• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقریباً اپنی ہر تقریر میں سڑکوں، پلوں اور موٹرویز کی تعمیر کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والے عمران خان ہمیشہ کہتے تھے کہ قومیں سڑکیں بنانے سے نہیں درسگاہیں اور اسپتال بنانے سے بنتی ہیں اور اب ایسے وقت میں جب پوری قوم کو کھانے کے لالے پڑے ہیں، وزیراعظم نے تعمیراتی صنعت کیلئے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کرکے سب کو ہکا بکا کردیا ہے۔

دو بڑےسوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ عمارت اُسی وقت بنے گی جب اُسے کوئی خریدنے والا ہوگا، موجودہ حالات میں تو ایسا ناممکن لگتا ہے تو کیا پھر یہ ہوگا کہ یہ سارے تعمیرات کرنے والے عمارتوں کی فروخت نہ ہونے کی وجہ سے حکومت سے پھر مدد مانگ رہے ہوں گے؟

دوسری طرف وزیراعظم نے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کرکے اُس کے عملی طور پر فعال ہونے سے پہلے ہی اُسے یہ کہہ کر متنازع بنا دیا کہ اس طرح میرے ٹائیگرز اپنے حلقوں میں سیاسی طور پر مضبوط ہوں گے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ فورس سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے بنائی جا رہی ہے اور یقیناً شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کی مخالفت نہ صرف عمران خان کے سیاسی حریف کریں گے بلکہ حلیف بھی، کیونکہ کوئی بھی اپنے حلقے میں کسی دوسری جماعت کو جگہ بنانے نہیں دے گا۔

کورونا فورس کا قیام بھی وزیراعظم کے اس نعرے کے بالکل خلاف ہے جو وہ ہمیشہ لگایا کرتے تھے کہ اس طرح کے سانحات کے مواقع پر قوم کی خدمت کی جاتی ہے، سیاست نہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وزیراعظم نے اِن بیس مہینوں میں اپنے بیانیے سے پلٹا کھایا ہے اس سے پہلے بھی وہ کئی مواقع پر ایسا کر چکے ہیں اور روایتی سیاست اُن کا خاصہ بن چکی ہے۔

عمران خان نے جب بائیس سال پہلے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تو سب سے پہلا نعرہ جو اُنہوں نے عوام کو دیا وہ روایتی سیاست کو پاکستان میں ختم کرنے کا تھا۔ عمران خان پاکستان میں موروثی سیاست کے سب سے بڑے مخالف تھے اور وہ نوجوانوں کو سیاست میں زیادہ سے زیادہ حصہ دینے کے حق میں تھے، نوجوانوں نے اُن کے اس نعرے پر لبیک کہنا شروع کردیا اور عمران خان کی سیاسی جماعت میں روایتی سیاست دانوں سے ہٹ کر نئے اور نوجوان نام آگے آگئے۔

وقت گزرتا رہا اور عمران خان سیاسی میدان میں کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام نہ دے سکے اس دوران بین الاقوامی میڈیا میں وہ پاکستان کے خراب معاشی اور سماجی حالات کا ذمہ دار روایتی سیاست دانوں اور کچھ طاقتور حلقوں کو قرار دیتے رہے۔

اسی طرح وقت گزرتا رہا اور عمران خان کی سیاست 2010میں داخل ہو گئی جہاں پاکستان کےعوام نے دیکھا کہ عمران خان کی سیاست نے ایک یوٹرن لیا اور کئی روایتی سیاست دان اُن کی پارٹی میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ مرکزی حیثیت اختیار کرگئے۔

رفتہ رفتہ شامل ہونے والوں میں پرویز خٹک، جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، علیم خان، مخدوم جاوید ہاشمی، فواد چوہدری، فردوس عاشق، شفقت محمود وغیرہ جو روایتی سیاست کے علمبردار تھے، عمران خان کے سیاسی بازو بن گئے اور عمران خان نے جب دیکھ لیا کہ اُن کے بغیر وہ اقتدار کے مسند تک نہیں پہنچ سکتے تو انہیں مصلحت سے کام لینا پڑا اور روایتی سیاستدانوں کے خلاف لگایا جانے والا نعرہ کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف جدوجہد میں بدلنا پڑا مگر آگے جاکر ہم نے دیکھا کہ سپریم کورٹ سے جب جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا گیا۔

نیب نے جب عمران خان کے قریب ترین ساتھی علیم خان کو گرفتار کیا تو عمران خان کو یہاں بھی مصلحت سے کام لینا پڑا اور کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف اُن کا نعرہ اُس وقت کمزور پڑ گیا جب اُن کی پارٹی اور حکومت کے مرکزی اجلاسوں کی جہانگیر ترین صدارت کرتے نظر آئے اور اب وہ آٹا اور چینی کے بحران کے مرکزی ذمہ دارقرار دئیے گئے ہیں۔ 

عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے تعلیم اور میرٹ کو اپنا صفِ اول کا ایجنڈا بتایا مگر یہاں بھی اُنہیں مصلحت سے کام لینا پڑ گیا جب پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ایک ایسے دوست کو دینا پڑگئی جنہوں نے خود کئی مواقع پر کہا کہ میں ابھی سیکھ رہا ہوں۔

پنجاب مرکزی صوبہ ہے اور اس کی ترقی سے پورے ملک کی ترقی وابستہ ہے مگر اس صوبے کی حکمرانی ایک ایسے روایتی سیاستدان کو دے کر جو خود ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہے، عمران خان نے خود اپنے وعدے کی نفی کردی۔

عمران خان کے مصلحت سے کام لینے کا سفر موٹرویز تک پہنچ گیا جو کہ ببانگِ دہل کہتے تھے کہ میں سڑکیں نہیں تعلیمی ادارے بناؤں گا مگر ابھی تک تعلیمی ادارہ کوئی بھی نہ بن سکا مگر عمران خان موٹر ویز کے ایسے منصوبوں کے افتتاح پر افتتاح کیے جارہے ہیں جو نواز شریف کے دور میں شروع ہوئے تھے۔

مصلحتوں سے کام لینے کی کہانی یہیں نہیں رُکتی بلکہ آگے اور بھی ہے، اسد عمر کو انتخابات سے پہلے ایک مسیحا کے طور پر پیش کرنے والے خان نے حفیظ شیخ سے تبدیل کرکے ایک ایسی مصلحت سے کام لیا جس کا ڈنکا آج تک بج رہا ہے۔ IMFکے پاس نہیں جاؤں گا نتیجہ مصلحت۔

حقیقتاً عمران خان کو اپنا بیانیہ اُلٹا پڑ گیا ہے اور یہ ایک ایسا زخم بن گیا ہے جس پر روز مرہم لگانا بھی کارگر نہیں لگتا۔ اسے نااہلی کہیں یا بدقسمتی کہ خان کے وزرا ابھی تک نہیں سمجھ پائے کہ اُن کا وزیراعظم چاہتا کیا ہے کیونکہ ہر بیانیے سے پلٹنا پڑتا ہے اور پھر بیانیے کے حق میں اپنی کشتیاں جلانے والے وزیر اور مشیر بیانیہ کے خلاف جب بولنا شروع کرتے ہیں تو عوام میں مذاق بن جاتے ہیں۔

اب تو بیچارے یہ وزیر اور مشیر بھی دُبک کر بیٹھ گئے ہیں جس کے بعد کم از کم یہ بات تو پی ٹی آئی کی حکومت کیلئے ثابت ہوگئی کہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔

تازہ ترین