• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست اور سیاست دانوں کے بارے میں کچھ اچھا لکھنے کا موڈ نہیں اس لئے آیئے چند اچھی، روح پرور باتیں کریں۔

(۱)پہلی بات ایک نہایت اعلیٰ کتاب پر تبصرہ ہے۔ یہ کتاب رجال الصالحین ہے اس کے مصنف جناب اشرف علی البریدی ہیں۔ اس کتاب میں اللہ رب العزت کا ذکر بھی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ دل کاسکون اللہ تعالیٰ کے ذکر میں پوشیدہ ہے۔ اس کتاب کو آپ اللہ نامہ کہیں تو مناسب ہے۔ آج کا پڑھا لکھا، تعلیم یافتہ طبقہ مذہب سے بہت دور ہے اسلئے وہ محض تماشائی ہے۔ اشرف علی البریدی صاحب نے ایک قابلِ تحسین کام کیا ہے کہ اسلام کی اصل شکل و صورت جو کہ مسخ ہوتی جارہی ہے کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ دیکھئے قدرِ جوہر جوہری داند۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ توحید باری تعالیٰ کے ضمن میں اتنی واضح اور مُفصّل تشریح بہت ہی کم ملتی ہے۔ آپ اس کتاب کو نہ صرف یہ کہ اسلامی تحقیقی ادب میں ایک بے حدمفید اضافہ پائیں گے بلکہ یہ ایک قابلِ تحسین منفرد کاوش بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے مادی دور میں ایک نہایت مفید، معلوماتی کتاب ہے۔ کفر و شرک کے اور بدعت کے فلک بوس ایوانوں میں یہ کتاب یقیناً ہل چل مچا دے گی۔ اشرف علی صاحب کا اسلوبِ بیان بہت دلپذیر، عالمانہ اور بااثر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اشرف علی صاحب اردو کے علاوہ فارسی و عربی زبان سے بھی واقف ہیں۔ میری نیک دعائیں جناب اشرف علی صاحب کیلئے ہیں اور داغ دہلوی کا شعر مستعار لے کر ان کیلئے یہ دُعا ہے۔

خط ان کا بہت خوب ہے اور تحریر بھی اچھی

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

(2)قُدرت اللہ شہاب بہت اعلیٰ، نیک و شریف انسان تھے۔ میری ان سے دوستی ہالینڈ میں ہوئی۔ ہماری شادی 9مارچ 1964ءکو پاکستانی سفارت خانے میں مرحوم جمیل الدین حسن نے نکاح پڑھایا اور شہاب صاحب میرے گواہ تھے۔ 1967ءمیں جب میں اپنی بیگم کیساتھ پاکستان(کراچی) آیا تو ہم دونوں کراچی سے اسلام آباد آئے اس وقت یہ سیکریٹری تعلیم تھے ہم سے مل کر بےحد خوش ہوئے اور ہماری خاطر مدارت کی۔ خوش قسمتی سے اس وقت جمیل الدین حسن بھی دفتر خارجہ میں تھے ہم ان سے بھی ملے اور وہ بھی بے حد خوش ہوئے۔ یہ دونوں فرشتہ خصلت اشخاص ہماری زندگی کی نہایت خوشگوار یادیں ہیں۔ اللہ پاک انکو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔ قدرت اللہ شہاب، شہاب نامہ میں لکھتے ہیں۔’’ایک بار میں کسی دور دراز علاقے میں گیا ہوا تھا وہاں پر ایک چھوٹے سے گائوں میں ایک بوسیدہ سی مسجد تھی۔ میں جمعہ کی نماز پڑھنے اس مسجد میں گیا تو ایک نیم خواندہ سے مولوی صاحب اردو میں بےحد طویل خطبہ دے رہے تھے۔ ایک داستان کچھ ایسے انداز سےانہوں نے سنائی کہ تھوڑی سی رقت طاری کرکے وہ سیدھی میرے دل میں اتر گئی۔ یہ قصہ ایک باپ اور بیٹی کی باہمی محبت و احترام کا تھا۔ باپ حضرت محمدﷺ تھے اور بیٹی حضرت بی بی فاطمہؓ تھیں۔ مولوی صاحب بتا رہے تھے کہ رسول کریم ؐجب اپنے صحابہ کرام ؓکی کوئی درخواست یا فرمائش منظور نہ فرماتے تھے تو بڑے بڑے برگزیدہ صحابہ کرامؓ بی بی فاطمہ ؓکی خدمت میں حاضر ہوکر ان کی منّت کرتے تھے کہ وہ ان کی درخواست حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جائیں اور اسے منظور کروالائیں۔ حضور نبی کریمﷺ کے دل میں بیٹی کا اتنا پیار اور احترام تھا کہ اکثر اوقات جب بی بی فاطمہؓ ایسی کوئی درخواست یا فرمائش لے کر حاضر خدمت ہوتی تھیں تو حضورﷺ خوش دلی سے منظور فرما لیتے تھے۔

یہ سب سن کر قبول کرنے کے لئے میرا دل بے اختیار آمادہ ہو گیا۔ جمعہ کی نماز کے بعد میں اسی بوسیدہ سی مسجد میں بیٹھ کر نوافل پڑھتا رہا۔ کچھ نفل میں نے حضرت بی بی فاطمہ ؓ کی روح مبارک کو ایصال ثواب کی نیت سے پڑھے۔ پھر میں نے پوری یکسوئی سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگی، ’’یا اللہ میں نہیں جانتا کہ یہ داستان صحیح ہے یا غلط لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ تیرے آخری رسولؐ کے دل میں اپنی بیٹی خاتون جنت کے لئے اس سے بھی زیادہ محبت اور عزت کا جذبہ موجزن ہوگا۔ اس لئے میں اللہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حضرت بی بی فاطمہؓ کی روح کو اجازت مرحمت فرمائیں کہ وہ میری ایک درخواست اپنے والد گرامیﷺ کے حضور پیش کرکے منظور کروالیں۔ درخواست یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ کا متلاشی ہوں‘ سیدھے سادھے مروّجہ راستوں پر چلنے کی سکت نہیں رکھتا اگر سلسلہ اویسیہ واقعی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے تو اللہ کی اجازت سے مجھے اس سلسلے سے استفادہ کرنے کی ترکیب اور توفیق عطا فرمائی جائے‘‘۔

اس بات کا میں نے اپنے گھر میں یا باہر کسی سے ذکر تک نہ کیا۔ چھ سات ہفتے گزر گئے اور میں اس واقعہ کو بھول بھال گیا۔ اچانک سات سمندر پار کی میری ایک جرمن بھابھی کا ایک عجیب خط موصول ہوا۔ وہ مشرف بہ اسلام ہوچکی تھیں اور نہایت اعلیٰ درجہ کی پابندصوم و صلوٰۃ خاتون تھیں۔ انہوں نے لکھا تھا :

The other night I had the good fortune to see "Fatima", daughter of the Holy Prophet (peace be upon him) in my dream. She talked to me most graciously and said, "Tell your brother-in-law Qudrat Ullah Shahab, that I have submitted his request to my exalted Father who has very kindly accepted it".

’’ اگلی رات میں نے خوش قسمتی سے فاطمہ ؓ بنت رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا، انہوں نے میرے ساتھ نہایت تواضع اور شفقت سے باتیں کیں اور فرمایا کہ اپنے دیور قدرت اللہ شہاب کو بتائو کہ میں نے اس کی درخواست اپنے برگزیدہ والد گرامیﷺ کی خدمت میں پیش کردی تھی۔ انہوں نے ازراہِ نوازش منظور فرمالی ہے‘‘۔

یہ خط پڑھتے ہی میرے ہوش و حواس پر خوشی اور حیرت کی دیوانگی سی طاری ہوگئی۔ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدم زمین پر نہیں پڑ رہے بلکہ ہوا میں چل رہے ہیں‘‘۔

تازہ ترین