٭…کرونا وائرس نے دنیا میں ایک نئی ہلچل مچا دی یہاں بہت سی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ جنگی بنیادوں پر وائرس کے خلاف کام کیا جانے لگا۔ نئے تجربات سامنے آئے۔ رہنمائوں نے ٹریلین ڈالر وائرس کے خلاف کام کرنے پر صرف کردیئے۔ غریب ممالک کے سیاست دانوں نے بھی پس ماندہ افراد کے لئے کچھ نہ کچھ امداد دی۔
٭… بہت سے سیاست دان، سائنس دان اور فلاسفرایک نئی دنیا کا نقشہ ترتیب دے رہیں ان کا کہنا ہے کہ کرونا کے بعد کی دنیا بہتر ہوگی ہم اچھا سوچیں یا برا، مگر یہ طے ہے کہ اس سے قبل دنیا نے اس نوعیت کے بحران کا سامنا نہیں کیا تھا۔ یہ کہتےہیں اب معیشت، کاروبار، بین الاقوامی تعلقات، ملکی سیاست، سماجی معاملات، صحت عامہ اور انسانی تعلقات میں نمایاں تبدیلیاں نظر آئیں گی۔ یہ سچ ہے کہ کرونا کی وجہ سے سب کو غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس مسئلے پر کسی کو معلومات نہیں تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ وبائی مرض ہے اور اتنا مہلک ہے کہ اس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے ۔
کرونا وائرس نے انسان پر کتنے ظلم ڈھائے اور مسلسل ڈھائے جا رہے ہیں ،اس سے پوری دنیا آگاہ ہے،روزانہ اسی کی خبریں سنائی دیتی ہیں ،جبکہ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسے میں کوئی اچھی خبر یا بہتری اشارہ کرے تو ناقابل یقین ہوگا۔ مگر کچھ ماہرین اور سائنس دان ایسے بھی ہیں جو اپنی تحقیق اور جستجو سے کچھ اچھی خبریں بھی سنا رہے ہیں جو چندماہ پہلے تک ناممکن تھا وہ اب ممکن ہوتا نظر آیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے ماہرین ماحولیات اور ماہرین ارضیات نے انکشاف کیا ہےکہ فضا میں پھیلی کثافت اور آلودگی میں کمی آئی ہے۔ آسمان صاف نظر آنے لگا ہے، تارے بھی گنے جا سکتے ہیں، ہوا میں تازگی محسوس ہوتی ہے اور کھلے ماحول میں طمانیت کا احساس ابھرتا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے، دھواں نظر نہیں آتا۔ خالی موٹروے صاف دکھائی دے رہی ہے۔ فیکٹریوں کی چمنیوں سےاٹھتا کثیف دھواں ندارد ہے۔ کہا جاتا ہےکہ کارخانے بند ہونے، قدرتی ایندھن کا استعمال نہ ہونے اور سڑکوں سے گاڑیوں کے غائب ہو جانے سے فضائی آلودگی میں 45فیصد تک کمی ہوگئی ہے۔فضامیں نائٹروجن آکسائیڈ کی کمی سے صاف ہوا میسر آ رہی ہے۔ کرونا کی قیامت خیزیاں اپنی جگہ سہی مگر ماحولیات میں تبدیلیاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ امراض قلب، پھیپھڑوں کی بیماریوں اور دمہ کے مریضوں میں قدرے کمی آئی ہے۔
یہ سب کچھ جو ماحول میں بہتر ہوا ہے،وہ کرونا کے وائرس کی وجہ سے لوگوں کا گھروں میں بند ہوجانے سے ہوا ہے۔ لاک ڈائون نے زندگی جام کر دی مگرماحول بہتر ہو گیا جس کی امید کرنا بھی پہلے ناممکن تھا وہ اچانک ہوگیا۔ اس کو قدرت کی طرف سے وارننگ بھی کہہ سکتے ہیں اور فطرت کے تقاضوں کی تکمیل بھی ۔ ماہرین یہ اٹکل لگا رہے ہیں کیا انسان اس خطرناک وائرس کے نتیجے میں حکومتوں کی طرف سے اقدام کئے گئے جس ماحولیات میں بہتری نظر آ رہی ہے جب یہ اقدام واپس ہوںگے، لاک ڈائون ختم ہوگا تو کیا پھر دنیا آلودہ ہو جائے گی؟ مارچ کے مہینے سے ہی فضائی ٹریفک کی آمد و رفت میں نمایاں کمی در آئی۔اس ماہ میںلندن کی سڑکوں پر سے گاڑیوں کی آمد و رفت میں کمی شروع ہوئی۔ سڑکوں سے ٹریفک کا اژدھام کم ہوگیا تو لندن بٹیلز کے دور میں چلا گیا۔ پوری دنیا میں قدرے خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ماہرین ارضیات کہتے ہیں ٹریفک اور معاشرتی شورکم ہو جانے سے زمین کی تھرتھراہٹ میں بھی کمی آگئی ہے۔
ماحولیات کے بنیادی اشارے بتاتے ہیں کہ ان میں کمی آئی ہے یا اضافہ ہوا ہے۔ نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے دنیا کے ماحولیاتی نظام میں بگاڑ کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیاتھا۔ ماحول ابترہوا، فضا اور سمندر آلودہ ہوئے، دنیا میں طرح طرح کے وائرس پھیلنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ چین جو دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی میں اضافہ کا ذمہ دار ہے اس وقت اس کی فضا میں کچھ بہتری آئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چین فضا میں ڈھائی سو ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ داخل کرتا تھاجوبرطانیہ کے چھ ماہ کے برابر ہے۔ یورپی یونین میں 350ٹن کاربن میں کمی آئی ہے فضا اجلی اجلی لگتی ہے۔ امریکہ آلودگی پھیلانے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے، وہاں فضائی آلودگی میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے، کیونکہ تمام لوکل ٹرینیں، بیرونی شہر جانے والے ٹرینیں بند ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک بہت ہی کم ہے۔ امریکہ فضا میں کاربن کا بہت اضافہ کرتا تھا اس میں اب 45فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ جونہی لاک ڈائون کا خاتمہ ہوگا کرہ ارض کو پھر سے چند ماہ قبل کے دور سے واسطہ پڑ جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی اندیشہ ہے کہ معاشی بحران میں اضافہ ہو جائے گا۔ لاک ڈائون نے بلاشبہ سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں پر اپنا اثر ڈالا ہے۔ تیل کی صنعت کا پہیہ جام ہے۔ سڑکوں پر کاروں کا اژدھام نہیں، فضا میں ہوائی جہازوںکی پروازیں نہیں، یہاں تک کہ بڑی بڑی کانفرنسیں ویڈیو کے ذریعہ ہو رہی ہیں۔ موٹر کاروں کی قیمتوں کے بارےمیں بتایا جاتا ہے چالیس فیصد کمی آگئی ہے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ موٹر کاریں بنانے والے اداروں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ موٹر وے کو چوڑا کرنے کے بجائے گلوبل انٹرنیٹ سروس کے پھیلائو میں سرمایہ کاری بڑھائیں۔ دنیا میں تیل کے استعمال سےموسمی تغیرات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں تیل کا استعمال زیادہ ہے۔ ہر چند کہ اب تیل کی قیمتوں میں کمی آ گئی ہے اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کے مابین مسابقت کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے جیسے حال ہی میں روس اور سعودی عرب کا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہوا کہ، امریکہ جس کے پاس دنیا کے دوسرے بڑے تیل کے ذخائر موجود ہیں وہ اپنا تیل خود نکال رہااور استعمال کر رہا ہے۔ روس کے پاس دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر ہیں۔ اس کے مقابل اوپیک ممالک ہیں جو تیل پیدا کر کے دنیا میں فروخت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیل پیدا کرنے والے اہم ممالک میں ایران اور وینز ویلا بھی شامل ہیں۔ مگر ماہرین ماحولیات اور ماحول دوست تنظیموں سمیت اقوام متحدہ اور دیگر مالی معاہدوں کی بدولت دنیا میں قدرتی تیل یا کوئلہ کے بجائے انرجی کے متبادل ذرائع تلاش کئے جا رہے ہیں جن میں سب سےزیادہ قابل اعتماد اور ماحول دوست سولر انرجی ہے۔
اس کے علاوہ پانی سے بھی زیادہ بجلی بننے لگی ہے۔ ایسے میں بیشتر سرمایہ کاروں نے سولر انرجی کے ذریعہ چلنے والی کاریں تیار کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ متبادل انرجی کے استعمال کی طرف رجحان بڑھتا جا رہا ہے، مگر تیل پیدا کرنے والے ممالک کی پوری کوشش ہے کہ تیل کا استعمال جاری رہے تاہم قیمتوں میں کمی بھی عمل میں آ رہی ہے جس سے دنیا کے ترقی پذیر اور غریب ممالک کوضرور فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔
بہرحال یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس نے جو گل کھلائے وہ سب پر عیاں ہیں مگر ماحولیات کو سدھارنے کا کام بھی کورونا نےکر دکھایا جس کے سامنے بیشتر سیاسی دیواریں کھڑی رہیں مگر کورونا نے سب کو گھروں میں بند کر کے وقتی طور پر ہی سہی دنیا کو آئینہ دکھا دیا ساتھ ایک سبق بھی سکھا دیا۔
کینیڈا کے معروف دانشور نوم کولین اپنی کتاب ’’صدماتی نظر‘یہ ‘ میں لکھتے ہیں کہ المیہ یہ ہے کہ، گلوبل اکنامی فری مارکیٹ کےنعروں کی گونج میں تباہ کن سرمایہ دارانہ نظام اور پاور فل گلوبل اشرافیہ دنیا کو آلودگی اور موسمی تغیرات کی دنیا میں لے آئی ہے، سیاسی طور پر بھی وہ عوام کےبنیادی حقوق غصب کر رہی ہے۔
گلوبل مافیا نے امریکی صدر ٹرمپ کوتیل کے استعمال میں اضافہ کرنے کے عوض اپنی حمایت کا یقین دلا رکھا ہے۔ صدرٹرمپ ابتدا ہی سے ماحولیات کے نام پر چراغ پا ہوتے رہے ہیں۔ وہ امریکی سائنس دانوں کے ایک گروہ کی طرف سے گھڑے گئے گلوبل برفانی ماحولیات کی بات کرتے ہیں اور گلوبل وارمنگ کے نظریہ کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے پیرس کے ماحولیات کے معاہدہ کو مسترد کر دیا۔ ان پر اب کوئی پابندی نہیں ہے۔ امریکہ کا ماحولیات کا ادارہ بے بس ہو کر رہ گیا ہے۔ اب وہ کوئی بھی پالیسی نافذ نہیں کر سکتا۔ امریکہ کی تین ریاستوں میں ہونے والے احتجاجات کو ختم کروا کر وہاں تیل کے کنویں کھودے جا رہے ہیں۔ اس کام کی تکمیل کیلئے صدر ٹرمپ نے اپوزیشن اتھارٹی کو 850ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج دیا ہے۔
امیر اور صنعتی ترقی یافتہ ممالک جاری لاک ڈائون کو ایک وقتی مسئلہ تصور کر کے چپ ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس عرصے کا نقصان وہ جلد ہی پورا کرلیں گے، البتہ وہ پس ماندہ غریب ممالک جو حالات کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں وہ مزید مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔جنوبی امریکہ میں ایمیزون کے گھنے جنگلات اور جنگلی حیاتیات کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں کو زبردست خدشات ہیں کہ جونہی لاک ڈائون ختم ہوگا بھوکے بیروزگار ان جنگلات کی کٹائی کر کے لکڑی مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کردیں گے۔بڑے اجارہ دار، سرمایہ دار اور گلوبل اشرافیہ ویڈیو کانفرنسوںکے ذریعہ اپنے اپنے پلان تیار کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے اس سال کے آخرمیں ماحولیات کے حوالے سے ہونے والی گلاسو کی کانفرنس کو منسوخ کرا دیا گیا ہے۔ دنیا کے ’’بڑے‘‘ ماحولیات، موسمی تغیرات ہیں اور آلودگی جیسے عنوانات کو کہیں سننا یا پڑھنا پسند نہیں کرتے۔ دنیا کے معتبر ماہرین ماحولیات اور ماحول دوست تنظیمیں اقوام متحدہ کے اشتراک سے ایک ایجنڈا جاری کر چکی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ عوام میں ماحولیات کی بہتری کیلئے بیانیہ جاری کیا جائے مکالمہ کیا جائے، قدرتی ذرائع کے ذریعہ انرجی پیدا کرنے پر انحصار کم کیا جائے اور ماحول دوست انرجی کے ذرائع استعمال کئے جائیں۔ دنیا میں پودے لگانے اور شجر کاری کی مہمات تیز کی جائیںاور عوام کی زندگیوں کو آسودہ حال بنانے پر کام کیا جائے۔
پیرس کے معاہدے کے خالق اور یورپی ماحولیات کے سربراہ لارنس تبومنیا کہتے ہیں، دنیا کو آلودگی اور موسمی تغیرات کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے سب کو مل کرکام کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں انہوں نے دنیا کے درجنوں سربراہوں، سائنس دانوں اور بڑی تنظیموں کے سربراہوں کو خطوط تحریر کئے ہیں، جس میں انہوں نے لکھا کہ، اب دوبارہ دنیا ایسے نہیں چلے گی جیسے آپ لوگ چلا رہے تھے۔ کورونا نے سب کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ماہرین اور رضا کار کہتے ہیں کہ سائنس دانوں اور ماہرین ارضیات کا نقطہ نظر درست تھا جو کورونا ثابت کر رہا ہے اور گلوبل اشرافیہ خاموش بیٹھی ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ انسانوں نے گزرے برسوں میں قدرتی ماحول کو زبردست زک پہنچائی ہے، قدرتی کوئلہ، تیل کا زبردست استعمال اور کیمیاوی مادوں کا استعمال پھر کارخانوں کی چمنی سے نکلنے والا سیاہ آلودہ دھواں اور آلودہ پانی جو نہروں، کھیتوں، دریائوں میں بہا دیا جاتا ہے۔ اس فضا سےزمین، ماحول سب متاثر ہو رہے ہیں۔ پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں۔ سانس لینے کے لئے صاف ہوا دستیاب نہیں اور سبزیاں پھل بھی آلودہ پانی کے تحفے ہیں جن کے کھانے سے پیدا ہونے والے نقصانات سے زیادہ عوام نابلد ہے۔
ماحولیات کےادارے نے چین پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ، چین اس حوالے سے خطرناک ہے کہ وہاں کھلی مارکیٹوں میں زندہ جانوروں کا گوشت فروخت ہوتا ہے۔ ان جانوروں کو کھانے کے لیے پالا بھی جاتا ہے۔ جانوروں سے بیماریاں انسانوں میں پھیل رہی ہیں۔ اس کاروبار پرسخت پابندیاں عائد ہونی چاہئیں کورونا وائرس پہلی مثال نہیں ہے۔
ہاورڈ یونیورسٹی کے ماحولیات کے پروفیسر ایڈم ہیوم نے مقالہ شائع کیا ہے جس میں کورونا وائرس سمیت دیگر وبائی امراض کا ذکر کیا گیا ہے وہ لکھتے ہیں کورونا پھیپھڑوں اور دیگر کہنہ امراض میں مبتلا افراد پر زیادہ حملہ کرتا ہے۔ لاک ڈائون کا فائدہ ہوا ہے، ہوا صاف ہوئی، فضا میں نکھار آیا، آسمان صاف نظر آتا ہے۔ بےہنگم شور کی آلودگی سے فی الفور چھٹکارا نصیب ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہر ماحولیات اینجر اینڈرسن کہتے ہیں قدرت کی طرف سے یہ تمام انسانوں کے لیے وارننگ ہے کہ ماحولیات کو اگر یونہی بگاڑتے رہے اور ماحول دوست فضا پیدا کرنے میں ناکام رہے تو پھر کرونا سے زیادہ مہلک وبائی امراض انسانیت پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ مناسب یہ ہے کہ ہم قدرت کے عطا کردہ ماحول کو خراب نہ کریں۔
کرونا وائرس نے دنیا میں ایک نئی ہلچل مچا دی یہاں بہت سی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ جنگی بنیادوں پر وائرس کے خلاف کام کیا جانے لگا۔ نئے تجربات سامنے آئے۔ رہنمائوں نے ٹریلین ڈالر وائرس کے خلاف کام کرنے پر صرف کردیئے۔ غریب ممالک کے سیاست دانوں نے بھی پس ماندہ افراد کے لیے کچھ نہ کچھ امداد دی۔ یورپ کی ایک غیر سرکاری تنظیم ارتھ نے ایک سروے رپورٹ میں بتایا ہے کہ کرونا نے ماحولیات کو بہتر بنانے میں بھی کردار ادا کیا اور جنگلی حیاتیات پر بھی کرم کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہائی ویز اور سڑکوں پر جہاں شکاری شکار کی تلاش میں گھومتے تھے وہ جانور اب ہائی ویز خالی ہونے کی وجہ سے سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔
برطانیہ میں ایک سال میں ایک لاکھ کے قریب قارپوش، لومڑیاں اور ہرن ہائی ویز پر کچل دیئے جاتے تھے۔ دیگر ممالک میں جنگلی جانور جیسے بارہ سنگھا، خرگوش، بھیڑیئے، ہزاروں کی تعداد میں ہر سال سڑکوں پر ٹریفک کا شکار ہو جاتے تھے۔ اب سڑکیں صاف اور سنسان ہیں۔ امریکہ میں سان فرانسسکو کے آس پاس گولڈن گیٹ کے قریب اکثر جنگلی جانور سڑکوں پر مارے جاتے تھے۔ جنگلات کا محکمہ ہر سال سڑک کے کناروں کے پاس اُگنے والی گھاس اور پودے صاف کرتا ہے، تاکہ جانور اس سے نکل کر فورس سڑک پر نہ آسکیں۔ کہا جاتا ہےکہ انسان گھروں میں بند ہیں مگر جانور آزاد گھوم رہے ہیں۔ یہ سب کرونا کا کیا دھرا ہے۔ آخرکوئی تو خوش ہے۔ کرونا وائرس کے حوالے سے کچھ معتبر حلقے امید کے چراغ جلا رہےہیں اور کچھ مغموم حلقے ناامیدی میں گھر بیٹھے اندازے لگا رہے ہیں۔
بہت سے سیاست دان، سائنس دان اور فلاسفر ابھی سے ایک نئی دنیا کا نقشہ ترتیب دے رہےہیں، اس پر امید حلقے کا کہنا ہے کہ کرونا کے بعد کی دنیا بہتر ہوگی ہم اچھا سوچیں یا برا ، مگر یہ طے ہے کہ اس سے قبل دنیا نے اس نوعیت کے بحران کا سامنا نہیں کیا تھا۔ کہتےہیں اب معیشت، کاروبار، بین الاقوامی تعلقات، ملکی سیاست، سماجی معاملات، صحت عامہ اور انسانی تعلقات میں نمایاں تبدیلیاں نظر آئیں گی۔ یہ سچ ہے کہ کرونا کی وجہ سے سب کو غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، کیونکہ اس مسئلے پر کسی کو معلومات نہیں تھیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ وبائی مرض اتنا مہلک ہے کہ اس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے اور مریض صحت مند بھی ہو جاتا ہے۔ دنیا کی معروف تجارتی سرمایہ کاری کمپنی میکنزلے نے اس حوالے سے رپورٹ تیار کی ہے کہ موجودہ معاشی حالات میں ابتری زیادہ ہے۔ حصص مارکیٹوں میں مندی کا رجحان عام ہے۔ اس صورتحال سے عالمی جنگ دوم کے بعد پہلی بار دنیا کو اتنا بڑا صدمہ پہنچا ہے۔ مگر یہ ادارہ کہتا ہے کرونا کے بعد مارکیٹ میں تیزی آئےگی۔ معاشی حالات بہت بہتر ہو جائیں گے۔ دنیا نے ایک تجربہ کرلیا ہے اب وہ حالات کو پہلے سے زیادہ ذمہ داری سے نبھائیں گے۔ بہرحال جو لوگ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ بعداز لاک ڈاؤن سب ٹھیک ہوگا، خدا کرے ایسا ہی ہو ان کی امیدیں پوری ہوں مگر اس کے برعکس ناامیدی کا اظہار کرنے والوں کے پاس بھی ڈھیروں ڈھیردلائل ہیں۔
ناامید گروہ کا کہنا ہے کہ کرونا کے ختم ہونے کے ساتھ ہی نئے مسائل اور تنازعے کھڑے ہو جائیں گے، جس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہو سکتی ہیں، کساد بازاری عام ہو سکتی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے، انفرا اسٹرکچر تباہ ہو سکتا ہے۔ گلوبل اکنامی تباہی کے کنارے لگ سکتی ہے۔ ہر چند کہ کچھ عرصہ میں کرونا کا علاج ہو جائے گا۔ چین کی مضبوط معیشت کو بھی 3.3 فیصد سالانہ اوسط آمدن کا نقصان ہوگا۔ امریکہ میں معاشی بحران زیادہ سخت ہوگا۔ اوسط آمدنی 8فیصد تک کم ہو سکتی ہے، مگر سال کے آخری مہینوں میں کچھ بہتری آ سکتی ہے۔ امریکی سال کی کھپت اندرون ملک زیادہ ہے، اس لئے خسارہ بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ یورپی یونین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں مسائل زیادہ ہیں۔ آئندہ تین سے چھ ماہ یونین کیلئے زیادہ مسائل پیدا ہوسکتےہیں۔ سال کے آخر میں کچھ بہتری آ سکتی ہے۔
امریکہ فیڈرل وریزو بورڈ بھی خاکہ تیار کر رہا ہے وہ تحقیق کر رہا ہے کہ کس ملک کی معیشت کب مندی کا شکار ہو گی یا بہتر ہوگی۔ بورڈ نے 1918 کی عظیم معاشی مندی کے اعداد و شمار روبرو رکھے ہیں۔جہاں تک روس کی معیشت کا تعلق ہے، ایک طرف اس پر معاشی پابندیاں ہیںتو دوسری طرف اس کی معیشت کا انحصار تیل پر ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی اور غیر استحکام نے روس سمیت تیل پیدا کرنے والے دوسرے ممالک کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ البتہ لاک ڈائون کے خاتمے کے بعد تیل کی طلب میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ روس کے صنعتی یونٹ ہیں، مگر سیاحت کی صنعت اور فضائی سروس آمدنی کے بڑے ذرائع ہیں۔ ہتھیاروں کی صنعت بھی نمایاں ہے۔ اگر لوگوں کی آمد ورفت میں اضافہ ہوا تو روسی معیشت بحال ہو سکتی ہے۔مگر مایوس گروہ کا خیال ہے کہ ابھی تک کوئی ملک اس وبا پر پوری طرح قابو نہیں پا سکا ہے اور نہ دوا تیار ہوسکی ہے۔ لاکھوں مریض ہیں جن میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا میں پھر ایسا کوئی وائرس حملہ آور ہوا تو ایسے میں چین سب کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ امریکا مزید مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کی اوسط آمدن مزید کم ہو جائے گی۔
چین سال2021مییں اپنی معیشت کو بہتر بنالے گا۔ وہ اپنے ایجنڈے پر کام کر رہاہے۔ یورپی یونین کو مزید نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔یورپی یونین سےبرطانیہ کے الگ ہونےکے بعد وہاں مزید ممالک یونین سے الگ ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جس میں اٹلی سب سے آگے ہے۔ اٹلی کو کرونا کی وجہ سے شدید جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ یونین کے ہر ملک کو اپنی پڑی تھی کسی نے اٹلی کی مدد نہیں کی۔ کچھ ایسا ہی اسپین کے ساتھ ہوا۔ اس لئے ماہرین کہتےہیں معاشی ابتری میں اضافہ ہوا تو یورپی یونین بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔
مشرق وسطیٰ میں بھی صورتحال ابتر ہے۔ سعودی عرب میں بعض شاہی خاندان کے افراد وائرس کا شکار ہوئے۔ تیل کی قیمتیں کم ہورہی ہیں۔ یمن میں شورش بڑھ رہی ہے۔ شام میں پراکسی لڑائی جاری ہے۔ عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو عراقی عوام نے مسترد کردیا ہے، ان کا مطالبہ ہے کہ جو بھی غیر ملکی فوجی ہیں وہ واپس جائیں۔ ایران کااپنا مسئلہ ہے، کرونا نے ایران کو شدید جانی اور مالی نقصان پہنچایا ہے۔ تیل کی ترسیل بھی بند ہے۔ اقتصادی پابندیاں الگ پریشانی کا باعث ہیں۔ ایرانی عوام اور حکومت دونوں سخت حالات سے دوچار ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ابھی ہم کرونا وائرس کی الجھن سے دوچار ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ قدرتی ماحول میں تبدیلیاں مہینوں یا برسوں میں نہیں رونما ہوتیں بلکہ عشروں اور صدیوں میں سامنے آتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیات کے ادارے کی حالیہ کانفرنس میں پانچ سو سے زائد ماہرین ماحولیات، ارضیات اور جغرافیہ دان شریک ہوئے جنہوں نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ اب تک کی تمام کوششوں اور رپورٹس کے باوجود عملی اقدامات کے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔
زمین کے درجہ حرارت اورسمندر کی سطح میں بھی بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، گرین لینڈ، ہمالیائی خطے اور انٹارکٹیکا کے علاقوں میں برف کے بڑے بڑے گلیشرز پگھل کر سمندروں میں شامل ہو رہے ہیں، جبکہ دریائوں کا پانی کم ہو رہا ہے۔ دریائوں میں پانی کم ہونے کی وجہ سے ڈیلٹا کے علاقوں میں سمندر کا پانی داخل ہورہا ہے، جس سے ڈیلٹا کے علاقوں کی زراعت اور معاشرت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ان علاقوں میں مختلف وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔ صنعتی کیمیائی تیزابی فضلہ درست طور پر ٹھکانے لگانے کے بجائے انہیں سمندر میں بہایا جا رہا ہے۔ جھیلوں اور نہروں میں بہایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اس کے شدید منفی اثرات رونما ہو رہے ہیں۔ اس پانی سے بیشتر علاقوں میں کھیتوں اور سبزیوں کے فارمز کو سیراب کیا جا رہا ہے، اس سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ ماہرین نے باربار حکومتوں اور ذمہ دار صنعتکار حلقوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ قیمتی انسانی جانوں سے نہ کھیلیں،مگر تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔
عالمی ماہرین ماحولیات اور اسکالرز کو مختلف ممالک کے سربراہوں سے شکوہ ہے کہ وہ آلودگی میں کمی کرنے اور ماحولیات میں سدھار پیدا کرنے پر ضروری اقدام اٹھائیں گے، مگر عملی طورپر جو کچھ سامنے آ رہا ہے وہ اس کے برعکس ہے، کیونکہ جدید سرمایہ داری نظام کارٹیل اور اجارہ داری نظام نے کارپوریشن کے ذریعہ اپنی اجارہ داری قائم کرلی ہے ۔ دنیا کے ساڑھے سات ارب انسانوں کے مسائل اور مصائب میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔
دنیا کو ایک ایسی کمرشل مارکیٹ میں تبدیل کر دیا گیا ہے کہ ہر چیز پیسے سے ملتی ہے۔ گلوبلائیزیشن کے نام پر زیادہ استحصال ہو رہا ہے ،یہاں تک کے لوگوں کو پانی خرید کر پینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ہر اہم شئہ کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے۔ جگہ جگہ ہر چیز پر ایک طاقتور اور منظم مافیا کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے مال اجارہ داری قائم کر کے بیٹھے ہیں عوام چکا چوند روشنیوں کےسحر میں پیسہ گنوا رہے ہیں۔ بتدریج چھوٹا سرمایہ دار بیوپاری اور دکاندار مٹتا جا رہا ہے۔
ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں تعمیراتی ادارے ایک ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اشتراک سے ملکوں کی افسر شاہی کو کرپشن کے ذریعے اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ کالے دھن والے ٹیکس چرانے والے اور ناجائز ذرائع سے دولت کمانے والے اس طرح کے کاروبار میں پیسہ کی سرمایہ کاری کر کے مافیا کا ساتھ دے رہے ہیں۔ زمین پر ،سمندر پر ،پینے کا پانی پر، اناج منڈیوں پر، کھانے پینے کی مختلف اشیاء اور دواخانوں تک ہر جگہ مافیا چھائی ہوئی ہے۔ ایماندار سیاست دان، جج، انتظامی افسر، استاد اور عام شہری گومگو کا شکار ہیں۔
پاکستان میں حکومت نے مناسب اقدام اٹھائے اور اس کے لیے لاک ڈائون لاگو کیا جو مناسب قدم ہے، مگر غریب اور روزانہ اجرتی محنت کشوں کے لئے جو امدادی پروگرام تیار کیا ،وہ فول پروف نہیں لگتا، اس سلسلے میں حکومت اپوزیشن سے مشورہ کرلیتی تو مناسب ہوتا۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے اور حکومت کیا کرتی ہے۔