• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروازوں کی بندش سے برطانیہ میں پھنسے پاکستانیوں کو مشکلات کا سامنا

لندن/مانچسٹر (مرتضیٰ علی شاہ/تنویر کھٹانہ) پاکستان کی جانب سے اپنی فضائی حدود 21 مارچ کو بند کرنے کے بعد سیاحوں، بزنس وزیٹرز اور ناتواں افراد سمیت ہزاروں پاکستانی برطانیہ میں پھنس گئے ہیں۔ تمام تجارتی پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں جبکہ متعدد ایئرلائنز، جن میں پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز (پی آئی اے) رقم کی واپسی میں تعاون نہیں کررہی ہیں لیکن وہ پھنسے ہوئے مسافروں کو فلائٹ کریڈٹس پیش کر رہی ہیں۔ برطانیہ میں پھنسے بیشتر طلبہ اور وزیٹرز ہیں۔ وزیر اعظم بورس جانسن کی جانب سے برطانیہ کو لاک ڈائون کرنے سے پہلے سیکڑوں پاکستانی طلبہ براہ راست اور بالواسطہ پروازوں کے ذریعے پاکستان روانہ ہو گئے تھے لیکن سیکڑوں طلبہ یہاں سے نکلنے سے قاصر رہے۔ برطانیہ میں پھنسے بہت سے پاکستانی واپس جانے سے ہچکچا رہے ہیں، کیونکہ وہ لاہور کے ایک ہسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں کو بندھا دکھائے جانے کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد پاکستان میں قرنطینہ کی سہولتوں سے خوفزدہ ہیں۔ ہوٹلوں اور قرنطینہ فیسیلٹی کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ پروازوں کے بارے میں درست معلومات ابھی تک حتمی شکل میں نہیں ہیں، جس سے برطانیہ میں موجود پاکستانی شہریوں کی پریشانی مزید بڑھ رہی ہے۔ یونیورسٹی آف ہڈرز فیلڈ میں پاکستان سوسائٹی کی صدر انیسہ قدیر نے دی نیوز کو بتایا کہ زیادہ تر پاکستانی طلبہ جا چکے ہیں لیکن بہت سارے ابھی یہاں موجود ہیں، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ پرواز میں یا ایئرپورٹ پر انہیں وائرس لگ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ابھی تک بخوبی یہ معلومات نہیں ہیں کہ پاکستان مسافروں کو وائرس کے مرض سے بچائو کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کر رہا ہے۔ کچھ طلبہ پہلے ہی دیگر ایئر لائنز سے ٹکٹ خرید چکے تھے، جن کو ری فنڈ نہیں کیا جا رہا اور اب ان کے والدین کو نئے ٹکٹ ککیلئے انہیں رقم بھیجنے میں مشکل پیش آ رہی ہے، کیونکہ کورونا وائرس بحران کی وجہ سے انہیں معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کا کیش فلو متاثر ہوا ہے۔ کچھ طلبہ کیلئے بنیادی ضروریات جیسا کہ کھانے تک کی خریداری مشکل ہو رہی ہے اور وہ لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کی سپورٹ کی جانب دیکھ رہےہیں۔ کوونٹری یونیورسٹی میں قانون کے طالبعلم فیصل آفندی نے، جو اس وقت لندن میں فیملی کے ساتھ رہ رہے ہیں، نے کہا کہ میری پاکستانی حکومت سے عاجزانہ درخواست ہے کہ کم سے کم ایک ہفتہ کیلئے تمام کمرشل پروازیں بحال کر دے، کیونکہ بہت سے طلبہ نے پہلے ہی مختلف کمرشل ایئر لائنز سے ٹکٹ بک کروا لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ قیمت پر خصوصی پروازوں کیلئے نئے ٹکٹ کی خریداری غیر منصفانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو تمام ممکنہ اثرات پر غور کرنے کے بعد کوئی پالیسی بنانی چاہئے۔ سٹی یونیورسٹی آف لندن کے انڈر گریجویٹ سٹوڈنٹ ابراہیم نیئر نے کہا کہ میری شدید ترین خواہش تھی کہ میں بحران کے وسط میں ہی اپنی فیملی کے پاس واپس چلا جائوں لیکن کوئی چیز واضح نہیں ہے، خصوصی پروازوں کے حوالے سے غیر یقینی کی صورت حال ہے جو کہ صرف ایک بار دستیاب ہوگی۔ میں یہ نہیں جانتا کہ پاکستان میں لینڈنگ کے بعد کورونا ٹیسٹ کنڈکٹ کئے جائیں گے یا آیا ہمیں قرنطینہ زون میں رکھا جائے گا اور 14 دن کیلئے ہمیں مانیٹر کیا جائے گا۔ اگر ہم برطانیہ سے پہلے ہی سرٹیفیکیٹ لے کر جائیں گے تو کیا وہ وہاں اپلائی ہوگا۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے اور یہ کہ قرنطینہ میں رکھے جانے کی صورت میں میرے مئی میں ہونے والے امتحانات کی تیاری خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان ہائی کمیشن لندن کے پریس آفس نے دی نیوز کو بتایا کہ ہائی کمشنر پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی صورت حال پر بات چیت کیلئے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) اور منسٹری آف فارن افیئرز (ایم او ایف اے) کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ برطانیہ میں موجود تمام پاکستانی ہمیں support@phclondon.org پر ای میل کریں۔ ہائی کمیشن کیلئے پریس افسر نے مزید بتایا کہ انہیں واپس جانے کے خواہاں پاکستانیوں کی سیکڑوں درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ پاکستان کیلئے خصوصی پروازیں سات آٹھ اور 9 اپریل کو چلا ئی جائیں گی۔ ابھی تک صرف پی آئی اے کو ہی پاکستان میں پرواز کی اجازت ہے۔ اگر کسی کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو وہ ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں اور ہم ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ پاکستان کی فضائی حدود بند ہونے کی وجہ سے کچھ پاکستانیوں کو بے حد ذاتی نقصان ہوا ہے۔ آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے اسامہ خان نے بتایا کہ ان ایسٹر ہالیڈیز میں میری شادی طے ہے لیکن اس وبائی بیماری کی وجہ سے میں پاکستان نہیں جاسکتا۔ میرے والدین، ​​بھائیوں، بہنوں سمیت تمام خاندان پاکستان میں ہے لیکن میں اب پرواز نہیں کر سکتا۔ اب وہ پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں اور میں یہاں ہوں۔ شیفیلڈ سے تعلق رکھنے والی جینس خان نے دی نیوز کو بتایا کہ میری بیٹی کی شادی پاکستان میں ہو رہی ہے، میں یہاں اپنی فیملی کے ساتھ ہوں ہم نے ہر چیز کا انتظام کر لیا تھا لیکن اب میری بیٹی یہاں نہیں جا سکتی، کیونکہ ہم پھنس چکے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس سے قبل کینیڈا اور برطانیہ سے پھنسے ہوئے پاکستانی شہریوں کو وطن واپس لانے کیلئے 17 خصوصی پروازوں کا اعلان کیا تھا لیکن ان تمام پروازوں کی تفصیلات کو ابھی حتمی شکل نہیں دی جا سکی ہے کیونکہ امید کی جارہی ہے کہ فضائی سفر کیلئے نشستوں کی ڈیمانڈ دستیاب نشستوں کی تعداد سے تجاوز کر جائے گی۔ ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے کہا کہ یہ ایک متحرک اور بدلتی ہوئی صورت حال ہے اور ان پلانز پر باقاعدگی کے ساتھ نظرثانی کی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا کورونا وائرس کوویڈ 19 ٹیسٹ کیا جائے گا اور ٹیسٹ کے نتائج آنے تک انہیں اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں رکھا جائے گا، جن افراد کے وائرس ٹیسٹ مثبت آئیں گے تو ان کو غیر واضح قرنطینہ فیسیلٹی میں رکھا جائے گا۔
تازہ ترین