
تھے۔تین دن میں جنگل خالی ہوگیا تو وہاں قروان شہر کی آبادی شروع کردی گئی۔ یہ شہر اسی علاقے میں پہلا اسلامی شہر تھا جس میں سو فیصد مسلم آبادی تھی بعدازاں یہ اس علاقے کا علمی مرکز قرار پایا۔ جب جنگلی بھیڑئیے اور شیر ایک سپہ سالار کے حکم سے جنگل چھوڑ سکتے ہیں۔مجاہد کے آگے سرنگوں ہوسکتے ہیں۔شیرنیاں دانتوں میں بچے دبائے سر جھکائے نکل گئیں۔اور تاریخ نے دیکھا کہ وہ جنگل نہ صرف شہر بنا بلکہ اسلامی علوم وفنون کا مرکز قرار پایا۔ آج اگر کوئی مومن،کوئی مجاہد،کوئی وقت کا سپہ سالار ’’کرونا‘‘کو خط لکھے کہ’’اے کرونا ہمارا اور تیرا رب اللہ ہے۔ تجھے اللہ نے اپنی مخلوق انسانوں کی طرف بھیجا ہے اس لئے کہ اللہ کی زمین ظلم سے بھر گئی تھی’’انکاریت‘‘کلچر بن رہی تھی۔الحاد کی تبلیغ زوروں پر تھی،زمین کی طاقتیں خود کو کائنات کا خدا سمجھ بیٹھی تھیں۔انسان ترقی کی اس معراج کو پہنچ گیا تھا کہ خود کو ناقابل شکست سمجھتا تھا۔وہ خدا کی دی ہوئی عقل سے خدا کے منہ کو آگیا تھا۔ چیلنج کرتا تھا کہ وہ ناقابل شکست ہے۔مریخ پر کاشتکاری کرنے،چاند پر بستیاں بسانے،سمندر کی تہوں کو چیر کر ٹاور اور پلازے بنانے والا یہ انسان خود کو خدا کا نائب سمجھنے کے بجائے فرعون بن بیٹھا۔انسانی آبادیاں خاک وخون میں نہلا دیں۔اتنے ہتھیار بنا لئے کہ ساری دنیا کو دس بار تباہ کر بیٹھے۔ مخلوق پر ظلم وستم کی انتہا کردی گئی۔تب اے کروناتو ہمیں ہماری’’اوقات‘‘بتانے کے لئے بھیجا گیا۔ہم رب کے آگے عہد کرتے ہیں کہ اب درہم ودینار کے بندے نہیں بنیں گے۔اب وقت کے خداؤں کے آگے سر نہیں جھکائیں گے۔اب اس حقیر دنیا کے لئے ایمان کا سودا نہیں کریں گے۔دنیا بھی جہاں بھی ہم مسلمان مہاجرت میں ہیں۔اب ہم اسلام کے سپہ سالار بن جائیں گے۔ہم منافقت چھوڑ کر اپنی مومنانہ و مجاہدانہ زندگی سے خلق خدا کو دین کے قریب لائیں گے۔ہم مقصد زندگی بھلا بیٹھے تو کرونا تجھے ہم پر مسلط کردیا گیا۔زندگی ہم سے روٹھ گئی۔ ہم سے دنیا اور ہماری عبادت گاہیں چھین لی گئیں ۔ہمیں گھروں میں قید کردیا گیا۔یہ قید تنہائی اب برداشت نہیں ہوتی۔کرونا ہم تجھے حکم دیتے ہیں ہماری بستیوں سے نکل جا۔‘‘
یقیناً عقبہ بن نافعؓ جیسا سپہ سالار کرونا کو خط لکھتا تو وہ شیر،چیتوں اور گیڈروں کی طرح سر جھکائے ہماری آبادیوں سے نکل جاتا۔