• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برادرم شفقت محمود کے عشائیہ میں عمران خان کا چہرہ خوشی سے تمتا رہا تھا۔ اس نے مجھے کم میرے بیٹے شاہ حسن کو زیادہ اپنائیت اور گرم جوشی سے 23مارچ کے اجتماع میں شرکت کی دعوت دی اور کہا ”میر ے والد (اکرام اللہ خان نیازی) زندگی بھر 23مارچ 1940 کے اجتماع میں شرکت پر فخر کرتے رہے۔ ہفتہ کی شام تحریک ِ انصاف کے اجتماع میں شرکت کرنے والے بھی ہمیشہ اس کا حوالہ دیاکریں گے۔“
عمران خان نے تحریک ِ انصاف میں انتخابات کا فیصلہ کیا تو خورشید محمود قصوری سے لے کر حفیظ اللہ نیازی تک سب نے اختلاف کیا۔ ہاں میں ہاں ملانے والے بھی نجی محفلوں میں احمقانہ حرکت سے تعبیرکرتے مگر عمران خان ڈٹا رہا۔ ”پارٹی ٹوٹتی ہے توٹوٹے الیکشن ہو کر رہیں گے “ اور ”میری کنپٹی پر پستول رکھ کر کوئی روکے تو گولی کھالوں گافیصلے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا“ انتخابی عمل کی عدالت نے بلاشبہ پارٹی سرگرمیوں میں جمود پیدا کیا، مخالفین کو جوڑ توڑاور سنبھلنے کا موقع ملا اور اندرونی دھڑے بندی نے جنم لیا۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر سروے رپورٹوں میں عمران خان اور تحریک ِ انصاف کی مقبولیت میں واضح کمی سامنے آئی اور ناپسندیدہ ہتھکنڈوں کے ذریعے عبدالعلیم خان اور رشید بھٹی جیسے لوگوں کی کامیابی نے لاہور میں نظریاتی کارکنوں بالخصوص نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کا موقع ملا مگر تحریک انصاف کا حشر وہ نہ ہوا جس کی توقع مخالفین کرتے تھے۔ تحریک استقلال کی طرح شکست و ریخت یا عمران خان کی پسپائی۔ جماعتی انتخابات کا تاریخی معرکہ سر کرکے عمران نے نئی تاریخ مرتب کی ہے۔
تحریک انصاف میں مختلف سطحوں پر شکست کھانے والے رہنما اور دھڑے بدستورعمران خان کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں اورپہلے کی طرح جوش و خروش سے سرگرم عمل ہیں کیونکہ ہر حلقے میں پرجوش ووٹر ز اور سپورٹرز کے علاوہ پہلی بار سیاسی و انتخابی عمل میں حصہ لینے کے خواہشمند پرعزم نوجوانوں کا جذب و جنون ان کے پاؤں کی زنجیر ہے۔
مینار ِ پاکستان کے اجتماع میں دو لاکھ افراد ہوں، پانچ لاکھ یہ انتخابی کامیابی اور تحریک انصاف کی مقبولیت کا پیمانہ نہیں۔ یہ بسوں میں بھر کر لائے گئے دیہاڑی دار کارکنوں کا جلسہ نہیں جو قیمے والے نان کھانے ”عمران خان قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں“ کے نعرے لگانے اورداتا دربار کی زیارت، چڑیا گھر کی سیر کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ یہ ان 80ہزار منتخب عہدیداروں کامیلہ ہے جن کی پشت پر 70لاکھ جماعتی کارکن ہیں۔ یہ معاملہ تعداد کا نہیں پرجوش کارکنوں کی سیاسی استعداد اور تبدیلی کے نعرے میں کشش کاہے اور پانچ سال تک اسمبلیوں میں بیٹھ کر عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک چھڑکنے والے الیکٹ ایبلز جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں، لٹیروں سے نفرت نے تبدیلی کے نعرے میں جان پید ا کی ہے۔
دونوں بڑی جماعتوں کا انحصار اب بھی انہی لوٹوں، لٹیروں اور تبدیلی کے رجحان سے ناواقف ماضی پرستوں پر ہے جن کے طفیل پاکستان دہشت گردی، بدامنی، قانون شکنی، بے رحمانہ لوٹ مار، اقربا پروری، نا انصافی اور بڑے طرز حکمرانی کا شکارہوا۔ ڈالرسوروپے تک پہنچا۔ پٹرول 56 روپے سے 109 اور دال سبزی کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ عام آدمی کی جان محفوظ ہے نہ مال اور نہ ہی بہوبیٹی کی عزت، پہلی بار ووٹ کاسٹ کرنے والے تعلیم یافتہ اور ناخواندہ نوجوانوں کو روزگار ملتا ہے نہ معاشرے میں عزت جبکہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں اور مراعات یافتہ لوگوں کے نیم خواندہ صاحبزادے محض سفارش و تعلق کی بنیاد پر سیاسی و سرکاری عہدے حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ نوجوان عمران خان کا اثاثہ اورقوم کی امید ہیں۔ انہیں تحریک انصاف میں قیادت کا مستحق سمجھا گیا اور تبدیلی کی علامت۔ جس کا احساس پیپلزپارٹی کی قیادت کو تو ہرگز نہیں وہ اب بھی مظلومیت کی چادر اوڑھ کر کامیابی کا راستہ طے کرنا چاہتی ہے۔مسلم لیگ (ن) کی قیادت بالخصوص میاں شہباز شریف نے نوجوانوں پر بھرپور توجہ دی مگر برسہا برس سے قوم کی گردن پرسوار مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کے لوٹوں کو گلے سے لگا کر مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کا کام آسان کر دیا۔ مگر خدا لگتی بات یہ ہے کہ آج کے دن تک مسلم لیگ(ن) بہتر پوزیشن میں ہے۔
تحریک انصاف کے جماعتی الیکشن میں سب سے زیادہ بدذوقی کا مظاہرہ عمر سرفراز چیمہ نے مخدوم جاوید ہاشمی پر الزام تراشی کے ذریعے کیا۔ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن اور ایثار وقربانی کے پیکر جاوید ہاشمی کو اول تو عمران خان اورشا ہ محمود قریشی کی طرح بلامقابلہ منتخب کردیاجاتا۔ یہ جاوید ہاشمی کا حق اور تحریک انصاف کا فرض بلکہ اعزاز تھا لیکن اگر جاگیردار اور سرمایہ دارگروپ کو یہ منظور نہ تھا تو اس طرح کا اوچھا وارکرنے کے بجائے مخالفت کا کوئی دوسرا باوقار راستہ ڈھونڈا جاتا مگر سچ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا”یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے میخانہ کہتے ہیں“ جاوید ہاشمی کی شاید قسمت ہی ایسی ہے وہ دھڑے بندی سے ہزار گریز کرے لوگ سنگ زنی سے باز نہیں آتے۔
حلف برداری کے اجتماع میں عمران خان قوم بالخصوص نوجوانوں کو امید کا کوئی پیغام ضرور دیں۔ احتساب اورتطہیر کا ایجنڈا انہوں نے 1997 میں پیش کیا تھا اسے قوم کے سامنے پیش کریں یہ یقین دلائیں کہ تحریک انصاف کے کسی ایسے امیدوار کوہرگز ٹکٹ نہیں دیا جائے گا جس کی عمومی شہرت خراب، ماضی داغدار اور اخلاقی و مالیاتی ریکارڈ خراب ہو۔ عہدیداروں پر پارٹی اورپارٹی پرنظریاتی بالادستی قائم رکھنے کی واحد صورت یہی ہے۔ قوم کو یہ اعتمادہوناچاہئے کہ پارٹی کو حلقہ جاتی لیڈروں کی نہیں بلکہ قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کو مضبوط و توانا پارٹی کی ضرورت ہے اور نظریاتی پارٹی کے بغیر ان کی حیثیت دو کوڑی کی نہیں۔ عقیدے، نظریئے، اخلاقی کرداراورپارٹی ڈسپلن کی پابندیوں میں جکڑے سیاسی کارکن اور عوامی نمائندے ہی تبدیلی کے پیامبر ثابت ہوسکتے ہیں ۔تھالی کے بینگن اوردھڑے برادری دھن دھونس کو کامیابی کامعیار سمجھنے والے الیکٹ ایبلز نہیں کہ یہی اس معاشرے کا بوجھ ہیں اوراجتماعی زوال و پیچیدگی کے ذمہ دار… کاش دوسری جماعتیں بھی اس طرف توجہ دیں اورخاندانی و موروثی قیادت سے چھٹکارا پا کر عام آدمی کی توقعات کا مرکز بنیں۔
تازہ ترین