• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا جانتی ہے کہ اقتدار سونے کی سیج نہیں البتہ کانٹوں کا ہار ضرور ہے۔ چند دنوں کے اقتدار کے لیے بعض دفعہ پورا مستقبل ہی نہیں بلکہ پوری زندگی بھی دائو پر لگانا پڑ سکتی ہے لیکن اقتدار کا نشہ ایسا طاقت ور ہوتا ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود ہر فرد اس نشے سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔

اس وقت عمران خان اقتدار میں ہیں لیکن پاکستان اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے اس موقع پر پاکستان کو قومی اتحاد اور اتفاقِ رائے کی اشد ضرورت ہے۔

ایسے وقت میں جب پاکستان کو شدید معاشی بحران اور کورونا کی قدرتی آفت کا سامنا ہے، ایسے وقت میں بطور ایک قومی لیڈر، بطور ایک وزیراعظم ملک کو ایسے طریقے سے چلانے کی ضرورت ہے جس سے ملک میں موجود بےچینی کا خاتمہ ہو، قومی اتفاقِ رائے پیدا ہو، اس خطرناک بحران کے وقت اپوزیشن جس نے انتخابات کے دنوں میں مجموعی طور پر حکمراں جماعت سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہوں، کو سیاسی مقدمات میں جیلوں میں رکھ کر قومی اتفاقِ رائے پیدا نہیں کیا جا سکتا۔

اس بحران کے وقت پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ادارے کے سربراہ کو ذاتی مخالفت کی بنا پر غیرقانونی قید میں رکھنا دانشمندی نہیں۔ حکومت کو چاہئے سیاسی اور صحافتی مقدمات کو فوری طور پر معطل کرکے قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔

اپوزیشن جماعتوں کے ارکانِ اسمبلی کو بھی کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے ہنگامی طور پر ویسے ہی فنڈز جاری کرے جس طرح حکومتی ارکانِ اسمبلی کو جاری کیے جانے ہیں اور اس بات کو یقینی بنائے کہ صرف حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ اپوزیشن جماعت کے ارکانِ اسمبلی کے حلقوں میں بھی کورونا سے بچائو کے لیے وسائل پہنچ سکیں۔

حکومت کو چاہئے کہ جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف کو پورے عزت و احترام کے ساتھ رہا کرے۔ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرے اور میڈیا کے ذریعے ملک کے عوام کو اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے حوصلہ اور تسلی دے۔

یہ سیاست، صحافت اور مخالفت تو چلتی رہے گی لیکن اس وقت جس طرح پاکستانی عوام کا لاک ڈائون، غربت، بھوک اور افلاس کے سبب حوصلہ کم ہوتا جارہا ہے وہ کسی بڑے نقصان کا بھی پیش خیمہ ہو ثابت سکتا ہے۔ اللہ نہ کرے عوام بھوک اور پیاس سے تنگ آکر سڑکوں پر نکل آئیں تو نہ سیاست بچے گی اور نہ ریاست۔

وزیراعظم عمران خان ایک خوش قسمت آدمی ہیں جو ڈیڑھ سال سے زائد حکومت کرنے اور ڈیلیور نہ کرنے کے باوجود عوام کی حمایت رکھتے ہیں اس وقت حکومت کے قیام کو انیس ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔ بےپناہ مشکلات اور ناکامیوں کے بعد بھی، خوش قسمتی یہ ہے کہ عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ تاحال وزیراعظم عمران خان کی حمایت میں آواز بلند کرتا ہے۔

باوجود اس کے کہ سابقہ حکومت کے مقابلے میں مہنگائی میں بہت اضافہ ہو چکا ہے، ڈالر بھی سابقہ حکومت کے مقابلے میں شدید مہنگا ہو چکا ہے، قرضہ بھی سابقہ حکومت کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ چکا ہے، جن وعدوں کی بدولت حکومت اقتدار میں آئی تھی ان وعدوں پر بھی عمل درآمد نہیں ہو سکا.

حکومت کے اتحادی اور اپوزیشن جماعتیں حکومت سے ناخوش ہیں، میڈیا بھی شدید بحران کا شکار اور ناخوش ہے، پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو حکومت نے گرفتار کررکھا ہے، جس کے باعث نہ صرف پاکستانی بلکہ عالمی میڈیا بھی ہر سطح پر آواز بلند کررہا ہے لیکن حکومت بھی کیا کرے، پچھلے انیس ماہ کے دوران حالات ہی ایسے رہے ہیں کہ چاہنے کے باوجود بھی وہ اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی۔

پہلے معاشی میدان میں منفی طرزِ عمل کے نتیجے میں حکومت کو اپنا وزیر خزانہ تبدیل کرنا پڑا، گورنر اسٹیٹ بینک کو ہٹانا پڑا اور ایک غیرمنتخب فرد کو وزیر خزانہ لگانا پڑا، عالمی بینک کی جانب سے منتخب کردہ ٹیکنوکریٹ کو گورنر اسٹیٹ بینک لگانا پڑا جس کے بعد ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا لیکن اپنے قیام کے انیس ماہ بعد بھی حکومت معاشی بدحالی کا سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر گرا کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے رہی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت بھوک، غربت اور افلاس سے دبے عوام کی حمایت کھونے سے پہلے ہوش کے ناخن لے اور پاکستان کو بحران سے نکالنے کے لیے درست فیصلے کرے اور ملک میں یکجہتی پیدا کرنے کے لیے ایسے اقدامات کرے کہ آپ کو اقتدار میں لانے والے عوام اپنے فیصلے پر نادم نہ ہو سکیں۔

تازہ ترین