• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
گزشتہ سے پیوستہ
اس کے تحت متعدد تاریخی، سیاسی و ثقافتی موضوعات پر کتب بھی شائع ہوچکی ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی سے انگریزی اور اردو زبان میں ہفت روزہ رسالہ MAG اور اخبار جہاں شائع ہو رہے ہیں ۔ اسی طرح لاہور ، کراچی اور اسلام آباد سے انگریزی میں ایک انگریزی روزنامہ The News بھی گروپ آف جنگ پبلشرز کے تحت شائع ہورہا ہے۔ “ جبکہ جنگ لندن کیساتھ اشتراک سے The News International بھی کافی عرصہ سے شائع ہوتا ہے جبکہ مذکورہ تصنیف میں روزنامہ جنگ کی درج ذیل خصوصیات بیان کی گئی ہیں ۔ روزنامہ جنگ نے آزاد پالیسی اپنا رکھی ہے، عوامی دلچسپی کے فیچر شائع کرتا ہے، عوام کی رائے کو اولیت دیتا ہے اور ہر طبقہ کی نمائندگی بھی کرتا ہے ۔ عوامی رائے عامہ کا ترجمان بھی ہے اور رائے عامہ کی تشکیل میں معاونت کرتا ہے ۔ لے آوٹ اور گیٹ اپ کے لحاظ سے بہت اچھا اخبار ہے۔ یہ بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ جنگ نے خبروں کو وسیع کوریج دینے کی روایت قائم کی ، جدید ترین تکنیک اور طریقہ کار کو اپنا کر صحافت کے پیشہ کو قابل احترام بنایا۔ جنگ کے اس اعزاز کا بھی ذکر ہے کہ “ اردو کمپیوٹر پر سب سے پہلا اردو اخبار شائع ہوا ۔ بہترین تکنیک کو متعارف کرایا۔” کتاب کے صفحہ 167 پر صحافتی ضابطہ اخلاق پیش کیا گیا ہےکہ ایک صحافی صداقت ، صحت معلومات ، شائستگی ، معاشرتی اقدار کی حفاظت اور غیر ذمہ دارانہ و غیر اخلاقی رویہ سے اجتناب کرے، مصنف نے آگے چل کر بہترین صحافتی ضابطہ اخلاق میں حب الوطنی ، پابندی قانون ، صداقت ، درست معلومات ، نظریہ پاکستان سے لگاؤ ، معروضات یا غیر جانبدارانہ رویہ ، زرد صحافت سے اجتناب ، اہم ذمہ دار یاں : قومی ، سماجی ، پیشہ ورانہ ، کاروباری اور ذاتی و اخلاقی پر کاربند ہو تو کم و بیش تین دہائیوں سے اس جنگ کے ساتھ اپنے ذاتی تعلق کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جنگ اخبار مذکورہ بالا صحافتی اقدار کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے اور عبدالسلام خورشید کے بقول رائے عامہ کی ترجمانی سے آزادی صحافت کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ یعنی جو ابلاغی ذرائع رائے عامہ کی ترجمانی کے اس بنیادی مقصد کو ہی نہ اپنائیں اور فقط وقتی حکومتوں کی کاسہ لیس بنے رہیں ان کو آزادی صحافت کا کیا مسئلہ پیدا ہوگا؟ اور میری رائے میں اصل زرد صحافت یہی ہے، کسی بھی میڈیا ہاوس کی پالیسی جاننے کا اصل ذریعہ یہی ہے کہ وہ لوگوں تک غیر جانبدار اطلاعات پہنچانے کا فریضہ کس حد تک انجام دے رہے ہیں، اور اس کا بہتر فیصلہ کسی میڈیا ہاوس سے متعلقہ افراد نہیں بلکہ عام قارئین، ناظرین یا سامعین ہی کر سکتے ہیں، اور میڈیا کا احتساب کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں ہوتی بلکہ ان کا احتساب ہر روز ہو رہا ہوتا ہے۔ جوان کےقارئین، ناظرین یا سامعین کر رہے ہوتے ہیں، پالیسی تو دور کی بات ہے صرف ایک غلط خبر یا کالم کی اشاعت پر قارئین کا اعتماد اٹھ جاتا ہے، اور جس اخبار یا چینل پر لوگوں کا اعتماد مجروع ہوجائے اس کو پھر نہ کسی سیاسی پارٹی اور نہ کسی حکومت کی آشیرباد دوبارہ کھڑے ہونے میں مدد دے سکتی ہے۔اس کالم کے ماخذ میں جن کتب کا پہلے زکر کیا کے علاوہ عبد السلام خورشید کی صحافت پاکستان و ہند میں ، ڈاکٹر مسکین علی حجازی کی پنجاب میں اردو صحافت کی تاریخ، نادر علی خان کی اردو صحافت کی مختصر تاریخ بھی شامل ہیں، یہ مطالعہ کے بعد اس کالم نگار کے محسوسات یہ ہیں کہ جن اعلی صحافتی اقدار و ضابطہ اخلاق پر پاکستانی صحافت کی عمارت کھڑی ہے وہ بدرجہ اُتم میر خلیل الر حمٰن کی ذات کا حصہ تھے اور جنہیں انہوں نے جنگ کو ودیعت کیا۔ اور ان کے صاحبزادوں میر جاوید الر حمٰن مرحوم اور میر شکیل الر حمٰن نے اپنے والد کے کام کو اس انداز میں آگے بڑھایا کہ آج ادارہ جنگ ملک کا سب سے بڑا میڈیا ہاؤس ہے۔اب جب پاکستان میں آزادی صحافت کی عمومی صورتحال پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس باب میں مجموعی تاثر خوش آئند نہیں۔ بقول ڈاکٹر مسکین علی حجازی آزادی کے بعد بھی پاکستانی صحافت پوری طرح آزاد نہ ہوسکی اور حکومت طرح طرح کی پابندیوں اور حربوں کے ذریعے صحافت کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتی رہی، صرف مغربی پنجاب میں پہلے سات سال کے عرصہ میں اکتیس اخبارات کو مختلف مدتوں کیلئے بند کیا گیا۔ ۔۔انہوں نے واضح کیا ہے کہ اس عرصے میں بھی کئی اخبارات کے اشتہارات بند کیے گئے اور بعض اخبارات کو روپے یا اشتہارات دے کر زیر اثر لایا گیا، پاکستان آبزرور کے ایڈیٹر کو جیل میں ڈالا گیا، علاوہ ازیں ہلال پاکستان لاہور اور کائنات بہاولپور کے مدیران کو قید کی سزائیں دی گئیں ،پاکستانی صحافت کا ایک طالب علم یہ پڑھ کر حیران و ششدر رہ جاتا ہے کہ 1950اور 1960کی دہائی میں پریس کو پابند سلاسل کرنے کا جو سلسلہ ہائے روا رکھا گیا تھا وہ اتنی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی جاری ہے ۔ اور یوں تو پچھلے کئی ادوار کو سیاہ باب ہی قرار دیا جائے گا تاہم اس اعتبار سے یہ موجودہ دور بھی ابتلاء اور مصائب سے پر دکھائی دیتا ہے، اسی باعث گزشتہ سال واشنگٹن پوسٹ نے سوال اٹھایا تھا کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن آخر بدتر کیوں ہوتا جارہاۂے ؟ ۔آزادئ صحافت کے خلاف جو اس عرصے میں قدغن لگائی گئی ہے بعض پریس کلبوں کے باہر ان پابندیوں کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں تاہم اس صورتُ حال پر کئی بڑے نامور صحافی گردن خم کیے بیٹھے ہیں تاہم ابھی غنیمت ہے کہ کہیں کہیں دبی دبی احتجاجی آوازیں بلند ہو رہی ہیں پاکستان میں آزادئ صحافت آج جس سنگین صورت حال سے دوچار ہے۔ بروز پیر 29 جولائی ، دی ٹائمز لندن نے اپنے ورلڈ سیکشن میں اس پر رپورٹ شائع کی تھی خیال رہے کہ دی ٹائمز لندن بین الاقوامی سطح پر ابلاغ کا ایک قدیم اور مستند ادارہ ہے۔ دی ٹائمز لندن نے ہو شربا انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں میڈیا انڈسٹری عملا” بنک کرپٹ یعنی دیوالیہ ہو چکی ہے، پاکستان کے بعض میڈی ہاوسز شٹ ڈاؤن ، ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ورلڈ جرنلزم کے برطانوی کوالٹی اخبار کی رپورٹ نے تشویش انگیز رپورٹ کیا تھا کہ پاکستان میں جرنلزم اب viable کیریر نہیں رہا۔ بہت سے صحافی چھ ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ عمران خان کے سیاسی حریفوں کی کوریج محدود ہو چکی ہے تازہ نشانہ میاں نواز شریف کے تقریر نویس عرفان صدیقی ہیں، اپوزیشن لیڈر سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزریراعظم کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کے ٹی وی انٹرویوز اچانک سنسر کیے گئے، دی ٹائمز لندن نے لکھا ہے کہ ناقدین کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں عمران خان نے پاکستان میں آزادئ صحافت پر پابندیوں کو ایک مذاق قرار دے کر اس کےمتعلق الزامات کو مسترد کردیا تھا اور اصرار کیا تھا کہ پاکستان میں تو برطانیہ سے بھی زیادہ پریس کو آزای حاصل ہے مگر عرفان صدیقی اور اس حوالے سے دیگر صورت حال تو کوئی اور ہی صورت حال بیان کررہی ہے ۔ یہ چشم کشا احوال بھی رپورٹ کیا گیا تھا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے پہلے ملک کے مقبول چینل جیو نیوز کو ملک کے متعدد حصوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے اس وقت بتایا تھا کہ جب سے عمران خان پاور میں آئے ہیں ملک کے تین ہزار کے لگ بھگ صحافی بے روزگار ہو چکے ہیں ۔ گزشتہ سال یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت جو ایک سال پہلے اقتدار میں آئی تھی اس کے پاس قومی حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں اب لوگوں کی توقعات کے مطابق ڈلیور کرنے میں کامیاب نہیں ہوپارہی۔ پی ٹی آئی نےکرپشن کے خاتمے اور پالیٹیکس کی صفائی کا نعرہ بلند کیا تھا ۔ یہ واضح کیا گیا تھا کہ ملک کی خفیہ طاقتوں کے پریس پر کریک ڈاؤن سے عمران خان اور ان کی جماعت نے تو میڈیا کوریج انجوائے کی مگر ان کے سیاسی حریفوں کا ذرائع ابلاغ میں گویا گلا گھونٹ دیا گیا جبکہ ملک کے ایک سینئر جائزہ کار نے نشاندہی کی تھی کہ وزریراعظم عمران خان نے اپنے آفس میں ایک سنگل پریس کانفرنس بھی نہیں کی اور ایسا پوز کر رہے ہیں کہ جیسے وہ ابھی بھی اپوزیشن میں ہیں ۔ جب سال گزشتہ کے واقعات کا مزید تجزیہ کیا جائے تو یہ بھی سامنے آئے کا کہ دی واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا تھا کہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان اپنے ٹویٹس میں یہ باور کرا رہے ہیں کہ شاید حکومت کی مخالفت گویا ریاست سے غداری ہےسٹیون بٹلر جو ایشیا پروگرام صحافیوں کو تحفظ مہیا کرنے کی تنظیم کے کوآرڈینیٹر ہیں نے سوال اٹھایا تھا کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن آخر بدتر کیوں ہوتا جارہاۂے ؟ انہوں نے صحافیوں کے ان دیکھی قوتوں کے اقدامات ان کے خلاف ناروا، پابندیوں نہ نظر آنے والے سنسر بورڈ کی جانب سے خبروں کو بلاک کرنے آف ایر کرنے متوازی جعلی خبریں چلانے کو مفصل طور پر بیان کیا ہے صحافیوں کو سوشل میڈیا سے آف ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے اور حزب مخالف کےُ سیاستدانوں کو ٹی وی چینلز سے دور کیا جارہا ہے کیا ماضی میں اس کی مثال ملتی ہے ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ حکومت اور انٹلی جنس ایجنسیاں ایک دوسرے کے متحارب رہی ہیں مگر اس وقت یہ دونوں ایک پیج پر ہیں بالفاظ دیگر مبینہ طور پر پاکستانی صحافت اور حزب مخالف کو جس ناخوشگوار صورت حال کا سامنا ہے اس پر حکومت اور ادارے گویا مشترکہ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ایک ٹویٹ کا حوالہ دیا گیا ہے کہ دشمن کے ویو view کو بیان کرنا آزادئ صحافت نہیں بلکہ اس ملک کے لوگوں سے غداری ہے جبکہ اس سال کو ابھی تین ماہ ہی گزرے ہیں لیکن آزاد میڈیا اور بلالخصوص جنگ گروپ کے ساتھ بعض اعلیٰ حکومتی ارباب اختیار کا مخاصمانہ رویہ مزید واضح ہوتا جا رہا ہے ۔جبکہ بعض لوگوں کے جائزے ہیں کہ جنگ کے خلاف بعض ان دیکھی قوتیں بھی بوجوہ سرگرم ہیں حالانکہ جیسا کہ اس جائئزہ میں اس بات کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ادارہ جنگ تو ریاست اور مملکت پاکستان کا ایک حفاظتی حصار ہے اسے تو حکومتوں اور اداروں کو وطن کی بقا کی خاطر مزید توانا بنانے کی ضرورت ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ جو بھی میڈیا ریاست کے خلاف نظریات کا پرچارک کرے ان کے خلاف ضرور کارروائی کی جائے مگر جو صحافی چاہے وہ جنگ گروپ سے ہیں ۔ کسی بھی میڈیا ہاؤس سے کیوں نہ ہو اگر وہ حکومتوں کی غلط کاریوں کا محاسبہ کریں ، عدلیہ کے فیصلوں پر مختلف آراء کو سامنے لائیں اور مختلف اداروں کی کاررکردگی پر بے لاگ تبصرے کریں، کشمیر اور دیگر خارجہ امور پر پاکستان کا موقف عالمی سطح پر پہنچانے کیلئے مصروف جدوجہد ہوں ۔ ان کے خلاف مخاصمانہ رویہ قابل مذمت ہے حکومت اور ریاست میں تفریق کو ملحوظ خاطر رکھا جائے یہ کوئی اچھا تاثر نہیں ابھر رہا جس طرف گزشتہ سال واشنگٹن پوسٹ نے اشارہ کیا تھا کہ مریم نواز کی پریس کانفرنس ائر کرنے پر تین ٹی وی بند کر دیے گئے تھے ۔ یا اسیر سیاسی شخصیات کے بیانات اور موقف بیان کرنے پر سنسر شپ لگائی جائے یا پھر میر شکیل الر حمٰن جیسی عالمی سطح کی صحافتی شخصیت کو نیب کے ذریعے الجھا کر صحافتی آزادیوں کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے ۔ سچائی کی تلاش ہر صحافی کا بنیادی حق ہے اس پر کوئی قدغن لگانا خود حکومت اور اداروں کے اپنے مفاد میں بھی نہیں اس سے حکومت کے اچھے کاموں پر بھی شک کے بادل چھا جائیں گے لوگوں کا اعتبار ختم ہو جائے گا ۔ حکومت کرپٹ اور بدعنوان سیاسی اور صحافتی عناصرکے خلاف ضرور کاروائی جاری رکھے مگر ساتھ ہی اعلی سطحی اقدامات اٹھائے جس سے ملک کی صحافتی آزادیاں بحال ہوسکیں اور کسی سیاسی یا صحافتی تنظیم یا شخصیت کے خلاف کارروائی بدنیتی پر مبنی نہ ہو ۔ حکومت اپنی ساکھ بہتر بنائے اور میڈیا کی آزادیوں کو بلا تاخیر بحال کرے۔ اخبارات کے اشتہارات بحال کرے اور واجبات کی بلا تاخیر ادا ئیگیاں عمل میں لائی جائیں ۔ اور میر کارواں میر صحافت میر شکیل الر حمٰن پر بنائے گئےبے بنیاد مقدمات واپس لیے جائیں ۔ آخر میں حکومت اور اداروں کو یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ادارہ جنگ اور دیگر صحافتی اداروں جنہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لیا ، پھر اس کی بنیادوں کو سجایا سنوارا دنیا کے سامنے اس کامثبت چہرہ پیش کیا ایسے اداروں کے خلاف مخاصمانہ رویوں کی کیا کوئی گنجائش ہے؟ ۔
تازہ ترین