• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پودوں،درختوں،جنگلوں کی رومانی اورروح پرور کائنات

درخت سے آدمی کا پہلا براہِ راست واسطہ عموماً کتاب کے اوراق کی وجہ سے پڑتا ہے۔ کتاب کا کاغذ درختوں ہی سے بنتا ہے۔ لاطینی زبان سے پہلے قدیم زبان کےحروف ٹہنیوں کی شکل کے ہوتے تھے۔ ہر حرف کسی درخت سے مخصوص ہوتا تھا، بھلے وہ برچ کا درخت ہو یا صنوبر کا۔ برچ کو آغاز کی علامت کےطور پرلیا جاتا ہے۔ آگ بھڑکانی ہوتو اسی درخت کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔ حروف ِ تہجّی کے آخر میں یُو درخت یعنی سدابہار درخت آتا ہے، جو موت کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسے قبرستانوں میں لگایا جاتا ہے۔ دنیا میں چینی زبان میں سب سے زیادہ شاعری درختوں سے متعلق ہے۔ درختوں کا تحمّل، برداشت اور صبر چینی شاعروں کوبہت متاثر کرتا تھا۔ درخت، انسان سے زیادہ عُمر پاتےہیں اور انھیں زمین وآسمان کے بیچ رابطے کا ذریعہ سمجھا جاتاتھا۔ بےشمار ادیبوں نے درختوں کو اپنی تخلیقات میں خُوب استعمال کیا۔ 

شیکسپیر نے اپنے ڈرامے، اوتھیلو میں بید کےدرخت کا تذکرہ کیا ہے۔ جدید ادب میں ہرمن ہیسے سے لےکر ولیم ورڈز ورتھ تک کی تخلیقات سے جنگلوں اور باغوں کی خوشبو آتی ہے۔ ای ایم فورسٹر کے'''The wych elm'' کا سایہ دار درخت ہو، جیمز جوائس کے افسانے’’دی ڈیڈ‘‘ کے مرکزی کردار کا سرد رات کو درخت کے نیچے کرب انگیز انتظار ہو، پال نیش کے بچپن کا شفتالو کادرخت ہو،دانتے کی عظیم تخلیق ''Inferno'' (جہنم) کے گھنے جنگل ہوں، بِیٹی اسمتھ کے ناول ’’ایک درخت بروکلین میں اُگتا ہے‘‘ کا امریکی ادب کا سب سے معروف درخت ہو، جو فرانسیسی نولن نامی لڑکی کی کھڑکی کےباہر اُگتا ہے اوراس لڑکی اوراس کےخاندان کی، جو بہت مشکل سے جینے کا انتظام کرتا ہے، متوازی علامت کےطور پر بغیر پانی، روشنی اور دیکھ بھال کےپھلتا پھولتا رہتا ہے، لوئس کیرل کے ناول Through the looking glass میں درج نظم کی نامعلوم جنس کا ٹم ٹم درخت ہو، شیل سلوراسٹین کی بچّوں کی کہانی The Giving Tree(عنایت کرنے والا درخت) کا معروف اور لازوال سیب کا درخت ہو، جس کےنیچے مرکزی کردار بچّہ کھیلتا، اُس کی شاخوں پرجھولتا ہے، تنے پر چڑھتا، ذرا بڑا ہوکر اس کے سیب بیچتا اور جوان ہوکر اس کی شاخیں اور ڈالیاں معاوضے کے حصول کے لیے بیچ تو ڈالتا ہے، مگر اپنے بچپن اور ایک بہترین دوست سے محروم ہوجاتا ہے یا ہندی کے عظیم ادیب نِرمل ورما کی تحریروں میں درختوں اور مناظر قدرت کا تذکرہ ہو، تحریروں میں انسان کے یہ ازلی ساتھی بار بار آہی جاتے ہیں۔ اردو ادب میں درخت کے لیے ترور، درشک، بروا، شجر، نہال، پیڑ، روکھ، جھاڑ، برچھ اور دیگر کئی تراکیب مستعمل تھیں جو بدقسمتی سے سمٹتے سمٹتے درخت، پیڑ، شجر اور روکھ تک محدود ہوگئی ہیں۔ بزرگ ادیبوں کی وہ نسل، جن کے قلم سے ٹپکی روشنائی سے شجر پھوٹ پڑتے تھے، معدوم ہوا چاہتی ہے۔ 

اے حمید کا امرت سر کا کمپنی باغ، انتظار حسین کا لارنس گارڈن اور لاہور کے درخت یا مستنصر حسین تارڑ کے شمالی جنگلات کی فسوں سازی ہو، درختوں کے بیچ پَل کر جوان ہونے والی نسل سمندر میں اُترا چاہتی ہے۔ اس کی جگہ کنکریٹ کی عمارتوں، تارکول کی سڑکوں اور بند کمروں میں جوان ہونے والےادیبوں کی نسل لےرہی ہے۔ سو ایسا ہونا اچنبھے کی بھی بات نہیں، البتہ روح کو گھائل کرتے غم کی ضرور ہے کہ اپنےدرخت اجنبی ہوئے جاتے ہیں۔ انتظار حسین اپنے 21مارچ1964 کے کالم بعنوان ’’درخت کی شہادت‘‘ میں کبیر کا شعر لکھتے ہیں۔ ؎

بڑھئی آوت دیکھ کر ترور ڈالن لاگ

ہم کٹے تو اب کٹے، پکھیرو توُ بھاگ

اور اطالوی افسانہ نگار البرٹو موراویا کو یاد کرتے ہیں۔ روم میں ایک درخت کو ٹریفک کی روانی کے لیے کاٹ دیا گیا تو البرٹو موراویا نے عدالت میں کارپوریشن کےخلاف اس بنیاد پرمقدمہ دائر کردیا کہ ’’اس نے میرے زندہ ہم عصر کو شہید کردیا ہے۔‘‘ انھوں نے اپنے 10اپریل 1964کے کالم ’’آدمی، درخت اورجڑیں‘‘ میں مدراس کے کرنل جانسن کا واقعہ بیان کیا ہے۔

کرنل جانسن بھی ہمارے ناصر کاظمی کی طرح درختوں سے باتیں کیا کرتا تھا۔ اُس کی درختوں سے بہت دوستی تھی۔ کارپوریشن والوں نے اُس کا ایک دوست درخت کاٹ دیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔ درخت کاٹنے والوں کاکہنا تھا کہ درخت کی پھیلتی ہوئی جڑوں سےڈسٹرکٹ بورڈ کی عمارت کی بنیادوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال تھا۔ کرنل جانسن کا استدلال تھا کہ ڈسٹرکٹ بورڈ کی عمارت تو بعد میں بنی ہے، درخت پہلےسے اُس زمین کا باسی تھا۔ درخت نے دخل اندازی نہیں کی، بورڈ کی عمارت نے اُس درخت کو پریشان کررکھا تھا۔ یہ جھگڑا خاصاعام ہوا۔ یہاں تک کہ معروف وکیل راج گوپال اچاریا کے خواب میں وہی کٹنے والا درخت آیا اور ان سے درخواست کی کہ اُسے بے وجہ کاٹا گیا ہے، اس لیےاس کےحق میں مقدمہ لڑیں۔ 

راج گوپال اچاریانے مقدمہ لڑنے کا سوچا تو ان کے شناسا بہت ناراض ہوئے کہ ایک جانب وہ ہندوستان میں ہوم رُول کے لیےلڑرہےہیں، لالہ لاجپت رائےجیل میں ہیں اور اُنھیں ایک درخت کی پڑی ہے۔ سو اُنھیں یہ ارادہ منسوخ کرنا پڑا۔ لگاؤ تو قیامِ پاکستان کے بعد لاہور کی مال روڈکےدرختوں، کوئٹہ کی جناح روڈ کے اشجار، راول پنڈی کے ویسٹرج کے سبزے، کوہ مری کی بے مثال ہریالی سے محبت کرنے والے عام لوگوں کو بھی بےحد تھا۔ ادیب اورشاعر تو ویسے بھی نرم دل اورحسّاس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ درختوں سے لگاؤ تو منیرنیازی کوبھی تھا مگر اس میں خوف اور حیرت کا سامان زیادہ تھا۔ اُن کی شاعری میں بھی درخت آجاتے تھے۔

ایک جانب ان کی نظم ’’مذہبی کہانیوں کا درخت‘‘ میں درخت کا علامتی ذکر ہے تو دوسری جانب درخت کلام کرتے ہیں۔ ایک خواب ناک اور پراسرار فضا میں اَن ہونی ،ہونی میں بدل جاتی ہے۔ یہ منیرنیازی کےدرختوں، جنگلوں سے نفسی و تخلیقی تعلق کا معاملہ ہی ہے کہ انھوں نے اپنے دوسرے شعری مجموعے کا نام ’’جنگل میں دھنک‘‘ رکھاتھا۔ منیر نیازی کے علاوہ بھی اَن گنت ادیبوں،شاعروں نےبرگ وگل، ثمر و شجر کے تذکروں سے اپنی تخلیقات سجائی ہیں۔ وہ کیاخوب منظر تھا، جب لاہورمیں تارکول کی بے جان سڑکوں کو وسیع کرنے کی خاطر اس وطن کے باشندوں، سیکڑوں برس پرانے ہم وطن درختوں کے قتلِ عام کے خلاف وطن عزیز کے دانش ور، ادیب اور شاعر سراپا احتجاج اور سینہ سپر ہوگئے تھے۔ 

اصل احتجاج تو وہ پرندے کرتے ہوں گے، جو بدیسی درختوں اور بے جوڑ پودوں کو وطنِ عزیز کے شہروں میں سجاوٹ کے لیے اُگائے جانے کے بعد یہاں سے ہجرت کرگئے۔ اِس پاک زمین کے ماتھے کا جھومرتو یہاں کے اپنے درخت پودے ہیں، مادرگیتی کی اولاد۔ سندھ کے سرمئی، بھورے ریتیلے ساحلوں کے ساتھ کھجور کے درخت جن کی شاخوں میں چڑھتےمہینوں میں چاند کی دمکتی سلورقاش اٹکی دکھائی دیتی ہے، سندھ کے اندر فراخ سینے پر سہانجنا، بیر، کیکر اور پھلائی کے دیسی درخت ہواؤں پر اپنایت سے جھومتے ہیں، کراچی کے راج دَورکی خاکی رنگ عمارتوں کے سنگ نیم، پیپل، جامن، ناریل اوراملتاس سال بھر کے چمکتے سورج کی کرنوں میں نہائے نظر آتے ہیں، بلوچستان کے ہیبت ناک ویرانوں اور مسحور کُن تنہائیوں میں زیارت کے صنوبروں کے قدیم جنگل گویا نخلستان کی مانند ہیں اوراپنی قدامت میں انگڑائیاں لیتے ہیں، کوئٹہ سے نکلتی راہ گزروں پر آلوبخارے، سیب، ناشپاتی کے باغات ہیں، جن کےدرختوں پر رس بَھرا تازہ پھل موتی کے آویزوں کی مانند لٹکتا مچلتاہے اورخشک موسم میں چلغوزوں، پائن، زیتون اور پھلائی کے شجر اِستادہ ہوتے ہیں، جنوبی پنجاب کے روح پرور صوفیانہ ماحول کی قدرتی خشک ہواؤں میں بیر،سہانجنا، کیکر،کھجورکےدرختوں بیچ پھلوں کے شہنشاہ، آم کے باغات کھنچے ہوتے ہیں، وسطی پنجاب میں سکون سے سستاتی نہروں پر شیشم، جامن، شہتوت، سُنبل،ارجن اورلسوڑے کے درختوں، پودوں کی شاخیں جُھکی ہوتی ہیں، شمالی پنجاب کی زرخیزی میں بےشمار قسموں کے درخت، بُوٹےکچنارسےلےکر اوک، دیودار، پیپل اوربرگد پرندوں کو اپنی اور بلاتے ہیں، پوٹھوہار اور اسلام آباد میں (جو بدیسی درختوں کے بیچ چھینکتا رہتا ہے)چنار، پاپولر، بیر اور زیتون کے زمین دوست اشجار کہیں گھنگھریالی جھاڑیوں میں ڈھکی اور کہیں سُرخ مٹی سے عیاں ہوتی پہاڑیوں بیچ زمین کو سرسبز کرتے ہیں اورخیبرپختون خواجو قدرتی حسین مناظر کی برات بیچ پالکی میں بیٹھی دلہن ہے، بےشمار اقسام کےمقامی درخت پودوں کی آماج گاہ ہے بھلے وہ دل لبھاتے پائن، میلبری، پاپولر، کیکر ہوں یاشیشم ودیودار کے سے مانوس اپنایت بھرے درخت ہوں، یہ سبھی درخت وطنِ عزیز کے اپنے بچّے ہیں، اپنے بیٹے اور اپنی بیٹیاں۔ پاک وہند کی لوک کہانیوں میں درختوں کو جتنا بطور کردار یا علامت لیاگیا ہے، کسی اور خطّے میں نہیں۔ اِدھر کے وسیع سیکڑوں میل پھیلے میدانوں کے موسم عام باشندوں کو درختوں کے ساتھ کُھلے آسمان تلے رہنے پر آمادہ کرتے تھے، جب کہ یورپ کے شدید موسم میں آدمی بندجگہوں، مکانوں میں پناہ تلاش کرتا، جب کہ عرب کے ریگستانوں میں تو درختوں کے وجود کو ترس کے رہ جاتا۔

درخت انسان کو کیا سکھلاتے ہیں، فقط ایک حوالہ جاتی روایت ہے۔ ایک مرتبہ ایک شخص زندگی کے مسائل اور مشکلات کے ہاتھوں اس حد تک زچ ہوگیا کہ اُس نے بستی چھوڑی اور ایک جنگل میں جا بسرام کیا۔ ایک روز وہاں اُس کی ملاقات ایک جوگی سے ہوئی۔ جب اُس نے اپنی مشکلات کی بپتاجوگی کو سُنائی تو جوگی اُسے گہری نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر اُسے ایک مقام پر لےگیا اور وہاں دو پودوں کی جانب اشارہ کیا اور پوچھا ’’کیا تم وہ کزف(فرن) کا بغیر پتّوں والا پودا اور بانس کے اونچے درخت کو دیکھ رہے ہو؟‘‘ ’’ہاں‘‘ اُس شخص نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے کہا۔ جوگی نے بات جاری رکھی ’’اِن دونوں کو مَیں نے لگایا ہے۔ جب میں نےفرن اوربانس کے بیج بوئےتو اُن کےلیےپانی، روشنی اورکھادکاخوب اہتمام کیا۔ فرن بہت جلد زمین سے نکل آیا، جب کہ پہلے برس میں بانس کا پودا ایک اُنگلی برابر بھی نہیں نکلا۔ اُس کے بعد کا خاصا عرصہ بانس کے پودے نے بڑھوتری نہ دکھائی۔ اس کے باوجود میں مایوس نہ ہوا۔‘‘ ’’پھر؟‘‘ اس شخص نے اشتیاق سے پوچھا تو جوگی کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ ’’عرصے بعد بانس کے بیج والے مقام سے ایک ننّھی سی ڈنٹھل برآمد ہوئی اور چھے ماہ کے مختصر عرصے میں وہاں سو فٹ بلند درخت نے سر اٹھا لیا۔‘‘ اُس کےبعد جوگی نےپوچھا’’تمھارے خیال میں اتنا عرصہ بانس کے درخت نے زمین سے باہر سر کیوں نہ نکالا۔ 

کیا وہ مُردہ ہو چلا تھا؟‘‘ جواب نہ پاکر جوگی کے چہرے پر پہلی مرتبہ معنی خیز مسکراہٹ آئی اور وہ بولا ’’بانس کا پودا زیرِزمین مضبوط اور دیرپا جڑوں کا ایک ایسا وسیع نظام قائم کررہا تھا، جو اُس کے لمبے قد کو سہار سکے۔ جب تسلی بخش انتظام ہوگیا تو اس نے اپنا منہ زمین سے باہر نکالا اور دِنوں میں پورے قد سے کھڑا ہوگیا۔‘‘ کچھ توقف کے بعد جوگی سبق آموز انداز میں گویا ہوا ’’گو فرن فوری اُگ آیا، مگر اس کی بانس کے درخت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ بانس ہمیں تحمل، برداشت،محنت اورمسلسل کوشش کاسبق سکھاتا ہے۔ یوں اکثر ایک دَم حاصل ہونے والی کام یابی کے پیچھے برسوں کا صبر، کوشش اور محنت ہوتی ہے۔‘‘ یہ سُن کر وہ شخص گہری سوچ میں گم ہوگیا اور بستی جا کر نئے ولولے سے اپنی زندگی گزارنے کا ارادہ باندھنے لگا۔ 

عام انسانی زندگی درختوں سے کس درجہ مماثل ہے، اس پر کئی کہاوتیں ہیں، جن کی پشت پر لوک دانش ہے۔ ’’ایک پھل پھول دیتے درخت کے گرد ہی کیڑے مکوڑے کثر ت سے پائے جاتے ہیں۔‘‘،’’ایک درخت کتنا ہی بلند کیوں نہ ہوجائے، اُس کے پتّے ٹوٹ کر واپس جڑوں کی جانب ہی گرتے ہیں۔‘‘،’’اپنے دل کو ایک سرسبز درخت کی مانند رکھو، جلد ہی اُس کی جانب تم ایک چہچہاتے گاتے پرندے کو آتا پاؤگے۔‘‘،’’درختوں کے جھنڈ خدا کی بنائی قدرتی عبادت گاہیں ہیں۔‘‘،’’ایک درخت اُسی جانب گرتاہےجس جانب وہ جُھکتا ہے۔‘‘،’’ایک سیب کےاندرچُھپابیج درحقیقت اس کےاندرچُھپا باغ ہوتا ہے۔‘‘

حقیقت تو یہ ہےکہ اس زمین پر انسان، چرند، پرند، درخت اور پودے، سب ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔ زمین سب کی ماں ہے، جو سب کو خوراک دیتی ہے اوردرختوں میں بھی مادرانہ صفات ہیں۔ یہ ماں ہی ہوتی ہے، جو اپنے منہ کا نوالہ اولاد کے منہ میں ڈال دیتی ہے۔ یہ درخت ہی ہیں، جو انسان کی خارج کردہ آلودہ ہوا(کاربن ڈائی آکسائڈ) کو اپنےاندرجذب کرکےاُسے تازہ زندگی بخش ہوا (آکسیجن) لوٹاتے ہیں۔ سچ تویہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص برسوں بعد دنیا کے سفروں، سیاحتوں اور قیام کے بعد اپنے گھر لوٹے گا، تو بے شک اُس کے چاہنے والے باقی نہ رہے ہوں، پر اگر اُس کےبچپن، لڑکپن کےدرخت اُس کےگھر کے صحن میں موجود ہوں (جن کا انسانوں کی بنسبت زیادہ امکان ہے) تو وہ اُسے ضرور پہچان لیں گے اور اپنے اندر اس کے لیے ہم دردی اور بے زبان انسیت کا یقینا ً ویسا ہی جذبہ رکھیں گے، جیسا ماں اپنے بیٹے اور باپ اپنی بیٹی کے لیے رکھتا ہے۔

تازہ ترین