• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرضوں پر انکوائری رپورٹ اہم شخصیات پر بڑی بھاری پڑیگی

اسلام آباد (زاہد گشکوری) قرضوں پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ اہم شخصیات پر بڑی بھاری پڑے گی ۔متعلقہ حکام کے مطابق رپورٹ تیار ہے اور آئندہ ہفتے وزیر اعظم دفتر میں داخل کردی جائے گی۔

انکوائری کمیشن آن ڈیٹ (آئی سی او ڈی ) میں چونکا دینے والی تفصیلات موجود ہیں ۔ کوئی دو درجن اداروں سے وابستہ 300 افراد نے 2008 سے 2018 کے درمیان لئے گئے اربوں روپے کے غیر ملکی قرضوں کا غلط استعمال کیا ۔ ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ ظاہر کر نے کی شرط پر بتا یا کہ اس جامع، اہم اور خفیہ رپورٹ کو تیار کر نے میں 9 ماہ کا عرصہ لگا ۔

جس میں کئی ترقیاتی منصوبوں میں کک بیکس ، اختیارات کے ناجائزاستعمال ، بڑے پیمانے پر خورد برد اور چوری کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ مذکورہ انکوائری کمیشن کے سربراہ نیب کے ڈپٹی چیئرمین حسین اضغر ہیں ۔

کمیشن نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ قرضوں کی مد میں پیسہ کس طرح مشکوک انداز میں سرکاری افسران ، پرائیویٹ کنٹریکٹرز ، سیاست دانوں اور پیپلز پاڑتی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار حکومت میں وزراکے نجی اکائونٹس میں منتقل ہوا؟

انکوائری کمیشن نے 23 اداروں سے وابستہ 200 اہم شخصیات کی نشاندہی کی ہے جنہوں نے 220 نجی اکائونٹس کے ذریعہ 150 منصوبوں سے 450 ارب روپے کی خطیر منتقلیاں کیں ۔ان میں سے کچھ کی وفاداریاں مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے بتائی جا تی ہیں ۔

انکوائری کمیشن کو انکوائری ایکٹ کے تحت حکومت کے حاصل کردہ 420 غیر ملکی قرضوں کا مکمل ریکارڈ حاصل ہو گیا ہے۔تمام وفاقی وزارتوں ، ڈویژنوں اور محکموں سے ریکارڈ کے حصول میں چالیس سینئر حکام نے کمیشن کی مدد کی ۔ سفارشات کو چھہ درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

میوچوئل لیگل اسسٹنس کے لئے کمیشن کو حکومتی مدد درکارر تھی تا کہ چند لوگوں کے بارے میں غیرملکی دائرہ اختیار سے معلومات حاص کی جا سکیں ۔ اے جے پی ، ایف بی آر ، ایف آئی اے ، اسٹیٹ بینک کا اسیٹ ریکوری یونٹ اور مختلف وزارتوں مسے وابستہ ایک سنیئر اافسران کے مطابق 8 اگست 2019 کے بعد قرضوں کے ذریعہ ترقیاتی منصوبوں کی جانچ پڑتال کے لئے 175 نجی و سرکاری حکام سے مدد لی گئی ۔کچھ متنازع سمجھے جا نے والے پروجیکٹس پر انکوائری کمیشن کی خاص توجہ رہی۔

جیسے بی آر ٹی پشاور پروجیکٹ جس کی لاگت 30 ارب روپے سے بڑھ کر 75 ارب روپے اور نیلم ۔ جہلم ہائیڈرو پاور پروہجیکٹ کی لاگت 84 ارب روپے سے بڑھ کر 500 ارب روپے تک جاپہنچی ۔ کمیشن نے سرکاری قرضوں اور واجبات میں اضافوں کا بھی جائزہ لیا جو 2008 میں 6690 ارب روپے سے بڑھ کر ستمبر 2018 تک 30846 ارب روپے ہو گئے۔کمیشن نے 2008 سے 2018 تک 1020 منصوبوں کی تفصیلات حاصل کیں ۔

کچھ بڑے پروجیکٹس جو کمیشن کے تحت جانچ پڑتال کی زد میں آئے ان میں منگلا ڈیم کی سطح بلند کر نے کے علاوہ رحیم یار خان ، چشتیاں ، وہاڑی ، گجرات ، شالیمار ، کے وی ٹی لائن ، دیامر بھاشا ڈیم ، گومل زام ڈیم ، پٹ فیدر کنال کی توسیع ،شادی کور ڈیم کی تعمیر اور ضلع گوادر کے ساٹھ ترقیاتی منصوبے شامل ہیں ۔

انکوائری کمیشن نے جن منصوبوں کی تفصیلات حاصل کیں ان میں پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے 25 ، لواری ٹنل سمیت مواصلات کے 85 منصوبے شامل ہیں ۔ اسی طرح پورٹس اینڈ شپنگ اور ریلوے کے 56 ، ایچ ای سی کے 285 ، صحت سے متعلق 78 ، آئی ٹی کے 203 اور دیگر محکموں اوروزارتوں کے منصوبے شامل ہیں۔ 

تازہ ترین