فتح مکہ کے بعد ان کے قتل کا فیصلہ ہوچکا تھا، بظاہر معافی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ یہ ان پندرہ مرد اور عورتوں میں سب سے پہلے تھے جن کے متعلق حکم ملا تھا کہ یہ جہاں بھی ملیں ان کو قتل کردیا جائے۔ ”کیا حرمِ کعبہ میں بھی؟“ اس سوال کے جواب میں میرے آقا سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ بیت اللہ کے پردے میں بھی چھپ جائیں پھر بھی“۔ یہ ان مرد اور عورتوں کا گروہ تھا جنہوں نے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں کی تھیں۔ شعر اور نثر میں آپ کی ”ہجو“ بیان کی اور لکھی تھی۔ مسلمان مردوں اور عورتوں کے بارے میں نازیبا اور فحش قسم کے الفاظ اور تراکیب استعمال کی تھیں۔ انہوں نے واضح طور پر توہین رسالت کی تھی اور امت مسلمہ کا دل دکھایا تھا۔ ان میں سے سرفہرست عبداللہ بن ابی سرح کا جرم تو دگنا تھا کیونکہ وہ پہلے اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوگیا تھا ارتداد کے جرم کی سزا قتل ہے۔ اسلام میں آنے کا دروازہ کھلا ہے اس میں کوئی زبردستی نہیں ہے جس کی مرضی اس میں داخل ہو جس کی مرضی داخل نہ ہو۔ اس حوالے سے قرآن مجید نے ارشاد فرامایا: (ترجمہ) ”دین میں کوئی زبردستی نہیں“۔ لیکن ایک دفعہ دین اسلام قبول کرنے کے بعد واپسی کا دروازہ بند ہے۔ عبداللہ بن ابی سرح نے اسلام قبول کرنے کے بعد ”مرتد“ ہونے کا جرم کیا تھا۔ ارتداد کا ناقابل معافی جرم کرنے کے بعد انہوں نے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی شان اقدس میں گستاخانہ کلمات کہے تھے لہٰذا اس شاتم رسول کے لئے قتل کا حکم صادر ہوا تھا۔ اسے جب اپنے قتل کے حکم کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس امان طلب کرنے کے لئے پہنچا۔ وہ حضرت عثمان کا دودھ شریک یعنی رضاعی بھائی تھا۔ حضرت عثمان اس کو لے کر بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچے اور اس کے لئے معافی کی درخواست کی۔ میرے آقا علیہ الصلوٰة والسلام نے اس کی گستاخیوں کی وجہ سے اس کی معافی قبول فرمانے سے انکار فرما دیا۔ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اصرار جاری رکھا اور مسلسل اس کے لئے معافی طلب فرماتے رہے۔ معلوم تھا کہ رحمة اللعالمین کا دریائے رحمت موجزن ہے اور معافی مل جائے گی۔ بالآخر میرے رحیم و کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان ذی النورین کی درخواست کو قبول فرمایا اور عبداللہ بن ابی سرح کو دوبارہ بیعت فرمایا اور اسلام میں داخل فرمایا۔ یہ عبداللہ بن ابی سرح کی خوش قسمتی کی ساعت تھی کہ یہ اس شخصیت کے قبول اسلام کی تجدید تھی جس نے آنے والے وقتوں میں فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص کے ڈپٹی کمانڈر انچیف کی ذمہ داریاں ادا کرنا تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر کی فتح کے بعد وہاں کے ایک علاقے کا نگراں مقرر کردیا۔ حضرت عثمان کے عہدہ خلافت میں عبداللہ بن ابی سرح کو مصر کا والی (گورنر) بنا دیا گیا۔ انہوں نے مصر کے گورنر کی حیثیت سے عادلانہ حکمرانی کا اعلیٰ معیار قائم کیا۔ انہوں نے دعا مانگی تھی کہ میری زندگی کا آخری عمل نماز فجر ہو۔ ان کی دعا قبول ہوئی اور ایک دن وہ فجر کی نماز کے دوران اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔
دشمن اسلام ابوجہل کے بیٹے عکرمہ بن ابی جہل کو بھی اس دن قتل کرنے کا حکم تھا۔ وہ ڈر کے مارے مکہ سے بھاگ گیا اور سمندر کی جانب چلا گیا۔ اس کی بیوی اُم حکیم شرف اسلام سے بہرہ ور ہوچکی تھیں، انہوں نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر عکرمہ کی معافی کی درخواست کی جسے میرے آقا نے قبول فرما لیا۔ ادھر عکرمہ ساحل سمندر سے روانہ ہونے والی کشتی میں سوار ہوگیا، یہ کشتی ”یمن“ کی طرف جا رہی تھی۔ دوران سفر سمندری طوفان نے آلیا۔ مسلمان مسافروں نے اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں دعائیں مانگنا شروع کیں تو عکرمہ نے اپنے بتوں کو پکارنا شروع کیا۔ مسلمان مسافروں نے تلقین کی کہ یہ بت جھوٹے خدا ہیں اورکوئی مدد نہیں کرسکیں گے تم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو وہی مدد فرمائے گا۔ عکرمہ نے کشتی کے ساتھیوں سے تو کچھ نہ کہا لیکن دل میں تہیہ کرلیا کہ اگر اس مصیبت سے نجات مل گئی تو وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرلے گا۔ کچھ دیر بعد سمندری طوفان تھم گیا اور کشتی واپس ساحل پر آگئی۔ اس کی بیوی ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں تک آپہنچی تھیں۔ بیوی نے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف ملنے والی معافی کی خوش خبری سنائی، دونوں میاں بیوی میرے آقا کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بدترین دشمن کے بیٹے کے استقبال کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اللہ رب العالمین کی طرف سے عطا کردہ ”علم غیب“ کے خزانوں کے امین میرے غیب دان نبی نے عکرمہ کی آمد سے پہلے ہی صحابہ کو اطلاع دے دی تھی کہ ”عکرمہ نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ یہاں پہنچنے والا ہے۔ اس کی موجودگی میں اس کے والد کے متعلق کوئی سخت بات نہ کہنا۔ کیونکہ مرے ہوئے لوگوں کی برائی کرنے سے ان کے زندہ اقارب کو صدمہ ہوتا ہے“۔
جونہی عکرمہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے میرے آقا نے کھڑے ہوکر ارشاد فرمایا: ”میں اس شخص کو مرحبا کہتا ہوں جو ایمان لانے کے بعد دور سے سفر کرکے یہاں پہنچا ہے“۔ عکرمہ کو ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ سر جھکائے کھڑے تھے اور ندامت کے احساس سے لبریز ہو کر پوچھا: ”کیا آپ نے مجھے معاف کردیا ہے؟ میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے مجھے معاف کردیا ہے؟“۔ ”تمہاری بیوی نے سچ کہا ہے، اب تم محفوظ ہو اور میری پناہ میں ہو“۔
یہی وہ عکرمہ ہیں جن کے قتل کا حکم ہوا تھا لیکن اب قیامت تک انہیں حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کہا اور لکھا جائے گا کیونکہ وہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ معافی سے سرفراز ہوئے تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں ابتدا میں عیسائیت قبول کرنے والے لوگوں کی اکثریت ”اچھوت“ لوگوں پر مشتمل تھی۔ یہ اچھوت ہزاروں سال سے ہندوستان کی سرزمین پر رہ رہے تھے، ہندووٴں کا فلسفہ ہی ذات پات اور نسل کی برتری پر مشتمل ہے جہاں ”برہمن“ سب سے اوپر اور اعلیٰ درجے کا شہری ہے اور ”شودر“ سب سے نچلی سطح کا، اسے اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ اور آج بھی ہندوستان میں اس کو کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہیں ہے اور شکایات ہیں کہ مسلسل ریکارڈ ہوتی رہتی ہیں۔ سرزمین ہند میں جب اولیاء کرام تشریف لائے تو انہوں نے ان اچھوتوں کو قریب بٹھایا ان کو سینے سے لگایا، ان کو محبتوں کی سوغات عطا کیں، ان کو اسلام قبول کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اپنے اخلاق سے ان کے دل جیت لئے اور انہوں نے اور ان کے خاندانوں نے حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرلیا۔ آج پاکستان و ہندوستان کے کروڑوں مسلمان افراد میں بہت سے ایسے ہیں جو اولیاء کرام کی تعلیمات اور اخلاق کا نتیجہ ہیں مگر آج ہم ان ہندووٴں اور عیسائیوں سے ”اچھوتوں“ کا سلوک کرکے ان کو ہمیشہ کیلئے اسلام سے دور کررہے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا تھا:
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا
اک بندے دا دل نہ ڈھائیں رب دلاں وچ رہندا