• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی دنوں سے ملک کی سیاست میں کچھ ایسی ہوا چل رہی ہے کہ اس کی سمت تو سمجھ میں آتی ہے, سبب سمجھ میں نہیں آتا، کئی دنوں سے اٹھتی آندھیوں کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ ان گھنے سیاہ بادلوں کے کناروں کی کوئی سنہری گوٹ نہیں ہے، لیکن کیا یہ کم ہے کہ کچھ باتوں کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی دیانت دارانہ کوشش کہیں نہ کہیں جاری ہے کہ نیک نیتی ہماری ہم قدم ہے، سال گزشتہ سے ادارہ جنگ اور حکومت کے درمیان پڑنے والی دوری میں فاصلہ بڑھ گیا ہے، شب ہجر دراز ہو گئی ہے، جو لوگ منفی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ کبھی مسائل کو بے لاگ انداز سے نہیں دیکھ سکتے اور جو لوگ مسائل کو بے لاگ انداز سے نہ دیکھ سکیں ان کیلئے یہ بھی ناممکن ہے کہ وہ مسائل کا منصفانہ اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کر سکیں، موجودہ حکومت کے ارباب اختیار اس کی بدترین مثال ہیں، مجھے یاد ہے مرحوم ولی خان نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کوئی بھی بیرونی طاقت 2ارب ڈالر لا کر پاکستان کی آزادی خرید سکتی ہے اور آج جنگ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن نے پابند سلاسل ہوکر آزادیٔ صحافت کو بچا لیا ہے۔

اس کی وجہ ہم یہ بھی سنتے ہیں اصل میں صحافت ہی وہ ستون ہے جس پر ریاست کی چھت کھڑی ہوتی ہے باقی کی تینوں چیزیں تو ’’ایویں شو شاہ‘‘ ہی ہیں، صحافی کی حیثیت کسی مصنف، منتظم، مقننہ، شاعر و ادیب سے کسی طرح کم نہیں ہوتی، عوام کے مزاج میں تبدیلی لانے کی جتنی طاقت شاعر و ادیب کی زبان میں ہے اتنی ہی صحافی کے قلم میں بھی ہے بلکہ دنیا کے ملکوں کے انقلابات کے اسباب و علل کی کھوج کی جائے تو اس میں صحافیوں کی کوششیں اور جاں فشانیاں زیادہ نظر آئیں گے، جارج برنارڈ شا نے اپنے ڈراموں کو کالج کے نصاب سے (جو کسی بھی صاحب قلم کیلئے دنیاوی کامیابی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں) خارج کرادیا تھا اور خود کو صحافی کہلانے میں فخر کرتا تھا، سو، ڈیڑھ سو صفحات کی پوری ایک کتاب ان صحافیوں کے نام، کام اور مقام کے صرف شمار سے بھر جائے گی جنہوں نے وقتی اور ہنگامی مفاد کو پس پشت ڈال کر آزادیٔ اظہار کو اپنایا اور دنیاوی کامیابی کو ٹھوکر مار دی۔ ’’وقتی اور ہنگامی‘‘ کے لفظوں سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے ادب کی قدر و قیمت جانچنے میں خود ان لفظوں کی ویلیو بہت کم ہے اور اس پر کافی لکھا جاچکا ہے۔ دنیا کے بڑے اور عالمگیر اخبارات میں ٹائمز لندن کا پایہ سب سے اونچا جانا جاتا ہے جس کے یکے بعد دیگر کئی ایڈیٹروں نے آزادیٔ اظہار کا علم بلند کئے ہوئے دنیاوی کامیابی کو ٹھکرا دیا اور بالآخر یہ اخبار خود خسارے کا سودا ہوگیا اور بک گیا، قلم اور اخبار کی آزادی یا وقار کی خاطر کتنے ہیں جو اپنے ذریعۂ معاش کی سلامتی سے ہاتھ دھونے پر آمادہ ہوں؟بہت پہلے ایک کتاب ’’اردو کے اخبار نویس ‘‘ میری نظر سے گزری تھی اس کے پہلے باب میں 53ایڈیٹروں میں اکثر ایسے ہی اہل علم و اہل قلم تھے، صحافت ان کا ذریعۂ معاش ہو نہ ہو مشن ضرور تھا، اس حوالے سے میں یہاں ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی ایک کتاب کاروانِ صحافت سے ایک اقتباس پیش کررہا ہوں۔

’’ایڈیٹری اس کا نام نہیںہے کہ جھوٹی خوشامد کی جائے اور بیجا تعریفوں کے پل باندھے جائیں۔ ہم نے سرکار کی بے جا کارروائیوں اور خود غرضانہ کارناموں پر اعتراض کیا ہے ذرا کوئی اس پیر مغاں سے پوچھے کہ آپ کا ارشاد یورپ والوں کی نسبت کیا ہے کیونکہ یہی شغل ان کے رگ و پے میں جاری و ساری ہے اور یہی شوق انہیں دن رات لگا رہتا ہے دیکھئے کوئی روز ایسا بھی گزرتا ہے جب کہ کسی نہ کسی ایڈیٹر نے لارڈ یاڈیوک کی کارروائی پر نکتہ چینی نہ کی ہو، کوئی کمبخت دن ایسا نہیں بسر ہوتا جبکہ لارڈ سالبری یا لارڈ روزیری وغیرہ کے کاموں پر جرح و قدح نہیں ہوتا یا ان کو آڑے ہاتھوں نہ لیا جاتا ہو لیکن انہیں کوئی نہیں کہتا کہ یہ بدخواہ سلطنت ہیں‘‘ میں نے اپنی اطلاع کے مطابق کہیں کسی مضمون میں لکھا ہے کہ صحافی خبر فروش یا ایک عام دُکاندار کی طرح نہیں ہوتا وہ اپنے حساب میں ایک کاز کیلئے اپنی زندگی وقت کردیتا ہے کہ اس پر جبر و استبداد کے خلاف آواز بلند کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اسے مجبور و مقہورکی ترجمانی کرنی چاہئے اور ضرورت پڑنے پر اسے اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے اس کا فرض ہ کہ وہ عوام کی تکلیفیں بیان کرے ان تکلیفوں کی نمائندگی کرے اور اگر حکومت ان پر توجہ نہ دے تو حکومت کے خلاف جدو جہد کا بگل بجادے۔ آج جو میر شکیل الرحمٰن پوری قوت اور بے باکانہ صحافت کاپرچار کئے ہوئے اور پرچم لئے ہوئے ملک بھر کے صحافیوں کے درمیان میں ’’موجود‘‘ ہیں یہ دراصل احتجاج کی امنگ سے کلبلانے والے پاکستان کے اور خود اپنے سیاسی سماجی شعور کے ترجمان ہیں، یہ اپنے ہی نہیں تمام صحافی برادری کے ضمیر کی آواز ہیں اور یہ اس لئے ہوا کہ جنگ کا مالک و مدیر اعلیٰ آزادی پسندی کے جذبے سے تپایا ہوا ضمیر رکھتا ہے اور یہی ضمیر بحیثیت مالک و مدیر ان کا وقار سلامت رکھے ہوئے ہے۔ جاتے جاتے آپ کو ایک تاریخی واقعہ سناتا جائوں کہ صحافت اور شرافت دونوں ایک ہی شخصیت میں کیسے جمع ہوجاتی ہیں پنڈت جواہر لال نہرو لکھنؤ کے راج بھون میں مہمان ہیں شام کا کھانا لگ رہا ہے وزیر اعلیٰ گووند پنت کے نہرو کے دوست اور ہمنوا بھی تھے کھانے کی چیز پر نہرو سے شکایت کرتے ہیں کہ آپ کے اخبار ’’نیشنل ہیرالڈ‘‘ کا ایڈیٹر آئے دن ہماری حکومت کہ نشانہ بنائے رکھتا ہے، یہ کیا کانگریس کا اخبار ہوا جو کانگریس ہی کی حکومت پر دھڑلے سے نکتہ چینی کرتا رہے۔ نہرو نے مسکرا کر ایڈیٹر چھیلا پتی رائو کو دیکھا اور کہا، سنتے ہو پنڈت کی کیا شکایت کرر ہے ہیں؟ چھیلا پتی رائو دبتا نہیں مسکرا دیتا ہے، نہرو نے ہنسی ضبط کی اور بے بسی سے کندھے جھٹک کر بولے ’’پنڈت کی کیا کروں یہ چھیلاپتی بہت سرکش ہے، میری بھی نہیں سنتا، آپ ہی اسے سمجھایئے میں تو تھک ہار گیا‘‘!

کیا ایسی صفات ہمارے لیڈروں میں نہیں پیدا ہوسکتیں کہ جو ان کو جیتا جاگتا افسانہ بنا دے…؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین