• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِن دنوں مملکت ِ خدا داد کی حالت یک انار صد بیمار کی تصویر پیش کررہی ہے، وسائل کی فراوانی ہو تو ہر مستحق تک پہنچا بھی جا سکتا ہے، مدد بھی ممکن ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری بھی ہے مگر اس کے لئے اولین شرط نیت ہے کہ جس کا فقدان وسائل ہوں یا نہ ہوں، سب پر بھاری ہے۔ اس تاب و تب کی بات ہی کیا، عام حالات میں بھی حکومت بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہے اور آج کل بھی اس کا رویہ ویسا ہی ہے۔ خیر یہ تو روٹین کی بات ہوئی اور ہم لوگ اس کے کسی قدر عادی بھی ہو چکے ہیں لیکن عوام شناسی کے خود ساختہ دانشور آج بھی اپنے دلفریب نعرے، دلکش انداز ، اور دلربا جلوؤں کے ساتھ میدانِ کارزار میں اُترے ہوئے ہیں۔ وہی سبز باغ دکھا کر یوٹرن اس سوکھے سوکھے بےمزہ موسم میں بھی غم غلط کرنے کی خاطر ٹھہرے ہوئے پانی کی سطح پر نمودار ہونے والی سبز کائی کو صحن ِ گلستاں تعبیر کر رہے ہیں۔ اس خانماں بربادی کے دور میں تبدیلیٔ آب و ہوا کی خاطر بھی کہیں کا سفر ممکن نہیں کیونکہ یک آواز گیت سے ایک ہی سُر نکل رہا ہے اور وہ ہے ’’کورونا، کورونا‘‘ سو اشراف و امرا ہوں یا مجھ جیسا حقیر، سب اعوذبالله پڑھ کر خدا کی پناہ چاہتے ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں بسے ابنِ آدم کی خیر مانگتے ہیں۔ اللہ جانے کب آبِ حیات تک پہنچنے والے پہنچیں گے ابھی تو دور دور تک ایسی کسی ویکسین کی خبر ندارد۔ سو راقم الحروف بھی کسرِ ذہانت کا مظاہرہ اس کالم کے توسط سے کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ یوں کہ حفظانِ صحت کے رہنما اصول بتانے کے بجائے برمحل اور برموقع ایسی خوشخبریاں آپ سے شیئر کروں کہ جن کو بےسوچے سمجھے بولنے والوں نے اب تک بولا نہ ہو اور لکھنے والوں نے لکھا نہ ہو، ذرا ملاحظہ فرمائیے۔

اسی موسم میں رمضان کی آمد آمد ہے بس جو الٰہی فرض کی ادائیگی میں استقلال، صبر اور مستقل مزاجی سے اپنے پیارے رب سے رشتہ استوار کرنا چاہے، کر سکتا ہے۔ اعتکاف کے لیے وقت بھی میسر ہے اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے یعنی سیلف آئیسولیشن۔ دوم، نیک شگون کے طور پر آج کل وائی فائی کی اسپیڈ کو لیا جا سکتا ہے، سوشل ڈسٹینسنگ پر پیاری قوم عمل پیرا ہو یا نہ ہو مگر موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ سے اللہ ان کو ڈسٹینس کر دے آمین! جس طرح مجرم پیشہ لوگوں کی مخصوص بولی ہوتی ہے بالکل اسی طرح وبائی امراض کے دوران بھی کچھ مخصوص انداز و اطوار سے سامنا ہے جو کسی زمانے میں مجرموں کے ہی زیر استعمال رہتے تھے، جیسے دستانے اور ماسک، اگر یہی کسی نازک اندام سے متعلق ہوں تو ’’قطار بند‘‘ جھنڈوں کے جھنڈ سلامی دیتے نظر آتے مگر آج کل تو یہ ایک ثانوی سی بات بن چکی بلکہ دکھائی دیتی ہے، سو قارئین کو اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ بھی اگر چاہیں تو اپنے ذہن ِ رسا سے مرتب ایسی تجاویز ارسال کر سکتے ہیں اور ارسال کرنے کی بہترین جگہ سوشل میڈیا ہوگا، اگر وائی فائی چل رہا ہو تو۔۔۔ جس میں خلق ِ خدا کے لئے مزید خوشخبریاں یا دلچسپیاں ہوں اور پاکستانی اقدار کی پاسداری ہو سکے کیونکہ ہم بہت سے معاملات میں یا تقریباً سبھی معاملات میں اقوامِ عالم سے قدرے منفرد واقع ہوئے ہیں۔ سو اس انفرادیت کی اُمید ہے اور کر بھی یہی رہے ہیں کہ خاص وبائی دور میں بھی رابطہ ضرور برقرار رکھا جانا چاہئے اور حکومتی اوامر و فرامین کو محض رضاکارانہ طور پر ہرگز نہیں ماننا چاہئے اور سچ یہ ہے کہ حکومت، حزبِ اختلاف اور ماہرینِ صحت کے مشوروں کے باوجود تسلیم کر بھی نہیں رہے ہیں۔ اپنی تیاریٔ شان کے بھی کچھ تقاضے اور پیمانے ہیں، بخار کے بعد ہونٹ کی پھنسی کا علاج پہاڑی نمک سے ہی کرنا ہے چاہے یہ فارمولا دنیا کی کسی سائنسی لیبارٹری سے تصدیق شدہ نہ ہو۔ رہی آخری بات تو شگون کے طور پر قیافہ شناسوں سے سنا ہے کہ اس موسم میں کوئی شوخی مارنے، اختلاف کرنے یا انصرام و اہتمام سے مکمل پرہیز کریں وگرنہ صرف دھمکی پر گزارا نہیں کیا جائے گا، جن کے پاس طاقت ہے وہ اب بھی اپنی طاقت دکھا دیں گے۔ سو سیاسی کارکنوں اور اخبار نویسوں سے درخواست ہے کہ کسی قسم کی رپورٹ شائع کرنے یا نیا بیان دینے سے کہیں بہتر ہے بلاچون و چرا حکومتی اقدامات کا بےانتہا شکریہ ادا کرتے نظر آئیں، چاہے اقدامات ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہوں یا نہ نظر آ رہے ہوں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین