• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی سطح پر Covid 19المعروف کورونا وائرس وبا کی طرح پھیل چکا ہے، چین کے شہر ووہان سے اس کا سلسلہ شروع ہوا اور پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اس وقت دنیا کا کوئی ملک اور کوئی خطہ محفوظ نہیں ہے۔ اس وبا نے دنیا کی مذہبی، ثقافتی، تجارتی اور عمرانی روایات کو یکسر بدل دیا ہے، لوگوں کو چار دیواری میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس وقت ہر طرف افراتفری کا عالم ہے، کہیں لوگ علاج کروا رہے ہیں اور کہیں علاج پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مرنے والوں کی تعداد رکنے کا نام نہیں لے رہی اور مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، اسپین، اٹلی اور دیگر یورپی و مغربی ممالک اس سے سخت متاثر ہو رہے ہیں۔ ان ممالک میں مرنے والوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ترقی یافتہ مغربی ممالک میں شرحِ اموات تیزی سے بڑھ رہی ہے تو ترقی پذیر غریب ممالک کا کیا حال ہو گا، ذہن میں اس خیال سے پورے جسم میں ایک جھرجھری آ جاتی ہے۔ اس وبا کا علاج تاحال دریافت نہ ہوا ہے، صرف احتیاط اور احتیاط ہے۔ تعلیم یافتہ افراد تواس میں آگے ہیں اور انہوں نے خود کو گھروں میں محصور کر لیا ہے لیکن باقی افراد کو کون سمجھائے گا؟

ایک اندازے کے مطابق اس وقت بین الاقوامی سطح پر تین ارب سے زیادہ افراد گھروں میں محصور ہو چکے ہیں اور اس وبا سے جان چھڑانے کی کوشش جاری ہے۔ پاکستان بڑی حد تک اس وبا سے بچا ہوا تھا، دوست ممالک چین میں بیس ہزار سے زائد پاکستانیوں کی موجودگی کے باوجود کورونا وائرس پاکستان میں منتقل نہ ہو سکا۔ چین نے عظمت اور ایمانداری کا ثبوت دیتے ہوئے کسی متاثر پاکستانی شہری کو پاکستان جانے کی اجازات نہ دی مگر ایران میں اس وبا کے پھوٹنے کے بعد وہاں موجود پاکستانی زائرین جب پاکستان آئے تو ان کے ساتھ کورونا وائرس بھی پاکستان میں داخل ہو گیا۔ اب پاکستانی قوم اس وبا سے نبرد آزما ہے، ایک ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں اور آٹھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ وبا تیزی سے پھیل رہی ہے جس کے لیے سب کو احتیاط، علاج اور سب سے زیادہ قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔ اس وبا کا مقابلہ کسی صورت انفرادی طور پر نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے قومی سطح پر اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم پاکستانی قوم میں اتحاد اور یگانگت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟ اس پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں اپنی قومی قیادت بکھری ہوئی نظر آ رہی ہے، اس کے لیے سب سے اہم ذمہ داری وزیراعظم عمران خان پر عائد ہوتی ہے مگر نظر یہ آ رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ایک پیج پرنہیں ہے، یہاں تک کہ وزیراعظم عمران خان خود اپنے وژن پر واضح نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کیا، وہ برق رفتاری سے سامنے آئے اور بڑے یقین کے ساتھ واضح اقدامات کیے۔ انہوں نے متاثرین ِ کورونا کے لیے قرنطینہ سنٹرز قائم کیے، اسپتالوں میں داوئوں کا انتظام کیا، یہاں تک کے سب سے پہلے اپنے صوبے کو لاک ڈائون کرکے اپنے عوام کے الگ تھلگ رہنے کا انتظام کیا۔ وفاقی سطح پر وزیراعظم عمران خان ابھی تک مکمل لاک ڈائون کے حق میں نہیں ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس طرح دہاڑی دارغریب عوام شدید متاثر ہوں گے اور ان کے بھوکے مرنے کا امکان زیادہ ہو جائے گا۔ لیکن تحریک انصاف کی پنجاب اور کے پی حکومت نے بھی لاک ڈائون کا فیصلہ کر لیا اور فوج کی مدد طلب کر لی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حکومت اپنے عوام کے تحفظ کے لیے اپنی قیادت کے برعکس موقف اپنا سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو کورونا کے خلاف جنگ کی قیادت کرنے کو کہا ہے اور اپنے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا جبکہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی لندن سے فوری واپس آئے اور ایوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرکے حکومت کو اپنے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا مگر ہوا کیا؟ ہمارے وزیراعظم اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے بلائی گئی سیاسی رہنمائوں کی کانفرنس اپنے خطاب کے بعد چھوڑ کر چلے گئے جس باعث شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے بھی کانفرنس سے واک آئوٹ کر دیا۔ قوم کو اتحاد، یگانگت اور یکجہتی کا پیغام دینے کے بجائے نااتفاقی کا پیغام دیا گیا۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنی ذات اور اَنا پرستی کے خول سے باہر نکلیں اور قوم کی کورونا کے خلاف جنگ کی قیادت کریں کیونکہ کوئی بھی قوم قیادت کے بغیر جنگ نہیں جیت سکتی، یہ ان کے منصب جلیلہ کا تقاضا ہے۔

تازہ ترین