• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں ڈیما کریسی عوام کا خواب رہی ہے مگر اشرافیہ نے اسے ہمیشہ شکل بگاڑ کر ڈراؤنا خواب بنا دیا۔ 1990 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام حسین گوجر خان کے حلقے سے پچاس ہزار ووٹ لینے کے باوجود ایک نوآموز مسلم لیگی سے ہار گئے تو اسے ڈاکو کریسی قرار دیا۔ یہ وہی انتخابات تھے جنہیں اصغرخان کیس کے ذریعے شہرت دوام ملی۔ حبیب بنک کی رقم تقسیم ہوئی اور یونس حبیب نے پیسے بانٹے۔
پاکستان میں انتخابی دھاندلی ہمیشہ ہوئی سب سے بڑا دھاندلا 1977 میں ہوا جس کے بارے میں بھٹو صاحب کے معتمد ساتھی اور نیک نام بیورو کریٹ راؤ رشید نے اپنی کتاب ”جو میں نے دیکھا“ میں تبصرہ کیا ”سب سے زیادہ جو غیر ہر دلعزیز تھے وہ بھٹو صاحب کے منسٹرز تھے وہ کسی قیمت پر الیکشن ہارنے کے لئے تیار نہ تھے حالانکہ وہ کسی قیمت پر الیکشن جیت نہ سکتے تھے، ضلعی حکام پر اثر و رسوخ رکھتے تھے اصل میں جو دھاندالی کی انہوں نے کی اور ان کی وجہ سے یہ تاثر پھیلا کہ عام دھاندلی ہوئی ہے مثلاً سرگودھا کا حفیظ چیمہ، ناصر رضوی، اختر ملک کون انکار کر سکتا ہے کہ انہوں نے دھاندلی نہیں کی۔ “
ڈاکٹر غلام حسین پیپلز پارٹی کے دبنگ کارکن اور لیڈر تھے۔ 1977ء میں سیکرٹری جنرل اور سنٹرل کمیٹی کے اجلاس میں بولنے کی جرأت سے سرشار ، بھٹو صاحب سے حکومت کے خاتمے کے بعد انہوں نے پوچھا تھا کہ آپ قید ہو گئے تو پارٹی چیئرمین کون ہو گا۔ بھٹو نے کہا ”شیخ رشید“ پیپلز پارٹی میں خاندانی اور موروثی قیادت کا رواج پڑا تو غلام حسین پارٹی سے الگ ہو گئے۔ مارشل لاء دور میں کارکنوں نے ڈاکٹر صاحب کو مجبور کیا کہ وہ گرفتاری دیں، طرح دے گئے اور بولے ”میں غلام حسین ہوں امام حسین نہیں کہ یہ کام کروں۔ “
ڈاکٹر غلام حسین ملک چھوڑ گئے ورنہ دیکھتے کہ ڈاکو کریسی کیا ہوتی ہے۔ مخدوم سجاد حسین قریشی گورنر پنجاب تھے تو اللہ کریسی کی اصطلاح عام ہوئی۔ گزشتہ پانچ سال میں قوم نے ڈاکو کریسی کا نظارہ کیا جس کی تکمیل پر ہمارے سیاستدان اور دانشور خوشی سے دھمال ڈال رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کی جس ثقافتی محفل کو مجرا قرار دے کر چودھری شجاعت حسین اور سیّد مشاہد حسین پر تنقید کی جا رہی ہے وہ بھی ایک خسرے کا دھمال ہے جو شاید منتخب حکومت کے خاتمے کی خوشی میں ڈالا جا رہا ہے کیونکہ کوئی مانے نہ مانے اس بے فیض دور کا خاتمہ قوم کے لئے مژدہ جانفزا ہے۔ بجلی، گیس کی بندش، ہوشربا مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، بدامنی ، لوٹ مار اور توہین و تذلیل بھگتنے والے عوام ہی جانتے ہیں کہ یہ ڈیما کریسی یا ڈاکو کریسی انہیں کتنے میں پڑی۔ #
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں کہ جو واجب بھی نہیں تھے
پانچ سال کا تو مذکور ہی کیا ایک ایک دن قوم پر بھاری تھا۔ لوگ فوجی آمر کو بھول گئے کہ اس کے ساتھی بھی چور ڈاکو تھے مگر اتنے ندیدے پن کا مظاہرہ، ان لوگوں نے پیش کیا جو ہمارے منتخب عوامی نمائندے کا وطیرہ رہا۔ آخری روز سرکاری تعطیل منسوخ کر کے لوٹ مار، غیر قانونی تقرر و تبادلے اور سرکاری خزانے کی بندر بانٹ سے عوام دشمن نظام کی اصلیت اور ڈاکو کریسی کی ماہیت واضح کی۔ کسی کو شرم و حیا آئی نہ خوفِ خدا رہا۔ حیرت مگر الیکشن کمیشن پر ہے جس نے آخری روز کے احکامات اور اقدامات کو روکنے کے بجائے جائز قرار دے دیا حالانکہ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر خواجہ آصف اور کئی دیگر شور مچاتے رہے کہ دن دیہاڑے ڈکیتی کی یہ واردات روکی جائے۔ الیکشن کمیشن نے نگران وزیر اعظم کے لئے 62،63 کی شرط بھی اڑا دی تاکہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا اس اعلیٰ ترین قومی منصب پر فائز ہوکر ملکی آئین اور قومی جذبات و خواہشات کا مذاق اڑا سکے۔
بیسویں آئینی ترمیم کی آڑ میں نگران حکومتوں میں اپنی اپنی مرضی کے بندے داخل کرنے کے لئے خوب سودے بازی ہو رہی ہے۔ ایسے ایسے نام سامنے آ رہے ہیں کہ آدمی سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قسمت آخر کیوں پھوٹ گئی۔ عاصمہ جہانگیر اور شمس قاسم لاکھا؟
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
پہلے قومی خزانہ دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا #
گلشن کی شاخ شاخ کو ویران کیا گیا
یوں بھی علاج تنگی داماں کیا گیا
اب انتخابی عمل پر ڈاکہ ڈالنے کا پروگرام بن رہا ہے۔ تبھی کونوں کھدروں سے ایسے لوگ ڈھونڈے جا رہے ہیں جو ملک میں امن و امان اور معیشت کی صورتحال بہتر بنانے کے اہل ہوں نہ ہوں، عدلیہ اور فوج کے لئے بھلے ناقابل قبول ہوں اور ملک کو معاشی دیوالیہ پن سے نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکیں مگر پانچ سالہ لوٹ مار کو تحفظ فراہم کرنے پر تیار اور انتخابات بھی دونوں بڑی پارٹیوں کی مرضی کے مطابق کرائیں۔ کسی چور، ڈاکو اور بدکار کا راستہ روکنے کی کوششوں کو ناکام بنائیں۔ یہ بروقت انتخابات کرانے کی تدبیر ہے یا انتخابی عمل پر عوامی اعتماد ختم کرنے کی سازش؟ فیصلہ ہم آپ کو کرنا ہے، ڈیما کریسی یاڈاکو کریسی ؟
تازہ ترین