• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ و کینیڈا میں دہری شہریت کے حامل پاکستانی اور اوورسیز پاکستانی سپریم کورٹ کی اس تازہ ہدایت پر خوش ہیں کہ غیرممالک میں آباد پاکستانیوں کیلئے حق ووٹ استعمال کرنے کے الیکشن کمیشن انتظامات کرے۔ مشرق وسطیٰ، برطانیہ اور یورپ سمیت غیرممالک میں اندازاً 60 تا 75 لاکھ پاکستانی یوں بھی خوش ہیں کہ انہیں محض زرمبادلہ کمانے کی مشین سمجھنے کے بجائے آبائی وطن پاکستان کا حصہ تسلیم کرکے ووٹ اور الیکشن کے عمل میں شریک کرنے کی عدالتی ہدایات جاری کی گئی ہیں لیکن اس خوشی کے ساتھ وہ اس بارے میں بھی فکر مند اور سوالات کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ آخر پاکستان کے کونے کونے سے آ کر غیرممالک میں مقیم و آباد ہونے والے تقریباً 60 تا 75 لاکھ پاکستانی کہاں، کس طرح اور کیسے انتظامات کے تحت اپنا ووٹ ڈال سکیں گے؟ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے تقریباً ہر ہر حلقے کا پاکستانی ووٹر باہر موجود ہے پاکستان میں تو ایک حلقے کا الیکشن ہی کرانا کئی مشکلات لاتا ہے تو بیرونی ممالک میں پاکستانی سفارتخانے پورے پاکستان کے تمام قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بیلٹ پیپرز اور ووٹرز کو کیسے ہینڈل کرسکیں گے؟ ووٹ کہاں ڈالے جائیں گے اور پورے ملک کی ووٹرز لسٹ میں ایک ووٹر کو اپنا نام اور حلقہ تلاش کرنے میں وقت کتنا لگے گا؟ اوورسیز ممالک میں الیکشن اور ووٹنگ کے انتظامات کے اخراجات کتنے ہوں گے؟ ووٹوں کی گنتی کب اور کیسے ہوگی اور اس گنتی کو پاکستان کے نتائج میں کب اور کیسے بروقت شامل کیا جاسکے گا تاکہ اوورسیزپاکستانیوں کی رائے قومی فیصلے کا حصہ بنے؟ مختلف ممالک کے بڑے شہروں میں تو ووٹر پاکستانی سفارتخانے یا قونصلیٹ جا کر ووٹ ڈال سکیں گے لیکن لاکھوں پاکستانی ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جہاں سے پاکستانی قونصلیٹ بڑے طویل فاصلے پر ہیں مثلاً امریکہ میں ایک پاکستانی سفارتخانہ اور صرف چار قونصلیٹ نیو یارک شکاگو، ہوسٹن اور لاس اینجلس میں ہیں جن کیلئے بعض پاکستانیوں کو تو دو ڈھائی سو میل کا سفر بھی کرنا پڑتا ہے اس سے بدتر صورتحال کینیڈا میں ہے۔ آخر یہ کئی لاکھ پاکستانی خواہش کے باوجود ووٹ کسے دیں گے؟ طویل سالوں سے ان ممالک میں مقیم یا دہری شہریت والے پاکستانیوں اور ان کے اہل خاندان کے ووٹوں کی رجسٹریشن، استعمال کب اور کیسے ہوسکتی ہے؟ صرف یہی سوالات نہیں بلکہ مزید عملی اور انتظامی سوالات بھی ایسے ہیں جن کے بارے میں ابھی تک پاکستانی سفارتخانوں اور قونصلیٹ کے حکام اور عملہ بھی جواب نہیں جانتے اور اگر ان سوالات کا جواب نہیں ملتا تو پھر اوورسیز پاکستانیوں کا حق رائے دہی یعنی ووٹ کی ساکھ ہی مشکوک اور داغدار ہونے کا خطرہ ہے۔ امریکہ و کینیڈا میں متعدد پاکستانی سفارت کاروں سے بھی بات کی تو پتہ چلا کہ وہ بھی ابھی تک ہدایات کے منتظر ہیں اور بہت سے جواب طلب سوالات بھی لئے بیٹھے ہیں۔ عموماً یہ کہا جاتاہے کہ صرف سوالات اور اعتراضات کے بجائے مسئلے کا حل بھی تجویز کیا جائے تو زیادہ موٴثر ہوگا۔ پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے سفارتی مشنوں کے ذریعے ریفرنڈم میں اوورسیزپاکستایوں کی ووٹنگ اور گنتی و نتائج کا جو ڈھونگ رچایا گیا تھا میرے علاوہ اس دور میں صدر پرویز مشرف کے متعدد جوشیلے حامی بھی اس ڈرامہ کے عینی شاہد ہیں۔اگرالیکشن کمیشن اور پاکستانی سیاسی پارٹیاں سپریم کورٹ کی ہدایت پر حقیقی عمل اور بیرونی ممالک کے 60 تا 75 لاکھ اوورسیز ووٹروں کو متحرک اور استعمال ہوتے دیکھنا واقعی چاہتے ہیں تو مذکورہ بالا سوالات اور مندرجہ ذیل تجاویز پر غور فرما کر فیصلے، ہدایات اور رد عمل کا اظہار فرمائیں ورنہ اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ یہ الیکشن اور ووٹ کا حق ایک اور مذاق کے مترادف ہونے کا خطرہ ہے۔
(1) آج ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں کمپیوٹر انٹرنیٹ اور پروگرامنگ کے ایسے پاکستانی ماہرین کی کوئی کمی نہیں کہ جن کو اوورسیز پاکستانیوں کی ووٹنگ کے تمام معاملات اور مسائل بیان کرکے آن لائن ووٹنگ کا ایسا محفوظ، پرائیویٹ اور موثر سسٹم تیار کرنے کا کام سونپا جائے جو ووٹ کی سیکریسی، تقدس، درست اور فوری گنتی سمیت بوگس ووٹنگ سے پاک ہو اور ووٹرز اپنی شناخت اور ووٹ ہونے کی کنفرمیشن کے بعد امریکہ کے کسی دور دراز علاقے میں اپنے گھر کے کمپیوٹر سے ووٹ دے سکے۔ متعدد مغربی جمہوری ممالک میں تو الیکشن ووٹنگ اور نتائج کیلئے آن لائن اور کمپیوٹر کا استعمال ہو رہا ہے۔ فیشن کے ساتھ ساتھ مغربی جدید ٹیکنالوجی کو بھی اپنانے میں کوئی ہرج نہیں۔ اسکائپ کا استعمال بات چیت سے آگے بھی ہے اور جدید ٹیکنالوجی ہمارے ووٹنگ کے متعدد مسائل حل کرنے میں مدد کرسکتی ہے۔(2)پاکستانی سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو بھی ووٹنگ کیلئے استعمال کیا جائے تاکہ ان شہروں اور گرد و نواح کے خواہشمند ووٹرز آ کر ووٹ ڈال سکیں سفارتی مشنوں سے باہر تو غیرممالک کی زمین پر وہاں کے قوانین کا اطلاق ہوگا اور ووٹنگ ممکن نہ ہوگی۔ قارئین جنگ کے ذہن میں مجھ سے بھی بہتر موثر اور عملی تجاویز ہوں گی ان کا خیر مقدم کروں گا، بطور نمونہ اتنا ہی کافی ہے۔
لیکن ان تمام مسائل، سوالات اور تجاویز سے بھی بڑھ کر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی سیاسی پارٹیاں غیر ممالک میں آباد پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کی عملی طور پر کتنی حامی ہیں؟ یا پھر صرف لیڈروں کے غیرملکی دوروں کے دوران دعوتوں، استقبال اور میزبانی کے لطف اٹھانے کیلئے صرف زبانی تعریف و حمایت تک محدود رہنا چاہتی ہیں۔ ایک واقعہ سنئے۔ مرحوم فاروق لغاری صدر پاکستان تھے اور اپنے بیٹے اویس کی گریجویشن کی تقریب میں شرکت کیلئے امریکہ آئے ہوئے تھے نیویارک میں ان سے مختصر ملاقات و مکالمہ میں اوورسیز پاکستانیوں کے لئے ووٹنگ کے حق کا مطالبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے تجویز کو آگے بڑھانے کا وعدہ تو کیا لیکن چند لمحوں بعد اپنے سنجیدہ موڈ کے ساتھ کہنے لگے بیرونی ملکوں میں رہنے والے پاکستانی کسی بھی حکمراں یا سیاستداں کے حلقہ انتخاب اور مفاد کا حصہ نہیں اور نہ ہی یہ الیکشن یا سیاست کو بیرونی ملک میں رہ کر متاثر کرسکتے ہیں لہٰذا ان کے حقوق کی حمایت سے کسی کو کیوں او کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ فاروق لغاری مرحوم کی یہ بات ایک تلخ حقیقت تھی اور آج بھی ہے۔ ویسے بھی یہ پاکستانی باشعور پڑھے لکھے مسائل حل کرنے کے ماہرین اور بلاجھجک تلخ سوالات کرنے والے ووٹر ہیں۔ میری رائے میں ان پاکستانیوں کی اکثریت موجودہ حکمراں اور اپوزیشن پارٹیوں سے یکساں طور پر مایوس ہیں۔ آزمائے ہوئے حکمراں اورلیڈر ان کی تنقید اور سوالات کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں انہوں نے عمران خان، عبدالستار ایدھی کے رفاہی کاموں کیلئے کئی سالوں میں کتنے ہی ملین ڈالرز کے عطیات دیئے۔ میری رائے میں اوورسیز پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد عمران خان کو بھی بطور لیڈر آزمانے کی خواہش رکھتی ہے غالباً اسی خدشہ کے باعث دیگر سیاسی پارٹیاں اس بارے میں خاموش ہیں حالانکہ اوورسیزپاکستانی شخصیات کے بجائے سرزمین پاکستان سے محبت کرتے ہیں انہیں ووٹنگ کا حق استعمال کرنے کا درست نظام اور موقع تو دیں۔
تازہ ترین