• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مغربی دنیا کے صحافتی معیار کے گن گانے والوں کو یہ جان کر بہت افسوس ہو گا کہ خود مغرب کے سنجیدہ صحافی اُن کے اِس مفروضے سے اتفاق نہیں کرتے ۔ ویت نام کی جنگ میں بطور میرین داد شجاعت دینے والے سابق فوجیوں کے اخبار ”ویٹرنز ٹودے“ کے سینئر ایڈیٹر گارڈن ڈف کے خیال میں مغربی صحافت وفات پا چکی ہے بلکہ ”سستی شہرت پسندی“ کے ہاتھوں قتل ہو چکی ہے اور اس کی تدفین بھی ہو چکی ہے۔
مغربی صحافت کی انٹر نیٹ کے (BLOGGERS) اور نام نہاد ”میڈیا پنڈتوں“ کے ذریعے خودکشی بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ جدید الیکٹرانک میڈیا کے ناجائز استعمال کے حوالے سے پنجابی زبان کا یہ محاورہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کہ ”پنڈ اجے وسے وی نئیں تے اچکے پہنچ گئے“ ماضی کی شاندار تاریخ رکھنے والے مغربی میڈیا پر یہ مہلک حملہ سستی شہرت پسندی اور ہوس زر کے ذریعے کیا گیا جو معیاری صحافت کی جانی دشمن سمجھی جاتی ہے۔ ثقافتی حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ معیاری صحافت اور سستی شہرت پسندی میں وہی فرق ہے جو ہندوستان کے عظیم اداکار دلیپ کمار اور ویناملک میں ہو سکتا ہے۔
گارڈن ڈف کے مطابق جدید ترین الیکٹرانک میڈیا کو سب سے زیادہ نقصان ان ”بلاگرز“ اور نام نہاد ماہرین نے پہنچایا ہے جن کا صحافت، ابلاغ، معروض اور زمینی حالات سے کوئی تعلق اور سروکار نہیں ہے۔ وہ محض لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور انہیں مخرب اخلاق لذت پسندی کے اندھیروں میں پھینک سکتے ہیں۔ گارڈن ڈف کی تحقیق کے مطابق ویب سائٹس اور انٹرنیٹ پر گندگی پھیلانے والوں میں اکثریت اخلاقی جرائم میں ملوث رہی ہے اور قید و بند
سے بھی گزر چکی ہے۔ ”متبادل میڈیا“ پر اس نوعیت کے اشتہارات بھی چل رہے ہیں کہ گھروں سے بھاگے ہوئے یا اغوا کئے گئے بچے اور بچیاں جنسی استعمال کے لئے فراہم کی جا سکتی ہیں۔ نیویارک کی ایک لڑکی نے اس نوعیت کے اشتہارات کے جواب میں ایک اشتہار دیا ہے کہ ”آپ لوگ مال مارٹ کے ذریعے کوئی بچہ خرید سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ انٹرنیٹ کے بیک پیج سے مجھے بھی خرید سکیں گے۔ “
بیک پیج کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ پانچ ویب سائٹس پر 70 فیصد عصمت فروشی بیک پیج کے ذریعے ہو رہی ہے۔ صرف امریکہ میں جاری ہونے والے ایسے اشتہارات کی سالانہ کمائی دو کروڑ بیس لاکھ ڈالرز بتائی جاتی ہے۔ یہی کردار ولیج وائس میڈیا کا بتایا جاتا ہے۔
ولیج وائس میڈیا اس وقت امریکہ میں عصمت فروشی کے کاروبار کی سب سے بڑی ویب سائٹ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 48ریاستوں کے اٹارنی جنرلز نے اس ویب سائٹ کو دھمکی دی ہے کہ وہ جسم فروشی کے مکروہ کاروبار باز آجائیں ورنہ ان کے خلاف بہت سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس ویب سائٹ کا ایک اخبار بھی چھپ رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ کے 94 ہزار شہریوں کے دستخط بھی حاصل کئے گئے جو مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس مکروہ کاروبار کے خلاف قانون کو حرکت میں لایا جائے جو عالمی سطح پر الیکٹرانک میڈیا کو بدنام کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
عدالتوں میں وافر مقدار میں ثبوت فراہم کئے جارہے ہیں کہ بہت ہی کم عمر کی امریکی اور غیرملکی بچیوں کو بیک پیج کے ذریعے ”مارکیٹ“ کیا جا رہا ہے اور یہ کاروبار امریکہ کی بائیس ریاستوں میں چل رہا ہے۔ اس کاروبار میں ملوث لوگوں کی ہمت، جرأت اور دیدہ دلیری کا یہ ثبوت ہے کہ وہ اپنے پوسٹل ایڈریسز ، نام، پتے اور ٹیلی فون نمبرز بھی جاری کرتے ہیں مگر سمجھ میں نہیں آ رہا کہ انہیں کس کی، کس قسم کے لوگوں، اداروں اور مافیا کی سرپرستی اور تحفظ حاصل ہے کہ انتظامیہ ان کے خلاف کوئی موثر قدم اٹھانے سے قاصر ہے یا گریز کرتی ہے یا پھر اس مکروہ کاروبار میں حصہ دار ہو گی۔
تازہ ترین