہن کی کفالت کو وراثت کا بدلہ سمجھنا اور بہنوں کو بھائیوں کے لیے اپنا حق چھوڑنے پر آمادہ کرنا شامل ہیں۔ یہ تمام صُورتیں بہنوں کا حق غصب کرنے کے مترادف ہیں۔ جہیز ،حقِ ترکہ کا نعم البدل نہیں، بلکہ وہ والدین یا بھائیوں کی طرف سے تحفے کی حیثیت رکھتا ہے، جب کہ ترکہ اللہ تعالیٰ کا مقرّرہ کردہ حق ہے۔ عورت کو جہیز کی صُورت میں جتنا بھی مال دیا جائے، اُس کا حقِ وراثت پھر بھی برقرار رہتا ہے۔ 

اِسی طرح، قرآن سے شادی یا حق بخشوانے کی آڑ میں حقِ تَرکہ سے محروم کرنا ظلم اور شریعت سے مذاق ہے۔ علاوہ ازیں، اگر بھائی، بہن کی کفالت کر رہے ہوں، تو اِس بنا پر بھی وہ تَرکے میں بہن کا حصّہ روکنے کے مجاز نہیں، کیوں کہ باپ کی غیر موجودگی یا بڑھاپے کی صُورت میں بھائی کی ذمّے داری ہے اور وراثت بہن کا حق۔ بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دُگنا حصّہ دینے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ وہ بیٹا، باپ کے بعد ماں اور اپنے بہن بھائیوں کی کفالت کا پابند ہے۔ بہنوں کی طرف سے بھائیوں کے حق میں اپنے حصّے سے دَست بردار ہونے یا اسے درست سمجھنے کی روایت اسلام اور معاشرتی انصاف کے خلاف ہے۔بدقسمتی سے عورت کی طرف سے اپنا حصّہ طلب کرنے کو بھائیوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ کرنے کا سبب سمجھا جاتا ہے۔ان رسومات کا انفرادی، معاشرتی اور حکومتی سطح پر تدارک بہت ضروری ہے۔ اس حوالے سے ماضیٔ قریب میں چند قانونی اقدامات بھی کیے، تاہم اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 

اگر ہم اپنے گھروں میں خواتین کو حصّہ دیں گے اور خواتین بھی اپنا حصّہ لینے کی روایت کو معاشرے میں رواج دیں گی، تو اِن شاء اللہ تعلقات خراب ہونے کی فضا کا خاتمہ ہو جائے گا۔اگر بھائی اور دیگر رشتے دار بہنوں کے حقِ ترکہ پر قابض ہونے کی کوشش کر رہے ہوں، تو خواتین کو اپنے حق کے حصول کے لیے آواز اٹھانی چاہیے، جس کی مختلف صُورتیں ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلے تو عزیز و اقارب کے دبائو کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اگر اس طرح حق نہ ملے، تب قانونی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔ قانونی چارہ جوئی کے لیے یہ بات اہم ہے کہ خواہ کتنا بھی عرصہ گزر جائے، اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ وراثت کے مقدمات میں قانونِ میعاد کا اطلاق نہیں ہوتا۔ 

البتہ ،موجودہ عدالتی نظام کی وجہ سے اخراجات اور مقدمات میں درکار وقت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ وراثت کے معاملات فیملی کورٹس کے ذریعے طے کیے جائیں، تو کم خرچ اور جلد انصاف کی صُورت پیدا ہو سکتی ہے۔پھر یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ تقسیمِ وراثت کے لیے منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد، نیز دیہی اور شہری جائیداد کے لیے مختلف طریقۂ کار اختیار کرنے ہوتے ہیں۔ جن میں پٹواری کے ذریعے’’ رجسٹر حق داران‘‘ میں نام کا اندراج یا وراثت نامے اور جانشینی کے سرٹیفیکیٹ وغیرہ کا حصول شامل ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پینشن، بینوویلنٹ فنڈ، گروپ انشورنس، وارث کو خدمات کی بنا پر ادا کی جانے والی رقم اور حادثات کے شکار افراد کے لواحقین کو حکومت کی طرف سے دیا جانے والا معاوضہ تَرکے میں شامل نہیں، بلکہ ان تمام صُورتوں میں یہ رقم متوفّی کے اہلِ خانہ کی ملکیت ہو گی۔ اہلِ خانہ کی تعریف میں متوفّی کی بیوی اور اگر ملازم خاتون ہو، تو اُس کا شوہر، متوفّی کی اولاد شامل ہے۔ اس کے علاوہ، متوفّی کے والدین، بہن بھائی( غیر شادی شدہ، مطلقہ، بیوہ ) اہلِ خانہ میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ 

البتہ، سرکاری محکموں میں جاری پراویڈنٹ فنڈ کی رقم تَرکے میں شمار ہوتی ہے اور اگر متوفّی اپنے سرکاری کاغذات میں کسی ایک شخص کو اس کا حق دار نام زَد کر چُکا ہو، پھر بھی اس نام زدگی کی حیثیت صرف وصولی کی حد تک ہوتی ہے۔ نیز،نابالغ بچّی بھی اگر جائیداد میں حصّے دار ہے، تو اپنا حصّہ پائے گی، البتہ بلوغت سے پہلے وہ اپنی جائیداد کی خود خرید و فروخت نہیں کر سکتی، تاہم اپنے وَلی( قانونی سرپرست) کے ذریعے ایسے اقدامات کر سکتی ہے۔ ولی کے تقرّر کے لیے عدالت سے سرٹیفکیٹ لینا ضروری ہوگا اور ولی کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ نابالغ کے مال کی حفاظت کرے اور بلوغت کے بعد مال اُس کے حوالے کردے۔

تازہ ترین