• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی رشتے لوہے سے زیادہ مضبوط بھی ہوتے ہیں اور شیشے سے زیادہ نازک بھی یعنی نہایت آسانی سے لمحوں کے لمحوں میں ٹوٹ جانے والے۔دنیا میں کوئی شے بھی پائیدار نہیں، یہی زندگی کی فطرت اور یہی کائنات کا راز ہے۔ اس دارالفنا میں ہر شے فنا ہوتی، اپنے رنگ بدلتی، مٹی میں ملتی اور پھر سے جنم لیتی ہے۔ درختوں کی ٹہنیوں پر سجے ہوئے خوبصورت پھول مرجھاتے اور پھر بکھر کر مٹی میں مل جاتے ہیں اور پھر اُسی مٹی کی زرخیزی سے اسی پودے کی ٹہنیاں اسی طرح کے خوبصورت پھولوں سے بھر اور سج جاتی ہیں۔ ہم اُن کی خوبصورتی سے متاثر ہوتے اور اُن کے حسن سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں لیکن اُن کی نازکی، غیرپائیداری اور فانی ہونے پر غور نہیں کرتے۔ مرجھاتے پھول، درختوں سے گرتے خزاں رسیدہ پتے اور فطرت و قدرت کے اَن گنت مظاہر ہمیں یہ راز سمجھاتے اور پیغام دیتے ہیں کہ دنیا میں کسی شے کو بھی بقا نہیں، کسی کو بھی دوام نہیں لیکن انسان کی اپنی فطرت ہے کہ وہ زندگی کے نشے میں مست اور گم رہتا ہے اور قدرت کے بدلتے رنگوں اور پُرفریب انداز پر غور نہیں کرتا حالانکہ غور کریں تو پتا چلے گا کہ خود انسان بھی وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے جسمانی اعضااور چہرے کے نقوش تک بدل جاتے ہیں۔ بچپن، جوانی کی تصویروں کا بڑھاپے کی تصویروں سے موازنہ کریں تو آنکھیں یقین نہیں کرتیں کہ یہ ہم ہی تھے۔

اسی طرح انسانی رشتے، انسانی تعلقات بھی رنگ و انداز بدلتے رہتے ہیں۔ دوستی اور تعلق مضبوط ہو تو لوہے سے بھی زیادہ مضبوط ہوتا ہے، لوگ یک جان دو قالب ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو دیکھے بغیر اور آواز سنے بغیر چین نہیں آتا اور پھر محض ایک ذرا سی بات پہ یوں بچھڑتے ہیں جیسے ایک دوسرے کو جانتے نہیں، پہچانتے نہیں۔ سچ ہے کہ زبان نہایت ہلکی اور بے وزن شے ہے لیکن اس سے نکلا ہوا لفظ اتنا بھاری اور خنجر کی دھار کی مانند تیز ہوتا ہے کہ اسے بڑے بڑے سخت جان اور طاقتور پہلوان بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ میں نے فقروں کی چٹانوں کے نیچے انسانوں کو ریزہ ریزہ ہوتے دیکھا ہے، لفظوں کی تلوار سے انسانوں کو لہولہان ہوتے دیکھا ہے، وقت، اقتدار، دولت، شہرت، اقتدار کی قربت اور اہمیت کی خود فریبی سے لوگوں کو بدلتے اور نئے روپ دھارتے دیکھا ہے، دہائیوں اور برسوں پرانی دوستیوں، دیرینہ تعلقات اور خونی رشتوں کو ٹوٹتے بھی دیکھا ہے، فاصلوں کا شکار ہوتے بھی دیکھا ہے، محبت کی گرمی کو سردمہری میں بدلتے بھی دیکھا ہے، ایک دوسرے کی آنکھوں میں بسنے والوں کو ایک دوسرے سے آنکھیں چراتے بھی دیکھا ہے اور محبت کے رشتوں کو، خون کے بندھنوں کو دشمنی میں بدلتے بھی دیکھا ہے اسی لئے عرض کرتا ہوں کہ انسانی تعلقات اور انسانی رشتوں سے زیادہ کوئی شے ناپائیدار، کمزور اور نازک نہیں۔ ہاں وہ رشتے لوہے سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں جن میں ایثار پایا جاتا ہے۔ ایثار وسیع تر معنوں اور مفہوم میں۔ ایثار وسیع ظرف، قدر و منزلت، برداشت، بے لوث چاہت کے معنوں میں۔ کیونکہ میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر رشتے اور تعلقات انا کے ٹکرائو اور انا کے باہمی تصادم سے ٹوٹتے ہیں۔ اختلاف، غلط فہمی، بدمزگی یا تلخی کی صورت میں معذرت کر لی جائے تو عام طور پر معاملہ صاف ہو جاتا ہے دل چاہے صاف ہو یا نہ ہو۔ اسی لئے وسیع الظرفی کی بات کرتا ہوں کہ اگر ظرف وسیع ہے تو معذرت کے بعد دل بھی صاف ہو جاتا ہے اور قلب کے آئینے میں ابھرنے والا بال یا لکیر بھی نکل جاتی ہے لیکن اگر انسان بہت بڑی انا کا اسیر ہے، انا کی وسیع سلطنت کا بے تاج بادشاہ ہے تو اس کے لئے برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کی عزت اور بے عزتی اور اپنی ذات کی عظمت کے پیمانے اور معیار اس قدر بلند ہوتے ہیں کہ وہ عام طور پر ایثار کے نُور سے محروم ہوتا ہے، برداشت اور معاف کرنے کے جذبات سے عاری ہوتا ہے چنانچہ وہ غصے میں ابلنے لگتا ہے، پیچ و تاب کھانے لگتا ہے اور انتقام لئے بغیر سکون نہیں پاتا، نہ چین سے بیٹھتا ہے۔ اسی انا کو صوفی نفس امارہ کہتے ہیں کیونکہ نفس امارہ انسان کو انتقام پہ ابھارتا اور معاف کرنے کی خصلت سے محروم کر دیتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ زیادتی کے بعد معذرت کرنے سے انسان کی عزت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معذرت کرنے والا انسان اپنے تعلقات اور رشتوں کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ میرے نزدیک جو انسان معذرت کی خوبی سے محروم ہو وہ سخت دل ہوتا ہے، سخت دل انسان اپنی فطرت میں سنگدل ہی نہیں ظالم بھی ہوتا ہے اور اسے ظلم کر کے خوشی ملتی ہے اور اس سے اس کی انا کی تسکین ہوتی ہے۔ ظلم صرف کسی کو قتل کرنا ہی نہیں، کسی کو مارنا پیٹنا مجروح کرنا یا کسی کا خون بہانا ہی نہیں بلکہ کسی کے جذبات پر ہتھوڑے چلانا، کسی کو ذلیل و رسوا کرنا، تمسخر اڑانا اور بہتان لگانا بھی ظلم ہی ہے۔ کچھ مظالم کی سزا اگلے جہان میں ملے گی اور کچھ کا حساب اپنی زندگی ہی میں بے باق ہو جاتا ہے۔ میری آنکھیں ان مناظر کی شاہد ہیں۔

ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ انسانی رشتوں اور تعلقات سے زیادہ کوئی شے ناپائیدار اور نازک (Fragile)نہیں۔ مضبوط ہوں تو صرف موت ہی انہیں جدا کرتی یا توڑتی ہے ورنہ یہ لمحوں کے لمحوں میں ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ میں نے عام طور پر رشتوں کو انائوں کے تصادم میں ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھا ہے۔ ضد انا کی سلطنت کا ایک اہم ستون ہے۔ ضد عقلِ کل کے زعم سے جنم لیتی ہے۔ عقلِ کل کے زعم، وہم، گمان اور حسنِ ظن میں وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جنہیں خوشامدی، درباری اس فریب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ظرف سے زیادہ دنیاوی عزت و مقام، اقتدار کا نشہ، دولت، کامیابیاں، طاقت، قابلیت کا زعم وغیرہ عقل کل کے فریب کو پیدا کرتی اور پروان چڑھاتی ہیں۔ میرے نزدیک یہ سب ایک طرح سے جہالت کی قسمیں اور کم علمی کے کرشمے ہیں۔ مستقبل پہ یقین ﷲ تعالیٰ کے کرم سے جنم لے تو رحمت ہے لیکن اگر اپنی ذات کی صفات کا شاخسانہ ہو تو جہالت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین