• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک خاندان کی سعودی عرب روانگی کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس ہوئی تو ایک صحافی نے بڑے ترش لہجے میں کوئی سوال پوچھا تو جواب سے پہلے نوابزادہ نصراللہ خان نے مجھ ناچیز سے کہا ’’ارے صاحب! ان کو سوال کرنے کا سلیقہ تو سکھا دیں‘‘۔ سخت باتیں بھی نرم لہجے سے پوچھی جا سکتی ہیں مگر ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کو یہ ہنر نہیں آتا۔ جیو ٹی وی پر ایک پروگرام ’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ آتا ہے۔ اس پروگرام میں سہیل وڑائچ مشکل ترین باتیں آسانی سے پوچھ لیتے ہیں، شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہو کہ وہ نوابزادہ نصراللہ خان کی محفلوں کا حصہ رہے ہیں۔ نوابزادہ نصراللہ خان بڑے سیاستدان، خطیب اور شاعر کے ساتھ ساتھ بڑے انسان بھی تھے۔ 1964تک احراری انہیں سیاست کا گونگا پہلوان کہتے تھے، پھر جب وہ بولے تو بابائے جمہوریت کہلوائے۔ مجھے قرنطینہ سے کئی شاعروں نے شاعری بھجوائی ہے، ان کے اشعار سے پہلے نوابزادہ نصراللہ کے اشعار، یہ اشعار انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے قرنطینہ مقبوضہ کشمیر کیلئے کہے تھے، آج پوری دنیا قرنطینہ بن کے رہ گئی ہے، بس آپ کے ذہن میں یہ ضرور رہنا چاہئے کہ اس قرنطینہ کا آغاز مودی کے ظلم سے ہوا ہے، کشمیریوں پر جاری ظلم کی نوابزادہ صاحب تصویر کشی یوں کرتے ہیں کہ

اپنی شادابیٔ غم کا مجھے اندازہ ہے

روح کا زخم پرانا ہے مگر تازہ ہے

یہی آشفتہ سری دے گی اسیری سے نجات

سر سلامت ہے تو دیوار بھی دروازہ ہے

دنیا پر کورونا وائرس کے حملے کے بعد جو حالات بن چکے ہیں، ان حالات کی عکاسی ڈاکٹر اسد مصطفیٰ نے اپنی ایک غزل میں کی ہے کہ

شہ مردہ ہیں مگر عہدِ بشر زندہ ہے

سجدئہ شکر! ابھی دل کا نگر زندہ ہے

ایک جرثومے نے تاریخ بدل کے رکھ دی

اشک پتھر ہیں کہیں دیدئہ تر زندہ ہے

اپنے سائے سے بھی ملتے ہوئے گھبراتا ہوں

مجھ میں پنہاں ہے کوئی خوف کہ ڈر زندہ ہے

دیر تک سوئے ہوئے لوگوں کے گھر میں آیا

موت کا خوف یہاں شام و سحر زندہ ہے

تخلیہ آج ضروری ہے، تو اس کی خاطر

اپنی خاطر تو اسدؔ بارِ دگر زندہ ہے

دفاتر کی بندش نے افسران کو بھی گھر بٹھا دیا ہے۔ اب جس کا جو شوق ہے وہ اس کے مطابق وقت گزاری کر رہا ہے۔

اٹلی، اسپین اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں پھیلتی ہوئی تباہی ابھی رکی نہیں، مزید پھیل رہی ہے، میں جب بھی اس دور تک پھیلتی ہوئی تباہی اور لاشوں کے انبار دیکھتا ہوں تو خاکسار کے روپ میں بولتا ہوں کہ

شام سے پہلے سارے منظر بدلیں گے

شام سے پہلے سب لوگوں کو مرنا ہے

شام سے پہلے آج بریدہ لاشوں سے

خالی کچی قبروں کو پُر کرنا ہے

پوری دنیا کورونا کی لپیٹ میں ہے، پروفیسر ڈاکٹر اطہر قسیم نے اس حوالے سے ایک نظم ارسال کی ہے، قرنطینہ سے ایک نظم...

بستی بھر میں سناٹا ہے

گہرے بادل برس رہے ہیں

گملے میں دو پھول کھلے ہیں

اس انجان سی خاموشی میں

لمحہ لمحہ بیت رہا ہے

یک دم یہ خاموشی ٹوٹی

نامانوس پرندے کی آواز مسلسل کانوں میں رس گھول رہی ہے

بارش کے پانی سے گزری ایمبولینس کا بجتا سائرن بھی کتنا مترنم سا ہے

میری آنکھیں بادل پھول

پرندے بارش

سارے منظر دیکھ رہی ہیں

دور کسی معبد کے اندر

خوش الحان مؤذن بولا

قدرت موت نہیں بانٹے گی

قدرت موت نہیں بانٹے گی

اس کورونائی موسم میں سید مظہر انجم ترمذی نے بھی طبع آزمائی کی ہے؎

مان لو یہ بات سب کہ اب خدا ناراض ہے

یہ ’’کورونا وائرس‘‘ اس برہمی کا راز ہے

غاصبو! کشمیر کی وادی کے سب در کھول دو

اس سے بخشش مانگ لو جو فطرتاً فیاض ہے

آج کے کالم میں اتنی شاعری ہو گئی ہے کہ پتا نہیں شاعروں کے استاد اور ہمارے بزرگ ظفر اقبال اسے کس زاویۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ فی الحال نصرت جاوید کا گلہ دور کرنے کیلئے ایک خاتون کا شعر بھی شامل کر رہا ہوں۔ آج کے شعری متنجن میں ملتانی میوے کے طور پر راشدہ ماہین کا ایک شعر؎

یہ جو بھاگتی ہوں میں دور میل ملاپ سے

وہ سمجھ رہا ہے میں دوستی سے مکر گئی

دنیا خوف سے لرز رہی ہے، ہر طرف موت کی خبریں ہیں، آفت کی گھڑی ہے، اس کورونائی موسم میں بھی وصی شاہ لوگوں کو امید کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ قرآن کی آیت میں بیان کردہ حقیقت کو اردو کا شعری لباس دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی سن لیتا ہے۔ بس وہ اپنے رب کی طرف رجوع تو کرے کہ

بےقراری میں صدا دے، میں تری سن لوں گا

رو کے بس ہاتھ اٹھا دے، میں تری سن لوں گا

گر ندامت سے تیری کھل نہیں پاتی ہے زباں

تو فقط ہونٹ ہلا دے، میں تری سن لوں گا

شدتِ غم سے نکل پاتی نہیں گر آواز

مجھ کو خاموش صدا دے، میں تری سن لوں گا

ایک جرثومے نے گر یاد دلا دی، تو مجھے

بس یہی رو کے بتا دے، میں تری سن لوں گا

اتنا مایوس نہ ہو اتنا بھی بےبس نہیں تو

دل میں اک حشر اٹھا دے، میں تری سن لوں گا

تازہ ترین