• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کم عمر بچے روزانہ زیادہ سے زیادہ کتنی دیر اسکرین دیکھ سکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کے متعلق کافی عرصے سے سائنسی اور طبی بحث جاری ہے۔ اس بحث نے بالخصوص والدین کو شدید ذہنی دباؤ میں ڈال دیا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO)نے اس سلسلے میں ایک مفصل تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے، اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد والدین کو اس حوالے سے فیصلہ کرنے میں یقیناً آسانی ہوگی۔

عالمی ادارۂ صحت نے کچھ وقت پہلے ہی بچوں کے اسکرین ٹائم سے متعلق نئے رہنما اصول جاری کیے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دو برس سے کم عمر بچوں کو ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر اسکرین کے سامنے نہیں بٹھانا چاہیے جبکہ دو برس سے زیادہ اور چار برس کی عمر تک کے بچوں کے اسکرینز کے سامنے بیٹھنے کا وقت زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ ہونا چاہیے۔

ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، ٹیبلٹ یا موبائل فون کی اسکرین کے سامنے بیٹھنے سے بچہ غیر فعال ہوتا ہے جو عالمی سطح پر بچوں کی اموات کا ایک سبب بن سکتا ہے یا اس میں موٹاپے جیسی بیماریوں کے ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی جسمانی حرکات و سکنات، بیٹھے رہنے کے رویے اور ان کے سونے کے اوقات کے بارے میں رہنما اصول جاری کیے ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے اسکرین کے سامنے بیٹھے رہنے کے بارے میں جاری کیے گئے انتباہ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو کسی بگھی، کار کی سیٹ یا جھولے میں باندھ کر ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں رکھنا چاہیے۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مندرجات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

نوزائیدہ بچے

٭ نوزائیدہ بچوں کو دن بھر میں کئی مرتبہ جسمانی طور پر فعال رکھیں اور کم از کم 30 منٹ کے لیے پیٹ کے بل اُلٹا لٹائیں تاکہ ہاضمہ بہتر ہو سکے۔

٭ اسکرین کے سامنے ساکت ہرگز نہ بٹھایا جائے۔

٭ نومولود بچوں کے لیے دن میں 14 سے17گھنٹوں کی نیند لینا یقینی بنائیں، تاہم جب وہ 11ماہ کے ہو جائیں پھر ان کی نیند کے اوقات 12 سے 16 گھنٹے ہوسکتے ہیں۔

٭ مسلسل ایک گھنٹے سے زیادہ بچوں کو کسی بےبی سیٹ میں باندھ کر نہیں رکھنا چاہیے۔

1سے 2برس کے بچے

٭ کم از کم تین گھنٹوں کی کوئی نہ کوئی جسمانی ورزش کرائیں۔

٭ ایک برس سے کم عمر کے بچے کو ساکت بیٹھے اسکرین استعمال نہ کرنے دی جائے، تاہم دو برس سے بڑا بچہ ایک گھنٹے کے لیے اسکرین دیکھ سکتا ہے۔

٭ دن میں 11 سے 14 گھنٹوں کی نیند ضروری ہے۔

٭ ایک گھنٹے سے زیادہ کسی جگہ یا سیٹ پر باندھ کر نہ بٹھایا جائے، بغیر باندھے بھی دیر تک نہ بیٹھنے دیا جائے۔

3سے 4برس کے بچے

٭ انھیں کم از کم تین گھنٹوں کی کسی نہ کسی قسم کی جسمانی سرگرمی میں مصروف کیا جائے، جن میں ایک سخت قسم کی سرگرمی بھی شامل ہو۔

٭ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کے لیے اسکرین دیکھنے کا وقت مقرر کریں، اس سے بھی کم وقت ہو تو بہتر ہوگا۔

٭10سے 11گھنٹوں کی نیند ضروری ہے۔

٭ ایک گھنٹے سے زیادہ کسی جگہ یا سیٹ پر باندھ کر نہ بٹھایا جائے، بغیر باندھے بھی دیر تک نہ بٹھایا جائے۔

عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جاری کردہ رہنما اصول اب تک کی دستیاب معلومات پر مرتب کیے گئے ہیں۔

ڈاکٹر خوانا وِی لمسم، ڈبلیو ایچ او کی جانب سے رہنما اصول مرتب کرنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’بیٹھے رہنے کے وقت کو بہتر طور پر استعمال کیا جائے۔ مثال کے طور پر آپ بچے کے ساتھ کتاب پڑھیں۔ اس سے بچے کی زبان سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ ایک بچہ جسے خاموش کرنے کے لیے جھولے میں ٹیبلٹ کے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے، اسے بہتر وقت نہیں ملتا۔ بچوں کو زیادہ سے زیادہ جسمانی بھاگ دوڑ یا جسمانی حرکات کرنے کے مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں اور ہمیں ان کے غیرفعال بیٹھنے کے اوقات میں کمی کرنی چاہیے‘۔

ایسے ٹیلی ویژن پروگرام جو بچوں سے جسمانی ورزشیں کرواتے ہوں، وہ شاید ٹھیک ہوں لیکن اگر والدین یا نگرانی کرنے والا کوئی بھی شخص بچے کے ساتھ موجود ہو تو بہتر ہے۔

رپورٹ اور دیگر ممالک

امریکا میں 18ماہ سے کم عمر کے بچے اسکرین کا استعمال نہیں کرتے۔ کینیڈا میں دو برس سے کم عمر کے بچوں کے لیے اسکرین کا استعمال ممنوع ہے۔ اس کے برعکس، برطانیہ میں کوئی رہنما اصول نہیں ہیں۔

برطانیہ کے رائل کالج آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے ڈاکٹر میکس ڈیوی کہتے ہیں، ’ہماری اب تک کی تحقیق میں ایسا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا ہے جس سےا سکرین پر بیٹھنے کا وقت طے کیا جا سکے۔ ایک خاندان جس میں مختلف عمر کے بچے ہوں، وہاں ایک چھوٹے بچے کو کس طرح اسکرین کے سامنے بیٹھنے سے روکا جا سکے گا جیسا کہ رہنما اصولوں میں کہا گیا ہے‘۔

تازہ ترین