اسلام آباد (تجزیاتی جائزہ:فاروق اقدس) مولانا فضل الرحمان 27ویں آئینی ترمیم کی حمایت کو خیرباد کہہ کر دو ووٹوں کے ساتھ بنگلہ دیش چلے گئے، وطن واپسی تک صورتحال معمول پر آ چکی ہو گی، آئندہ کی سیاسی سمت ترمیم کی منظوری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر ہم خیالوں سے مشاورت کے بعد وضع کرینگے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے ہیرو کی خدمات فہم و فراست کی تعریفیں کرنے والوں نے 27ویں ترمیم کے موقع پر سیاسی بے دردی کے ساتھ نظر انداز کیوں کیا۔ صدر‘ وزیراعظم اور کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور مرکزی رہنما جو دن میں ایک سے زیادہ مرتبہ مولانا سے شرف ملاقات کرنے آتے تھے وہ کہاں گئے؟ ہاتھوں میں گلدستے اٹھائے چھوٹے چھوٹے قدموں سے دن کے اُجالے اور رات کی تاریکی کے پیغامبر مولانا کے ذکر سے بھی کیوں گریزاں ہیں؟ گھر کے لان میں تمام سیاسی اور دینی مکاتب فکر کے زعماء انکی اقتداء میں نماز ادا کرنے والے کیا ہوئے؟ 26ویں آئینی ترمیم کا اولین حکومتی مقصد آئینی معاملات کو سیاسی عمومی معاملات سے جدا رکھنا‘ چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار کی تبدیلی‘ آئینی بنچ کی تشکیل اور جوڈیشل کمیشن کا قیام شامل تھا۔ جبکہ 27ویں آئینی ترمیم کا مقصد بادی النظر میں 243منظور کرانا ہے۔ یہ ہیں وہ سوالات اور استفسارات جو 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے موقع پر عوام اور سیاسی کارکنوں کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان براستہ دوبئی کراچی سے بنگلہ دیش پہنچ گئے ہیں۔ روانگی سے قبل اپنے دو روزہ قیام کے دوران انہوں نے بلاول ہاؤس کراچی میں صدر آصف زرداری جو مبینہ طور پر نجی مصروفیات کے حوالے سے کراچی میں قیام پذیر تھے اور بلاول بھٹو سے ملاقاتیں کیں جن کی کوئی تصویر یا تفصیل نہ تو جاری کی گئی اور نہ ہی منظر عام پر آ سکی۔ مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ سنیٹر مولانا عبدالغفور حیدری بھی ہیں۔