آج سے 73 برس قبل 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں بڈھے دریا کے کنارے جہاں آج مینار پاکستان واقع ہے، مسلم لیگ کے تین روزہ (22 تا24 مارچ) اجلاس میں برٹش انڈیا کے مسلمانوں نے آزاد اور مقتدر ریاستوں کا مطالبہ کیا تھا جو بعد میں 1946ء میں تشریح کرکے علیحدہ مسلم ریاست (پاکستان) میں تبدیل کیا گیا۔ تاہم 1940ء کی قرارداد لاہور میں لفظ پاکستان اور ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔ بہرحال اس تاریخ کی نوک پلک کو درست کرنے کا معمہ مورخین پر چھوڑتے ہیں۔ صرف اتنا مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ اگر تاریخ کو توڑنے مروڑنے کی بجائے درست رکھا جائے اور آئندہ نسلوں کو صحیح حقائق سے آگاہ رکھا جائے تو نہ صرف ملک کو سیکورٹی سٹیٹ بنائے رکھنے کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے بلکہ بہت سی نظریاتی الجھنوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ وگرنہ ایک جھوٹ ہزار جھوٹ بولنے پر مجبور کرتا ہے۔ جب ہم تاریخ کو سچ کی بجائے جی سے جوڑ کے سناتے ہیں اور آدھی بتاتے اور آدھی چھپاتے ہیں تو دراصل ہم اپنا ہی چہرہ مسخ اور بدنما کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی پہچان ختم کررہے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو یہ نہیں بتاتے کہ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو انگریز نے ہندوستان کی صوبائی حکومتوں کو پوچھے بغیر انڈیا کی عالمی جنگ میں شمویت کا اعلان کردیا تھا کیونکہ انہوں نے بیشتر صوبوں کی قیادت کو اندر کھاتے میں اپنے حق میں توڑ لیا تھا جس بنا پر جناح نے 1937ء کے انتخابات میں مسلم اکثریت کے علاقوں میں بھی جو شکست ہوگئی تھی اس کے اسباب جاننے کے لئے مسلم لیگ کو دعوت بحث دی۔ جس کے نتیجے میں قرارداد لاہور پیش ہوئی۔ اس سے قبل محمد علی جناح جوکہ ہندو مسلم یونٹی کے پیامبر تھے، اب انہوں نے خود کو صرف مسلمانوں کا لیڈر قرار دیا۔ مورخین کے ایک حلقے کے مطابق اس وقت کے پنجاب کے چیف منسٹر سکندر حیات خان کو (جن کی یونینسٹ پارٹی مسلم لیگ کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے جیتی تھی) 1940ء کی قرارداد لاہور کا صل بانی اور آتھر کہا جاتا ہے لیکن ملکی امن کی خاطر یہ قرارداد سر فضل الحق سے پیش کروائی گئی۔ سکندر حیات نے اس وقت کے وائسرائے کے کہنے پر جنگ عظیم میں انگریز کی حمایت کا اس وقت اعلان کیا تھا جب ہندوستان کی دیگر جماعتیں اس کی مخالفت کررہی تھیں۔ اسی دور میں سکندر جناح معاہدہ بھی ہوا تھا اور انگریز نے جنگ کے بعد ہندوستان کو ڈومینین سٹیٹ (Dominion State) کا درجہ دینے کا وعدہ بھی کیا تھا جسے قبول کرلیا گیا تھا۔ خاکساروں نے تقسیم پنجاب اور تقسیم ہندوستان کے خلاف کھل کر پرچار بھی کیا اور اعلان جنگ بھی کیا۔ جنگ عظیم کے خاتمے کے دو سال بعد جب پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو قائداعظم کے ساتھ ابتدائی طور پر جو ٹیم تھی، جنہوں نے پاکستان کا نظم و نسق سنبھالا، ان میں میں ہندو، مسلم اور عیسائی سبھی شامل تھے اور فوج کا سربراہ بھی ایک انگریز تھا۔ جناح کی سوچ کے مطابق اگر انہوں نے پاکستان کو اسلامی قانون کے تحت چلانا ہوتا تو وہ جوگندر ناتھ منڈل کو (جوکہ ہندو تھے) پاکستان کا وزیر قانون نہ بناتے۔ اسی طرح اگر اسلامی معیشت ان کے دماغ میں ہوتی تو وہ وکٹر ٹرنر کو (جوکہ عیسائی تھے) فنانس منسٹر نہ بناتے۔ سر ظفر اللہ خان کو (جن کا تعلق آج کے اقلیتی فرقے سے ہے) وزیر خارجہ نہ بناتے۔ وہ اس نوآزاد مملکت کا قومی ترانہ لکھنے کے لئے جگن ناتھ آزاد کو نہ کہتے۔ یہی قومی ترانہ ابتدائی چند برسوں تک رائج بھی رہا اور بجتا بھی رہا۔ موجودہ ترانہ بعد میں متعارف ہوا۔ تاریخ کے ان ابواب پر غور کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر ہم اپنی تاریخ کو ہی تھوڑا درست طور پر سمجھنا شروع کردیں تو ہمارے بہت سے مسائل صحیح سمت اور حل کی جانب جانا شروع ہوجائیں گے۔ ہم 23 مارچ کو یوم جمہوریہ بھی کہتے ہیں اور قرارداد پاکستان کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ جس بنا پر ہم پاکستان میں جہمہوریت کی بات کرتے ہیں، ملوکیت اور آمریت کو مسترد کرتے ہیں۔ انتخابات کو جمہوریت کی اساس سمجھتے ہیں۔ جناح کے لائف سٹائل، عمل اور کہی ہوئی باتوں کو بانی ٴ پاکستان کے فرمودات اور راہ عمل سمجھتے ہیں۔ لیکن گزشتہ 65 برسوں میں تاریخ کو توڑ مروڑ کے پیش کرنے والوں نے قائداعظم کو جبہ بھی پہنا دیا ہے اور ہاتھ میں تسبیح بھی پکڑا دی ہے۔ انہوں نے اپنے اور قوم کے لئے اپنی ہی طرز کا جناح تراش لیا ہے جس کی داڑھی بھی ہے اور ہر وقت لوٹا بھی اٹھائے پھرتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ سنی مسلک کے ہوگئے تھے، کوئی کہتا ہے شیعہ تھے۔ ایک کہتے ہیں کہ جناح کی نماز جنازہ ان کی آخری خواہش کے پیش نظر مولانا عثمانی نے پڑھائی تھی۔ ان تمام باتوں کو جناح کے ساتھ بغیر کسی ثبوت کے منسوب کرنے سے انہیں کچھ حاصل ہوتا ہو یا نہیں، البتہ پاکستان کے عوام کو انہوں نے مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرکے جو نفرت کی دیواریں کھڑی کردی ہیں ان سے باہر نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔ یوم جمہوریہ یا یوم پاکستان منانے کا مقصد اسی وقت پورا ہوتا ہے جب ہم قرارداد پاکستان 1940ء کو اس کی اصل حالت میں دیکھیں اور اسی طرح اسے اپنے آئین کا حصہ بنائیں۔ اگر ہم 11 اگست 1947ء کا قائداعظم محمد علی جناح کا پہلی آئین ساز اسمبلی کو چیئر کرتے ہوئے خطاب کو دیکھیں تو جناح کا پاکستان اس پاکستان سے مختلف ہے جسے کے خدوخال 1949ء کی قرارداد مقاصد میں دکھائے گئے ہیں۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ:
"Now I think we should keep that in front of US as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hidus and Muslim would cease to be Muslims, not in religious sense because that the personl faith of each individual but in the political sense as citizens of the state".
اس اہم بیان کے بعد قائداعظم کے دماغ میں پاکستان کے جو ریاستی خدوخال ہوں گے وہ بڑے واضح ہیں۔ لیکن ان کی وفات کے فوراً بعد 1949ء میں قرارداد مقاصد میں تبدیلی کرکے اسلام کو سرکاری اور ریاست کا مذہب قرار دیا گیا۔ پھر 1956ء میں پہلی بار پاکستان بننے کے 9 سال بعد آئین میں ملک کا نام اسلامک ریپبلک آف پاکستان قرار دیا گیا۔ یہی وہ تضاد ہے جو پاکستان کی نظریاتی سمت کو درست نہیں ہونے دینا۔ اسی وجہ سے تمام ملکی سیاست یرغمال ہے جس وجہ سے حکومتیں آئینی گرفت میں پھنس جاتی ہیں اور کسی بھی قسم کا انقلابی قدم اٹھانے سے ہچکچاتی ہیں۔ اگر ہم کسی قسم کے خوف کے بغیر ان معاملات کو عوام کے اندر زیربحث لائیں اور تاریخ میں جو غلطیاں اور خرابیاں ہوئی ہیں انہیں بغیر کسی تعصب کے درست کرنے کی جانب رضامندی کا اظہار کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ الجھے ہوئے معاملات صحیح سمت نہ چل نکلیں۔ بعض معاملات میں ہمارے اندر بھیڑ چال والا رویہ موجود ہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ جنہوں نے تاریخ کو مسخ کیا تھا اور آج وہ کہیں تاریخ کے اندھیروں میں غرق ہوچکے ہیں۔ اور پھر یہ 65 برس پرانی کہانی ہے۔ آج سے 65 برس پہلے ان گروہوں اور افراد کے اپنے مفادات اور سوچ تھی جو بہرحال قائداعظم اور تحریک پاکستان سے مختلف تھی۔ ہم ان گزاے لیڈروں اور بعض مفاد پرستوں کے مفادات کو کیونکر سنبھالے بیٹھے ہیں۔ آج اس سوچ کے تحفظ کی بجائے اسے ریویو کرنے کی ضرورت ہے اور غلطیوں کے ریویو کے ساتھ ضد کیسی؟ تاریخ کی غلطیوں کو زیر بحث لانا چاہئے۔ میڈیا پر گفتگو کو کھولنا چاہئے، چند مہینے اس پر بحثہ مباحثہ کرنا چاہئے جوکہ بالآخر ہماری مضبوطی کا سبب بنے گا نہ کہ کمزوری کا۔ پھر بڑے ایشوز پر ریفرنڈم کرایا جا سکتا ہے۔ آئین کو بڑے ملکی اور عوامی مفاد کے پیش نظر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ وگرنہ ہم جس نظریاتی کشمکش میں الجھ چکے ہیں اسی میں شطرنج کی بازی کی طرح زچ ہوجائیں گے اور کھیل کو آگے چلانا ممکن نہیں رہے گا۔