سنو پاکستانیو! سچ اور جھوٹ کے درمیان بسے ایک پاکستان کی کہانی۔ بہت کچھ ہے سنانے کو، کہاں سے شروع کروں، کس کس کی کہانی سناؤں، ہر طرف ناانصافی، غیر سنجیدگی اور نااہلی کا پہرہ ہے جسے ایمانداری اور شرافت کا برانڈ بنا کر بیچا جا رہا ہے۔ کسی بھی انسان کی عزت سے کھیلنا ایک معمول بن گیا ہے، رسوائی کا تماشا پہلے لگتا ہے ثبوت بعد میں دیا جاتا ہے اور اگر ثبوت نہ ہو تو بجائے شرمندہ ہونے کے مزید ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ جنونی طاقت بس ایک عجیب سے مزاج میں ڈھل چکی ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ لگے اور پھر اُسے عوام الناس میں پھیلانے کے لیے بڑی بڑی ٹیمیں بنادی گئی ہیں جو ہر حال میں جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ذمہ دار ہیں اور اتنے تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ہیں جن کے لیے ہاتھی کو اونٹ ثابت کرنا اتنا ہی آسان جتنا مشکل پشاور بی آر ٹی کا مکمل ہونا ہے اور اگر کوئی اُن کی تصحیح کرنا چاہے تو ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، یہاں تک کہ اُن کو پابندِ سلاسل بھی کر دیا جاتا ہے۔
چلیں! دور نہیں جاتا آپ کو حال ہی کی ایک کہانی سناتا ہوں، بس شرط یہ ہے کہ آپ سُنیں کیونکہ اگر سنیں گے نہیں تو انصاف کیسے کریں گے یا ہر دفعہ کی طرح اسے بھی وقت کے ہاتھ میں چھوڑ دیں گے اور پھر وقت کے ہاتھ وقت آنے پر اس گزرے وقت کے حاکموں کو اتنی بُری طرح اپنی جکڑ میں لیں گے کہ وقت ہی گواہی بن جائے گا انصاف دلانے کے لیے۔ یہ کہانی ہے ایک سچ کی، ایک ایسے انسان کی جس کے اندر انسانیت بستی ہے، وہ شخص جو اُجڑے دِلوں کے اندر رہتا ہے، وہ شخص جو ہر سچ بولنے والے کی طاقت ہے، وہ شخص جو اعلیٰ ظرفی اور ذرہ نوازی کا حقیقی علمبردار ہے۔یقیناً آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں شاید بس ایک درباری بن کر الفاظ کے مینار کھڑے کرنے جا رہا ہوں، چلیں! درباری ہی سہی لیکن خوشی ہے کہ سچ لکھ رہا ہوں اور محسن کش نہیں ہوں۔ جس نے عزت دلائی اُس کا قرض دار ہوں اور قرض واپس کرنے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب قرض دینے والا پریشان ہو، جب وہ جھوٹ کے سمندر میں ڈوبتے سچ کو بچانے کے لیے کودا ہو اور بڑے مگر مچھ اُسے گھیر لیں، جب وہ سچ کی جنگ کو سب سے آگے آکر لڑ رہا ہو بغیر کسی خوف کے، بغیر کسی خطرے کے۔ اگر آپ نے اُس کی اچھائی کا یہ روپ نہیں دیکھا تو یہ آپ کی ہی کوئی خرابی ہو گی مجھے تو فخر ہے کہ میں نے یہ اچھا روپ دیکھا ہے۔
ہاں! وہ بڑا آدمی ہے، ہاں وہ ارب پتی بھی ہے، عالیشان محل میں بھی رہتا ہے مگر کیا میں یہ سب سوچ کر اُس کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر آنکھیں بند کر لوں، کیا اُس کے پاس دل نہیں، جذبات نہیں، احساسات نہیں، کیا اُس سے منسلک اُس کے پیارے مشینوں پر جیتے ہیں کہ انہیں کوئی درد نہ ہو، اُن کے آنسو نہ نکلتے ہوں۔ کیا میں یہ نہ سوچوں کہ اُس کی بیٹیاں بھی آپ کی بیٹیوں کی طرح ہی باپ سے محبت رکھتی ہوں گی۔ کیا اس کے بیٹے باپ کے ساتھ اس ناانصافی پر تڑپ نہیں رہے ہوں گے، کیا میں یہ سب اس لیے نہ سوچوں کہ وہ ایک بہت بڑا آدمی ہے، اُسے کہاں تکلیف ہوتی ہوگی، ہم سب معیارِ زندگی میں کئی لوگوں سے بڑے اور کئی سے چھوٹے ہیں، ہمیں تکلیف ہوتی ہے جب کوئی زیادتی ہو ہمارے ساتھ تو پھر انہیں کیوں نہیں ہوتی ہوگی۔ ایک لمحے کے لیے ذرا اُن کی جگہ آکر تو سوچیں کہ بغیر کسی ثبوت آپ پر کوئی الزام لگایا جائے تو کیا حال ہوگا آپ کا، آپ کے گھر والوں کا۔ آپ سُن رہے ہیں نا کہ میں ایک چھوٹا سا، معمولی سا انسان اپنی آواز سے آپ کو بار بار جگانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر میرے اندر یہ حوصلہ اسی انسان نے ڈالا جو ہمیشہ میری طاقت بنا، میرے الفاظ کا دباؤ اُس نے اپنے اوپر لیا، کبھی بھی احسان نہیں جتلایا، مجھےکیا پتا تھا کہ مجھے لکھنے کا حوصلہ دینے والے کے لیے ہی لکھنا پڑجائے گا کہ وہ آج ایک ناکردہ جرم میں صرف قید ہی نہیں بلکہ حبس بےجا میں ہے۔ اُسے طاقت کی عمارت میں چُن کر پابندِ سلاسل کر دیا گیا ہے اور کچھ دنوں بعد وہی ہوگا جو سب کے ساتھ ہوا کہ ناکافی ثبوتوں کی بنا پر رہا کر دیا جائے گا مگر جو تکلیف اُس کے جسم کو دی جا رہی ہے، جس طرح اُس کے احساس کو روندا جارہا ہے، جس طرح اُس کے گھرانے کو اذیت پہنچائی جا رہی ہے، کیا فیصلے کے ساتھ وہ بھی لوٹا دی جائیں گی۔ یاد رکھیں! وقت کچھ فیصلے کاغذوں سے نکال کر دیواروں پر لکھ دیتا ہے اور پھر جب دیواروں پر لکھا بھی نہ پڑھا جائے، نہ سُنا جائے تو پھر انقلاب جنم لیتا ہے اور اگر انقلاب کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی جائے تو خدا کا عذاب جنم لیتا ہے اور خدا کے قہر کے سامنے فرعون بھی نہ ٹھہر سکا،کوئی اور کیسے ٹھہر سکے گا۔ پتا ہے زمین پر خدا کا درجہ ماں کو حاصل ہے۔ میر شکیل الرحمٰن خوش قسمت ہیں کہ ابھی اُن کی ماں زندہ ہے۔ ماں جس کے لیے خدا نے خود کہا ہے کہ جب تیرے ہاتھ دعا کے لیے اٹھیں تو جابر کی ظلمت بھاگے اور اولاد کی قسمت جاگے اور جب تو گریہ کرے تو تیرا سوز میری آہیں بن جائیں اور جب تو بڑھے تو تیری منزل میری راہیں بن جائیں اور سُن تیرا ادب میرے کمال میں میرا غضب تیرے جلال میں، تیرا حُسن میرے جمال میں تو مجھ سے الگ نہیں میں تجھ سے جُدا نہیں تو سب کچھ ہے بس خدا نہیں۔