• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی مسلم لیگ نون پر کی گئی متعدد تنقیدوں میں ایک تنقید یہ تھی کہ 2014ء میں جب عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمتیں گر رہی تھیں تو حکومت وہ ریلیف عوام تک نہیں پہنچا رہی تھی اور اسد عمر صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ پیٹرول 60روپے فی لیٹر تک لاکر دکھا سکتے ہیں۔ ان دنوں پی ٹی آئی کا دھرنا بھی چل رہا تھا اور اِس طرح کی باتیں کنٹینر سے بار بار گونج رہی تھیں۔ عوام کے ساتھ اِس کو ظلم اور ناانصافی قرار دیا جا رہا تھا۔ اب یہ تو نہیں معلوم کہ کیا دھرنے کے دباو ٔکی وجہ سے قیمتیں کم ہوئیں یا عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کے ردّ و بدل کے اثرات آنے میں وقت لگالیکن پیٹرول واضح طور پر سستا ہو گیا۔ آج 2020ء میں بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں تیزی سے گر رہی ہیں لیکن جہاں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ریلیف کے پیاسے عوام کو دس سے پندرہ روپے تک کا ریلیف دیا جائے گا، اِس مہنگائی میں ان کو سانس لینے کا موقع ملے گا، وہیں ٹیکس بڑھا دیا گیا اور محض 5 روپے پیٹرول کی قیمت کم کی گئی۔ اور چونکہ پیٹرول زیادہ سستا ہو گیا ہے تو نیا ٹیکس لگا گر قیمت کو تھوڑا بیلنس رکھا گیا ہے۔اخباری رپورٹس کے مطابق دبئی کروڈ (آئل)کا ریٹ 62ڈالر فی بیرل سے 50‬ڈالر پر آگیا ہے اور یہاں پر ڈیزل پر پٹرولیم لیوی کو 7اعشاریہ 03 اور پیٹرول پر لیوی کو 4اعشاریہ 75روپے بڑھا دیا گیا ہے۔ حالانکہ اوگرا نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں زیادہ کمی کی جائے کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 19‎فیصد تک کمی آئی ہے لیکن حکومت نے عوام کو صرف 4فیصد تک کا ریلیف دیا ۔اب سوال یہ ہے کہ حکومت کو ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ایسے وقت جب ویسے ہی مہنگائی کی وجہ سے حکومت شدید تنقید کی زد میں ہے، یہ ایک اچھا موقع تھا کہ حکومت موقع کا فائدہ اٹھا کر عوام کے لیے آسانی پیدا کرتی۔ یہ سارا مسئلہ ایف بی آر کے ریونیو شارٹ فال کا ہے۔ اِس مالی سال میں ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 5500ارب روپے تھا جسے بعد ازاں کم کر دیا گیا مگر اب بھی 325ارب روپے کا شارٹ فال ہے اور یہ ہر ماہ بڑھ رہا ہے۔ مالی سال کے اختتام تک یہ شارٹ فال 600سے 750ارب روپے تک بھی جا سکتا ہے۔ ان حالات میں اِس کو پورا کرنے کے لیے پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے اور حکومت امید کر رہی ہے کہ اِس اضافے سے جون تک 40ارب روپے حاصل کر لے گی۔افسوس کی بات یہہے کہ یہ وہی آزمودہ طریقہ ہے جس سے ہر حکومت آسانی سے ٹیکس کلیکشن بڑھا لیتی ہے، اِس کو بالواسطہ (اِن ڈائریکٹ) ٹیکس کہا جاتا ہے اور یہ ہمارے غریب عوام کے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہے۔ حکومت کے لیے تو یہ بہت آسان ہوتا ہے کہ کسی بھی مخصوص چیز پر ٹیکس لگا دیا جائے جیسے پیٹرول۔ اب ہر وہ شخص جو پیٹرول خریدے گا، ٹیکس دے گا۔ اِس میں حکومت کی قابلیت اور اہلیت کا اتنا مسئلہ نہیں ہوتا کیونکہ تیل کی چند ہی کمپنیاں ہیں جن سے حکومت کو لین دین کرنا پڑتا ہے لیکن اِس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ غریب اور امیر دونوں کو ایک ہی چھری سے ہانکا جاتا ہے۔ ایک کروڑ پتی شخص فی لیٹر پیٹرول پر اتنا ہی ٹیکس دیتا ہے جتنا ایک غریب آدمی۔ اور چونکہ ہمارے ہاں غربت زیادہ ہے تو زیادہ تر اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کا بوجھ غریب عوام پر ہی پڑتا ہے۔ اِس بار تو زیادہ ظلم کی بات یہ ہے کہ صرف اپنی ناقص کارکردگی کو چھپانے کے لیے عوام کا وہ ریلیف جو ان کا حق تھا، ان سے چھین لیا گیا ہے۔ اِن ڈائریکٹ ٹیکسز بہت بڑی ناانصافی ہیں کیونکہ ٹیکس کا مقصد دولت کو امیروں سے لے کر غریبوں میں تقسیم کرنا ہوتا ہے ،غریب لوگوں پر بھی اتنا ہی بوجھ ڈال کر اِس مقصدکو پورا نہیں کیا جا سکتا۔ٹیکس کلیکشن کا زیادہ فوکس ڈائریکٹ ٹیکسز پر ہونا چاہیےکیونکہ اصل ٹیکس چوری بھی یہیں ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے شدید محنت کی ضرورت ہے، اس لیے اس پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی۔پھر یہ بات بھی درست ہے کہ عمومی طور پر جو لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں ان کے پیچھے کم جایا جاتا ہے اور جو لوگ ٹیکس نیٹ میں ہیں، اُنہی کو بار بار پکڑا جاتا ہے۔ ٹیکس چوری بھی زیادہ اسی جگہ ہوتی ہے مگر بڑے مگرمچھوں کو نہیں پکڑا جاتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ یا تو حکومتوں کے ساتھ ہوتے ہیں یا ان کے مفادات کی حفاظت دیگر طریقوں سے کر لی جاتی ہے ۔ہمارے ٹیکس کا مسئلہ تب تک درست نہیں ہو سکتا جب تک اِس بات پر غور نہ کیا جائے کہ اگر ٹیکس شارٹ فال ہے تو اپنے نظام کی درستی کی جائے بجائے یہ کہ غریب عوام پر بوجھ ڈال دیا جائے۔ یہ بات الیکشن سے پہلے ہمیں اِسی حکومت کے لوگوں نے سکھائی تھی۔ اسد عمر صاحب اب بھی اِس حکومت کا حصہ ہیں، اُس وقت کی طرح اب بھی ان کا مؤقف یہی ہے یا نہیں، یہ تو مجھے نہیں پتا۔ لیکن یہ وعدہ خلافی ہے یا ظلم، یا پھر دونوں ہی چیزیں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین