یہ امریکا کے سابق صدر براک اوباما کے عہدہ صدارت کے آخری ایّام کی بات ہے۔اس وقت جین ایڈیٹنگ کی تیکنیک تازہ تازہ دریافت ہوئی تھی۔ان دنوں تحقیق کار اس حوالے سے بہت پراُمید تھے کہ اس کی مدد سے بہت سے موروثی امراض کے ساتھ مہلک امراض کا علاج ممکن ہوجائے گا۔اگرچہ آج بھی اس تیکنیک پر ماہرین تجربات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔تاہم اس کے بارے میں پہلے ہی روزسے سیکیورٹی کے ماہرین کی جانب سے تحفظات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ تیکنیک دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئی تو وہ حیاتیاتی ہتھیار بنانے کے قابل ہو جائیں گے اور دنیا کے امن کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
اس حوالے سے اوباما کے سائنسی امور کے مشیر پائرس ملیٹ (Piers Millet)نے اوباما انتظامیہ کو انتباہ جاری کیاتھاکہ اس ٹیکنالوجی کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کے امکانات موجود ہیں اور اس حوالے سے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مسلسل بریفنگ دی جائے، تاکہ وہ جین ایڈیٹنگ کی تیکنیک CRISPR، جین تھراپی اور سنتھیٹک ڈی این اے کی تیاری اور اس کے مضمرات سے آگاہ ہو سکیں اور انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ اگر یہ ٹیکنالوجی دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئی تو کس طرح کے نقصانات کا اندیشہ ہے۔
صدارتی مشیروں کی کونسل برائے سائنس و ٹیکنالوجی (PCAST) کے رکن اور واشنگٹن کے ولسن سینٹر کے بایو ٹیرر کے ماہر پائرس ملیٹ (Piers Millet) نے اس وقت صدر اوباما کو اس حوالے سے ایک مراسلہ بھی بھیجا تھا،جس میں کہا گیاتھاکہ اس ضمن میں ایک نئی بایو ڈیفنس حکمت عملی آئندہ چھ ماہ میں تشکیل دی جائے۔ مراسلے میں کہا گیاتھاکہ اس حوالے سے 2009ء میں ایک حکمت عملی ترتیب دی گئی تھی، تاہم متعلقہ محکموں کے عدم تعاون کے سبب اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ مراسلے میں کونسل کے دیگر ارکان کی جانب سے بھی کانگریس سے مطالبہ کیا گیاتھا کہ وہ پبلک ہیلتھ ایمرجنسیز کے لیے دو بلین ڈالرز کی لاگت سے ایک فنڈ بھی قائم کرے، تاکہ نئی آنے والی بایو ٹیکنالوجیز پر موثر انداز میں ردعمل ظاہر کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ تین دہائیوں سے امریکی حکومت بایو ڈیفنس پر کافی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے انتھراکس، ایبولا اورا سمال پاکس کو محکمہ صحت اور محکمہ زراعت شہریوں کے لیے خطرہ قرار دیا جاچکا ہے۔امریکی حکومت Pathogens (مرض پھیلانے والے جرثومے) کے ضمن میں محققین کو بھرپور سہولتیں فراہم کر رہی ہے اور اس حوالے سے تجربات جاری ہیں۔
اس وقت ایسی خبریں بھی آئی تھیں کہ امریکا میں محققین اس پہلوسے بھی تجربات جاری رکھے ہوئے ہیں کہ کس طرح انفلوائنزاکا وائرس مزید خطرناک بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس وقت PCAST کے ارکان کا کہنا تھا کہ بایو ٹیکنالوجیز کے میدان میں ہونے والی تیز رفتار ترقی نے ماضی میں اپنائی جانے والی طرزِ فکر کو غیر فعال کر دیا ہے اور اب ان خطرات سے نمٹنے کے لیے نئی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ کونسل کے ارکان کا کہنا تھا کہ سنتھیٹک ڈی این اے، جین تھراپی اور جین ایڈیٹنگ کی تیکنیک کے فروغ نے ایسے مواقع پیدا کر دیے ہیں جن سے ان تیکنیکوں کے غلط استعمال کی راہ ہم وار ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر ان کی مدد سے کسی وائرس یا بیکٹیریاکی جینیاتی ہیت تبدیل کر کے اسے کسی بیماری کے علاج کے خلاف مدافعت بڑھانے یعنی بیماری کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح سنتھیٹک ڈی این اے لیباریٹری میں تیار کیا جا سکتا ہے اور جین تھراپی کی مدد سے زندہ خلیوں میں موجود ڈی این اے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ تمام طریقے ہیں جن کی مدد سے دہشت گرد بایوہتھیار بنا سکتے ہیں اور انہیں موثر انداز میں استعمال کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے نارتھ کیرولینایونیورسٹی کے شعبہ جنیٹک انجینئرنگ کے سینئر محقق کار ٹوڈ کیوکن (Todd Kuiken) کا کہناتھا کہ اگرآپ سیکوئنس (Sequence) ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں تو آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ اس حوالے سے ہونے والے تجربات پر سخت نظر رکھی جائے۔ اپنے خط میں کونسل کے ارکان نے نئی اینٹی بایوٹک اور اینٹی وائرل ادویات کی تیاری کے لیے 250 ملین ڈالرز سالانہ کی گرانٹ جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
گیارہ برس پرانا یہ ماجرا یہاں بیان کرنے کا مقصد کرونا وائرس سے دنیا بھر میں پیدا ہونے والے بحران کے تناظر میں یہ سمجھنے کی کوشش ہے کہ سائنسی ترقی کی دوڑ میں انسان کن خطرات سے کھیل رہاہے۔
اب پانچ برس پیچھے چلتے ہیں۔دسمبر 2015ء میں منعقد ہونے والے انسانی جین کی ایڈیٹنگ کے پہلے بین الاقوامی اجلاس کے بعد ایک بیان جاری کیا گیاتھا،جس میں اجلاس کے منتظمین نے متفقہ طور پر کہا تھا کہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ بچوں کی پیدائش کے سوفی صد محفوظ ہونے کی یقین دہانی حاصل ہونے تک اس عمل کو غیرذمے دارانہ ہی تصور کیا جائے گا۔تاہم اس اعلان سے کچھ خاص فائدہ نہیں ہواتھا۔اس سے ایک برس قبل چین کے سائنس دان ہی جیان کوئی دو جینیاتی طور پر ترمیم شدہ بچے پیدا کرنے میں کام یاب ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ کئی گروہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے انسانوں کو بہتر بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
اس پیش رفت کے بعد جین میں ترمیم کرنے پر مہارت رکھنے والے چند ماہرین نے (جن میں سے بعض نے 2015ء کے بیان پردست خط کیے تھے) تمام انسانی جرم لائن ترمیم، یعنی اسپرم یا انڈوں کے خلیات کی قابلِ وراثت ترمیم پر پابندی عاید کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔سائنسی تحقیق سے متعلق جریدے نیچر میں شایع ہونے والے ایک خط میں سات مختلف ممالک سے تعلق رکھنے اورکرسپر ٹیکنالوجی کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے ماہرین نے(جن میں ایمانوئیل چارپینٹیر، ایرک لینڈر اور فینگ زہینگ اور ان کے رفقاء شامل ہیں) ایک بین الاقوامی معاہدہ طے ہونے تک انسانی جرم لائن میں ترمیم کرنے پر ممانعت کا مطالبہ کیاتھا۔ ان کے مطابق پانچ سال کی میعاد مناسب ہے، اور امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ نے بھی اس مطالبے کی تائید کی تھی۔
ان سائنس دانوں نے اس وقت اس امید کا اظہار کیا تھاکہ ایک رضاکارانہ عالمی پابندی سے ہی جیان جیسے سائنس دان کے کسی قسم کے غیرمتوقع اور غیرمطلوبہ اقدام کی روک تھام ممکن ہوگی۔اس گروپ کا کہناتھاکہ عارضی پابندی عاید کرنے سے انہیں اس تیکنیک کے تیکنیکی، سائنسی، طبی، سماجی اور اخلاقی مسائل پر غور کرنے کا وقت مل جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ جرم لائن میں ترمیم کی اجازت دینے کا فیصلہ کرنے والے ممالک کو سب سے پہلے عوام کو اس بارے میں مطلع کرنا،بین الاقوامی مشاورت سے فائدہ اٹھانااور اپنے ملک میں وسیع پیمانے پر اتفاق رائے حاصل کرنا چاہیے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ پوری دنیا اس نتیجے پر پہنچے کہ جرم لائن میں ترمیم سے گریز کرنا چاہیے۔
اس خط پر دست خط کرنے والوں کے مطابق جرم لائن پر تحقیق کی صرف اسی صورت میں اجازت دینی چاہیے جب جنینی بچے اور جیتے جاگتے بچے پیدا کرنے کا ارادہ نہ ہو۔اس کے علاوہ کرسپر کی مدد سے افزائش نسل میں کردار ادا نہ کرنے والے سومیٹک سیلز (جن میں تبدیلیاں قابلِ وراثت نہیں ہوں گی) میں بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہونی چاہیے،بہ شرط یہ کہ شرکت کرنے والے بالغ افراد نے باخبر رضامندی کا اظہار کیا ہو۔ اس وقت کسی بھی صورت میں جینیاتی برتری کی اجازت نہیں دینی چاہیے، اور اس وقت تک کوئی بھی کلینیکل ایپلیکیشن چلانی نہیں چاہیے جب تک انفرادی اور مجموعی طور پر طویل المیعاد نتائج واضح نہ ہوں۔
اب پھر کرونا وائرس کے قضیے کی جانب آتے ہیں۔ماہرین کے مطابق اس وقت ہمیں معلوم نہیںہے کہ ہمارے بیش تر جینز کیا کرتے ہیں، لہٰذا غیرمطلوبہ نتائج کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔اس وقت ماہرین نے مثال کے طور پربتایا تھا کہ چین کے سائنس دان، ہی، بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جس سی سی آر 5 جین کے نقصان پر کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں، وہ چند وائرل انفیکشنز میں مزید پے چیدگیوں اورا موات کا باعث بن چکی ہے۔ممکن ہے کہ کسی جینوم میں تبدیلی سے آنے والی نسلیں بھی غیرمتوقع طریقوں سے متاثر ہوسکتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری موجودہ معلومات کی بنیاد پر تمام انسانیت کو تبدیل کرنے کی کوشش بہت بڑی بے وقوفی ہوگی۔
اس وقت کہا گیا تھا کہ تجویز کردہ عارضی پابندی اور عالمی فریم ورک پر صرف رضاکارانہ طور پر عمل درآمدکیا جائے گا۔ اس کا مطلب تھا کہ اس پابندی سے غلط ارادے رکھنے والے سائنس دانوں کی روک تھام ممکن نہیں ہوگی۔ اس وقت ماہرین کا کہنا تھا کہ مکمل طور پر پابندی عاید کرنا ایک بہت سخت فیصلہ ہوگا اور انہیں اُمید ہے کہ ان کی تجویز سے انسانی نسل کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کے ارادوں میں کم از کم رکاوٹ ضرور پیدا ہوگی۔
پانچ برس پہلے کی اطلاعات کے مطابق چینی سائنس دان ، ہی کے تجربوں کے بعد چین کی وزارت صحت بھی جینیاتی ترمیم کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کررہی تھی۔پھر یہ خبر بھی آئی تھی کہ چین میں نئے قوانین کے تحت چینی سائنس دانوں کو جرم لائن میں ترمیم جیسے خطرناک اقدام اٹھانے کی کوشش کرنے سے پہلے حکام سے اجازت حاصل کرنی ہوگی۔
یہ 30 دسمبر 2019کی بات ہے۔ جین ایڈیٹنگ سے چھیڑ چھاڑ کرنے والے چینی سائنس دان کو عدالت نے تین سال قید کی سزا سنادی تھی اوراس کے تمام عمر کام کرنے پر پابندی عاید کردی گئی تھی۔ چین کی سدرن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر جیان کیوئی نے نومبر 2018 میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے جڑواں بچیوں کی پیدائش سے قبل ہی جینیاتی ایڈیٹنگ کی اور انہیں ایچ آئی وی کی بیماری سے محفوظ بنادیا ہے۔جیان کیوئی کے اس اقدام کو دنیا بھر کے ماہرین نے انتہائی خوف ناک قرار دیا اور تحقیق کے حوالے سے اپنے شدید خدشات کا اظہار کیا تھا۔
پروفیسر جیان نے بتایا تھا کہ تجربے کے دوران وہ سپر تیکنیک استعمال کی گئی جو انسانی جینز کی ایڈیٹنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور سائنس دانوں کو توقع تھی کہ اس کی مدد سے مستقبل میں انسانی زندگی کو بہتر بنانے اور موروثی بیماریوں کو روکنا ممکن ہوسکے گا۔جیان کی اپنی یونیورسٹی نے ان کی تحقیق کو مسترد کردیا تھا اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تحقیق کرنے والے ماہر کو سخت سزا دیں۔اس سے قبل جیان کیوئی پر تیس لاکھ ملین یوآن (4 لاکھ 30 ہزار ڈالرز) جرمانہ عائد کیا گیا تھاجو انہوں نے ادا کیا۔اْن کے ساتھ شامل دو ماہرین کوبھی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔عدالتی فیصلے میں کہا گیاتھا کہ جیان اور اُن کی ٹیم کے تجربے کے بعد دنیا بھر سے شدید ردعمل سامنے آیا، جس کے بعد تمام افراد روپوش ہوگئے تھے۔ جین ایڈیٹنگ سے چھیڑ چھاڑ کی صورت میں ایڈز جیسا موذی مرض تیزی سے پھیل سکتا ہے۔
اچھے پہلو
امریکا سمیت کئی ممالک میں ایک بالکل نئی جین ایڈیٹنگ تیکنیک استعمال کی جارہی ہے، جس سے لوگوں کی جان بچانا ممکن ہوگا۔ 2015 میں لیلا نامی ایک بچی کو امنیاتی خلیات کی جین ایڈیٹنگ تیکنیک سے گزارا گیاتھا۔ یہ بچی لیوکیمیاکے مرض سے صحت یاب ہوچکی ہے جواس کی جان لے سکتا تھا۔ اس کام یابی کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں جین ایڈیٹنگ پر کام ہورہا ہے۔یہ طریقہ علاج بہت صبر طلب اور پے چیدہ ہوتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ جین ایڈیٹنگ کے آلات اور مروجہ طریقے وضح کرنے میں کئی برس لگے ہیں۔ ان میں سی آرآئی ایس پی آر ( کلسٹرڈ ریگولرلی انٹراسپیسڈ شورٹ پیلنڈرومک رپیٹس) سب سے ذیادہ قابلِ اعتماد ہے۔ اس عمل کے ذریعے کسی مرض کی وجہ بننے والا جین تبدیل یابے عمل کیا جاتا ہے۔DNA Editچین میں سائنس دان پی ڈی ون جین کو’’خاموش‘‘ کرکے سرطان کا علاج کرنے میں مصروف ہیں۔ پہلے مرحلے میں خلیات لے کر ان میں متعلقہ جین بند کیا جاتا ہے اور تبدیل شدہ خلیات کو دوبارہ ایک انجیکشن کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ اس طرح سرطان زدہ خلیات کوپھلنے پھولنے کاموقع نہیں ملتا۔
اسی طرح کا ایک طریقہ علاج امریکا میں آزمائشی مراحل میں ہے۔ اس میں بھی پی ڈی ون اور دو دیگر جین کو بے عمل کیا جائے گا۔ اسی کے علاوہ لیوکیمیا کی طرح بعض اقسام کی سرطانی رسولیوں کے علاج میں بھی بہت مدد ملی ہے۔ لیکن ٹھوس رسولیوں کے لیے یہ عمل کارآمد نہیں ہے۔ ماہرین اس کے لیے دو اہم طریقے ملاکر استعمال کررہے ہیں۔ اگر اس میں خاطر خواہ کام یابی ہوتی ہے توکچھ عرصے تک یہ دیکھنا ہوگا کہ جینوم کی تبدیلی کا عمل سو فی صد محفوظ ہے یا نہیں۔ کام یابی کی صورت میں اسے آنکھوں کے امراض کے ساتھ بہت سی بیماریوں کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔