میر شکیل الرحمٰن کی عظمت اور کردار کا راز بھی اسی حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ اُن کی عظمت کے بیان کے لیے جھوٹ کے سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اُن کا شمار ہمیشہ جھوٹ سے شدید نفرت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ اسی لیے تو انہوں نے ہمیشہ سچی اور حقیقت پر مبنی خبروں کو اپنے اخبارات کے صفحوں اور ٹی وی اسکرین کی زینت بنایا، سچ کڑوا ہوتا ہے اور سچی خبریں جن کے کالے کرتوتوں پر مبنی تھیں انہیں وہ خبریں آج تک ہضم نہیں ہوئیں۔ میرے میر صاحب کے پاس اس وقت کے حاکموں کی طرف سے اوچھے ہتھکنڈوں سے کامیابی کے لیے یقینِ محکم اور عملِ پیہم کیساتھ جو سب سے موثر ہتھیار ہے وہ سچائی ہی ہے کہ انہوں نے ابھی تک نیب نیازی گٹھ جوڑ کے سامنے کلمۂ حق اور سچی بات کہی۔ میرے میر صاحب کیخلاف جھوٹ کے پلندے پر مبنی جو مقدمہ بنایا گیا ہے وہ بےمعنی اور فضول ترین ہے کہ چونتیس سال پرانا جائیداد کا معاملہ جو ہر طرح قانون کے مطابق ہے، اس میں عجیب منطق بنا کر انہیں نیب کی جیل میں ڈال دیا گیا اور تقریباً ڈیڑھ ماہ سے وہ بےقصور پابندِ سلاسل ہیں۔ ان پر بنایا گیا مقدمہ جو سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے، ان کی بےگناہی کے علاوہ ان کی شخصیت کے چھپے راز جان اور دیکھ کر نیب کے اہلکار بھی ان کے گرویدہ ہو چکے ہیں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے میر صاحب جہاں بھی جاتے ہیں ان کی کرشماتی شخصیت، جس میں عجز و انکساری ہے، ایسا تاثر چھوڑتی ہے کہ لوگ ان کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ میرِ کارواں اس وقت نیب کی جیل میں ہیں مگر شبِ برأت کی رات عبادت کرنا اور باقاعدگی سے نماز پڑھنا، نیب اہلکاروں سے مخاطب ہونا، میر صاحب کی شخصیت کی نفاست و سادگی اور مخلص برتائو نیب کے اہلکاروں پر مثبت اثرات مرتب کر چکے۔ ایک نیب اہلکار ہمارے دوست ہیں، انہوں نے نیب جیل میں اس شخصیت کا خلاصہ پیش کیا اور کہا ’’میر شکیل الرحمٰن تو ایک نفیس انسان ہیں‘‘، یہ سن کر میرا سر فخر سے بلند ہو گیا کہ یااللہ! کم از کم ان لوگوں کے دلوں میں تو نے میرے میر صاحب کی شخصیت کا یہ پہلو تو اجاگر کیا۔ میں نے میڈیا میں بڑے بڑے فرعون دیکھے ہیں اور چند کا سامنا بھی کیا ہے، چند فرعونوں کو ہم دیکھ بھی رہے ہیں جو میر صاحب کی کردار کشی کی مہم چلانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے مگر جب ان میڈیا مالکان نے دیکھا کہ ان اقدامات کی وجہ سے میر صاحب کی عزت و شہرت میں مثبت اضافہ ہو رہا ہے تو وہ چند سیٹھ اپنے چند اینکرز کو معمول کی خبروں اور کورونا پر موڑ چکے۔ ان سیٹھوں کے چند اینکرز میں جو دوست ہیں، انہوں نے بتایا کہ آپ کے میر صاحب یہ جنگ جیت چکے ہیں۔
میں تقریباً پندرہ بیس سال سے کاروانِ میر کا حصہ ہوں، اپنے میر کی شفقت ایسی کہ بیان کریں تو الفاظ کم پڑ جائیں۔ آپ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے پابندِ سلاسل ہیں مگر جیل سے بھی ان کی شفقت کے قصے ہم تک پہنچ رہے ہیں۔ اصل کہانی کیا ہے، سب کو پتا چل گیا کہ یہ صرف زبان بندی کی کوشش ہے جو الحمدللہ ناکام ہو چکی۔ اللہ پاک بھی ایسے لوگوں کی مدد فرماتے ہیں جو سچ بولیں اور پھر ثابت قدم رہیں، ایسی ہی مثال قائم کی ہے آپ نے۔ دشمن ان کو سیٹھ اور پتا نہیں کیا کچھ کہتے ہیں مگر آپ اربوں کے نقصانات برداشت کر کے بھی ہمیں ثابت قدمی کا درس دیتے ہیں، ان کے سامنے جنگ؍، جیو فیملی کے تمام ملازمین برابر ہیں۔ شدید کرائسز میں میرے میر صاحب اپنے ورکروں کے سامنے آبدیدہ ہوئے مگر کہا کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا، بس آپ لوگ ثابت قدم رہیں۔ آج بھی آپ کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔
میری کیا اوقات جیو فیملی میں ایک ادنیٰ سا سینئر پروڈیوسر، جب 2007میں کیپٹل ٹاک کا پروڈیوسر تھا تب بھی میر شکیل الرحمٰن صاحب سے فون پر بات ہو جایا کرتی تھی مگر آمنے سامنے سلام دعا کی حد تک آپ سے ملتا رہا مگر ان کی شخصیت میں نفاست اور عجز و انکساری کو محض اتنی سی سلام دعا میں ہی محسوس کرتا رہا، تیرہ سال بعد جب جیو ملازمین اپنے ادارے کے مشکل ترین حالات کی وجہ سے تنخواہوں کے مسائل سے دوچار تھے، میری میر صاحب سے اچانک ملاقات ہو گئی۔ آپ بلڈنگ کی لفٹ میں داخل ہونے کے لیے کھڑے تھے، میں بھی وہاں لفٹ کا انتظار کر رہا تھا۔ لفٹ کا دروازہ کھلا تو میں نے اپنے احتراماً میر صاحب کو اندر جانے کا کہا تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ داخل ہوں پہلے، میں ششدر رہ گیا۔ میری دو دفعہ درخواست پر وہ لفٹ میں داخل ہوئے۔ لفٹ میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے میں نے اس وقت کے حالات پر بات کی تو آپ نے فلور پر پہنچنے کے بعد بھی لفٹ کے باہر کھڑے ہو کر میری پوری بات سنی اور باقاعدہ میرا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’کہ آپ نے یہ بات مجھے یاد کرا کر اچھا کیا‘‘۔ یہ ہیں میرے میر صاحب۔
اس رمضان کے بابرکت مہینے میں، مَیں نے اپنے دل کی آواز لکھی ہے کہ میرے میر صاحب جیو اور جنگ فیملی کے ملازمین کو جس طرح عزت دیتے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ سیٹھ اور مالک کم دوست زیادہ نظر آتے ہیں۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ جنگ اور جیو فیکٹری نہیں یہ ایک کارواں کا نام ہے جس کو ہم میر شکیل الرحمٰن کا کارواں کہتے ہیں۔ جن کی کرشماتی شخصیت کے پہلوئوں کی جھلک ان کے بچوں میں بھی پائی جاتی ہے۔
حبیب جالب کا یہ شعر میر صاحب کی نذر
میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اُجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکرِ امنِ عالم، تجھے اپنی ذات کا غم
میں طُلوع ہو رہا ہوں تُو غروب ہونے والا