• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’فوربز میگزین‘‘نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس دورِ ابتلا میں دنیا کے کن کھرب پتیوں نے کورونا وائرس سے نبردآزما ہونے کیلئے کتنا سرمایہ فراہم کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق ابھی تک اس لسٹ میں 108افراد شامل ہیں۔دنیا کے امیر ترین انسان ’’ایمازون کے مالک جیف بینزون نے کورونا سے نمٹنے کیلئے مختلف شعبوں کو 100ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ میں بزنس کر رہے چین کے بڑے ریٹیلر رچرڈ لیو نے 50وینٹی لیٹر، 50لاکھ میڈیکل ماسک، برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز کیلئے 6لاکھ سرجری گلوز، میڈیکل گوگلز اور گائونز کے علاوہ بیشمار میڈیکل آلات فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ کے فٹ بال کلب ’’چیلسی‘‘ کے مالک رومن ایبراوچ نے لندن کے ایک بڑے اسپتال کے عملے کیلئے آفر کی ہے کہ وہ اسپتال کے قریب واقع ہوٹل میں جب تک چاہیں قیام کر سکتے ہیں، ان کا تمام خرچ وہ برداشت کریں گے۔ امریکہ کی ’’پرشنگ اسکوائر مینجمنٹ کمپنی‘‘ کے مالک بل ایکمین نے 2.5ارب ڈالر کورونا سے بچائو کیلئے اینٹی بایوٹک کٹس کی تیاری کیلئے مختص کیے ہیں۔ تیل اور گیس کا بزنس کرنے والے مکیش امبانی نے کورونا سے نمٹنے کیلئے ممبئی میں 100بستروں کا اسپتال قائم کرنے کا آغاز کر دیا ہے، امبانی نے بھارتی وزیراعظم کے کورونا فنڈ میں 500کروڑ روپے، مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ فنڈ اور گجرات کے وزیراعلیٰ فنڈ میں پانچ پانچ کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ بھارتی کھرب پتی گوتم ایڈانی نے ایک لاکھ 20ہزار ماسک اور 100کروڑ روپے وزیراعظم فنڈ میں دینے کا اعلان کیا۔ کھرب پتی بھارتی تاجر انیل اگروال نے بھی 13ملین ڈالر کورونا کے خاتمہ کیلئے مختص کیے ہیں۔ اٹلی کی سب سے بڑی فارما سوٹیکل کمپنی کی مالک میسمیلیانہ نے بھی فلورنس میں اپنی ایک پوری فیکٹری کورونا سے بچائو کی ویکسین اور پروٹیکشن جیل بنانے کیلئے مختص کر دی ہے۔ ورجن انلانٹک کے مالک رچرڈ برانسن نے اپنے 70ہزار ملازمین کی سپورٹ کیلئے 250ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ مائیکل بلومبرگ نے 115ملین ڈالر ’’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ اور ’’گلوبل ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ کیلئے فراہم کیے ہیں۔ افریقہ کے امیر ترین شخص آلیکوڈینگوٹ نے 5.5ملین نائیجیریا میں کورونا کے خاتمہ کیلئے دیے ہیں اور دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے 100ملین ڈالر دنیا بھر میں کورونا کے ٹریٹمنٹ اور ویکسین کی تیاری کیلئے دیے۔دفاعی پالیسی اور کائونٹر ٹیرر ازم پر کام کرنے والے ایک برطانوی تھنک ٹینک ’’دی ہینری جیکسن سوسائٹی‘‘ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ جی سیون ممالک وائرس سے ہونے والا نقصان چین سے وصول کریں کیونکہ اس کی غفلت کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ چین نے اقوام عالم کو بروقت اطلاع نہیں کی اور نہ ہی ’’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ کو الرٹ کیا چنانچہ ’’ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن‘‘ اور ’’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ کے رولز کے تحت چین پر ’’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس‘‘ میں ہرجانے کے مقدمات قائم کئے جائیں۔ دوسری طرف چین نے امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ اس نے اپنی فوج کے ذریعہ ووہان میں یہ وائرس جان بوجھ کر پھیلایا، دنیا ہنوز شفافیت سے یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ کورونا قدرتی وبا ہے یا کوئی انسانی سازش۔

اب ذرا اپنے معاملات پر نظر کریں تو پاکستان کے حکمران پہلے تو اس بات پر ہی صوبائی حکومتوں کے ساتھ الجھتے رہے کہ لاک ڈائون ضروری ہے یا نہیں، وزیراعظم دنیا سے قرض کی درخواست اور پہلے سے لیے گئے قرض کی معافی کا مطالبہ کرتے رہے 25ٹریلین روپے وائرس سے نمٹنے کیلئے رکھے تو ضرور لیکن نہ تو کوئی جامع منصوبہ بندی دکھائی دی اور نہ ہی مرکز و صوبوں کے درمیان کوئی ہم آہنگی۔ وزیراعظم علانیہ سیاسی مقاصد کیلئے ٹائیگر فورس جیسے بے معنی اعلانات کرتے رہے۔ ملک کے 10امیر ترین افراد کی طرف سے براہ راست عوام الناس کیلئے نہ تو کوئی منصوبہ سامنے آیا نہ دنیا کے دیگر کھرب پتیوں کی طرح بڑی بڑی رقوم کے اعلانات۔ ہمارے کسی سرمایہ کار، صنعت کار کو توفیق ہی نہیں ہوئی کہ اس مشکل ترین وقت میں کوئی انسانی ہمدردی کیلئے اپنے اکائونٹس سے چند ’’قطرے‘‘ نکال کر اپنی آخرت سنوار لے، ہمارا مراعات یافتہ طبقہ، بڑے بڑے نوابین، وڈیرے، جاگیردار، سیٹھ اور وہ تمام کے تمام ’’رانگ نمبر‘‘ اس دور کورونا میں کدھر غائب ہیں؟ ہمارے ملک کے جن ’’رانگ نمبروں‘‘ نے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ فنڈز میں دینے کیلئے اپنی جیبیں ڈھیلی کی بھی ہیں تو وہ کسی مفاد اور سیاسی فائدے یا حکمرانوں کی خوشنودی کیلئے! 50مسلمان ممالک کے 500اثر انداز ہونے والے امیر ترین افراد میں سے بھی کسی ایک کا نام ’’فوربز میگزین‘‘ کے 108افراد میں شامل نہ ہونا بھی ایک لمحہ فکریہ اور شرمناک بات ہے، کیا یہ سبھی ہمارے ’’رانگ نمبر‘‘ نہیں ہیں۔

آج جب جدید دنیا کووڈ 19نامی کورونا وائرس کے خاتمہ کیلئے ویکسین کی تیاری میں مصروف ہے، برطانیہ، یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں بڑے بڑے اسٹورز پر اشیا کی قیمتیں یا تو کورونا آنے سے پہلے جیسی ہیں یا ان میں نمایاں کمی کر دی گئی ہے لیکن یہاں بھی ہمارا گھنائونا کردار کھل کر سامنے آیا ہے۔ ہمارے ان ’’رانگ نمبروں‘‘ نے ضروری اور روزمرہ کی اشیا کی ذخیرہ اندوزی کی جیسا ہر رمضان میں ہوتا ہے اور پھر انہیں مہنگے داموں فروخت کیا۔ مثال کے طور پر چین یا دیگر ملکوں نے جہازوں کے جہاز بھر کر امداد پاکستان کو بھجوائی اور ہم نے اس مفت سامان کو بھی مالِ مفت دل بے رحم سمجھ کر بندر بانٹ کی۔ پاکستان ہو یا بیرونِ پاکستان‘ ہمارے لوگوں نے ایک ایک چیز پر 500گنا تک منافع کمایا، زندگی بچانے والی عام دوا سے لے کر دیگر ادویہ تک پر ڈھیروں منافع کما کر رمضان کو خوش آمدید کہنے کی تیاری بھی کی، تہجد گزاری بھی کی بلکہ چیزیں بلیک کرکے مہنگی بیچنے کو تجارت کا گُر بتا کر اپنے ضمیر کو تسلی بھی دی اور اپنے اللہ کو راضی رکھنے کیلئے اپنی اپنی چھتوں پر چڑھ کر رو رو کر اذانیں بھی دیں اور اپنے بچوں کو حق حلال کھانے و کمانے کی تلقین بھی کی! تو کیا یہ سبھی لوگ ہمارے ’’رانگ نمبر‘‘ نہیں ہیں۔

تازہ ترین