• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ دنوں جب پوری قوم خوف اور پریشان حالی کا شکار ہے پاکستانی ادارہ شماریات (بی ایس پی) کا یہ انکشاف خوش کن ہی قرار پائے گا کہ ’’مسلسل دوسرے ماہ اہم اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے مارچ کے مہینے میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر 10.2، جو اس سے پہلے والے مہینے میں 12.4فیصد تھی، ہو گئی ہے۔ گزشتہ برس جولائی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی ) سے پیمائش کی جانے والی مہنگائی میں مسلسل دوسرے ماہ کمی کا سلسلہ دیکھا گیا، جس کی وجہ اشیائے خور و نوش کی فراہمی بہتر ہونا اور توانائی کی اشیا کی قیمت کم ہونا ہے‘‘۔ شنید ہے کہ ادارہ شماریات اشیائے خور و نوش کے اعدود و شمار ہر ماہ کی 15تاریخ تک اکٹھا کر لیتا ہے۔ وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ مہنگائی میں افراطِ زر میں اضافے کی وجہ بننے والی اہم اشیا مثلاً روز مرہ کے استعمال کی اشیا مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور خوراک کے علاوہ زیادہ تر اشیا کی قیمت مستقل ہے۔ یہ حقیقت بھی عیاں ہوئی ہے کہ سالانہ بنیادوں پر مارچ میں اشیائے خور و نوش کی گرانی میں 13فیصد جبکہ ماہانہ بنیاد پر 0.6فیصد اضافہ ہوا۔ شہری علاقوں میں پیاز، آلو، تازہ پھل، تیل، انڈوں، مسالا جات، گڑ، تازہ دودھ اور گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ حیرانی کی بات یہ رہی کہ دیہی علاقوں میں پیاز، آلو، پھل اور ویجیٹیبل گھی کی قیمتیں بڑھیں لیکن دالیں اور دیگر اجناس کی قیمتیں کم رہیں۔ مارچ کے مہینے میں دیکھی جانے والی قیمتوں میں کمی کی وجہ کوئی بھی رہی ہو، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عہدِ ابتلا میں جبکہ پورا ملک لاک ڈائون کی زد میں ہے، عامۃ الناس کو ان اشیا کی سستے داموں مسلسل فراہمی میں تعطل نہیں آنا چاہئے۔ اس بےیقینی کے حالات میں اگر حکومت عوام کی بنیادی ضروریات بہم پہنچانے میں کامیاب رہتی ہے تو یہ بات اس کی نیک نامی میں اضافے کا باعث بنے گی۔ امید ہے کہ حکومت جس طرح کام کر رہی ہے اس سے مہنگائی میں کمی کا تسلسل قائم رہے گا اور عوام کو ریلیف میسر آئے گا۔

تازہ ترین