• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصباح طیّب، سرگودھا

ہمارا پیارا مذہب اسلام ہمیں صاف ستھرا رہنے کی تلقین کرتا ہے اور صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔جسمانی صفائی کے لیےغسل اور روحانی صفائی کےلیے تزکیۂ نفس ضروری ہے۔ ہمیں اپنی آنکھ، کان، ناک، ہاتھ پائوں سب صاف رکھنے ہیں کہ گندگی شیاطین کو پسند ہے اور ہمیں گندگی سے دُور رہ کر اس مشابہت سے بچنا ہے۔یہ اُس زمانے کی بات ہے، جب صحابۂ کرامؓ مسجد نبوی ﷺمیں گندے حلیے، میلے لباس ہی میں آجاتے تھے کہ قلّتِ آب کے سبب روز نہانا ممکن نہیں تھا، تو آپﷺ نے جمعے کے روز غسل کا شرعی حکم صادر فرما دیا کہ ’’نہا دھو کر، صاف لباس پہن کر، خوشبو لگا کر مسجد آئیں۔‘‘

آپ صاف ستھرا رہنے کے لیے ممکن ہو تو روزانہ نہائیں، ورنہ ایک دِن چھوڑ کر ضرور نہایا جائے، تاکہ باطن کا نہ سہی، کم از کم ظاہر کا میل کچیل صاف ہوجائے۔ چوں کہ انسان کو ہر کام کے لیے دلیل چاہیے ہوتی ہے۔ تب ہی وہ دِل سے کام کرتا ہے، تو مومنین کے لیے سورۃ الّنور کی یہ آیت ہی کافی ہے، ’’اللہ طہارت رکھنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘تو اگر ہم یہ بات مدِّنظر رکھ کر کرصاف ستھرے رہیں گے، تو یقیناً اللہ کو پسند آئیں گے۔

نومولود بچّوں کی تربیت کا آغاز ماں کی گود سے ہوتا ہے،لہٰذا ماؤں کو چاہیے کہ اپنے بچّوں کو روزانہ نہانےکی عادت ڈالیں۔ آج کل تو جدید ترین نظام کے تحت گرم اور ٹھنڈے پانی کا بھی مسئلہ نہیں رہا، پانی اور درجۂ حرارت دونوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یوں بچّہ شروع سے صاف رہنا سیکھے گا۔ اور پھر روز مالش اور غسل بچّوں کو دیر تک نیند کی وادیوں میں لے جاتا ہے،توماں کئی کام بھی باآسانی نمٹا سکتی ہے۔یاد رکھیں، چھوٹے بچّوں کو کبھی سب کے سامنےنہیں نہلانا چاہیے،تا کہ اُن میں شرم و حیا پیدا ہو ۔ اسی طرح ماں سب کے سامنے چھوٹے بچّوں کے کپڑے نہ خود تبدیل کرےاور نہ ان سے کروائے۔کیوں کہ اگر ہم نے بچّے کو ابتدا ہی سے شرم و حیا کا عملی درس نہیں دیا، تو پھربڑے ہو کربھی اُس سےکوئی گلہ نہیں کیاجاسکتا۔

قصّہ مختصر،صفائی ہمارے ایمان کا حصّہ اور غسل اس کا اہم ترین جزو ہےاوراگر ہم دُنیا کے چھوٹے چھوٹے کام ربّ کی رضا کو مدِّنظر رکھ کر کریں گے، تو ظاہر سی بات ہے کہ دُنیا و آخرت دونوں میں سُرخ رُو ٹھہریں گے۔

تازہ ترین