چوہدری عبدالحفیظ (مرحوم) سیدؒ کے خاص رفیق تھے، یہ تحریر اُن کے مضمون کا اقتباس ہے جو اُنہوں نے سید صاحب ؒ کی رحلت کے بعد لکھا تھا۔
حبِ الٰہی :۔ سید ابوبکرؒ حبِ الٰہی سے سرشار تھے۔ حبِ الٰہی اُن کے رگ و ریشے میں سرایت کر گئی تھی اس لئے کہ اس کی دعا کرتے تھے، ان کے ہر ہر بن موسے حبِ الٰہی کی آبشاریں پھوٹتی تھیں۔ وہ جبِ ذکرِ الٰہی میں مصروف ہوتے تو انوار کی بارشیں ساری محفل پر موسلادھار برستی تھیں۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہو کر ان کی ڈاڑھی مبارک میں جذب ہو جاتے، وہ یادِ الٰہی میں ڈوب کر اللہ کے خوف سے روتے تھے۔ دوسروں کو بھی رلاتے۔ وہ دوست جنہوں نے ان کے ساتھ خانس پور کی پہاڑیوں پر اور مری کے واپڈا ریسٹ ہائوس میں ایک ایک ہفتہ گزرا ہے وہ ان کیفیات کی گواہی دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر منور حیات صاحب سے پوچھئے کہ جس روز اسلامی کانفرنس کے مہمانوں کو شالامار باغ میں دعوت دی گئی تھی اس روز مغرب کی نماز انہوں نے غزنویؒ کے ہمراہ یونیورسٹی میں ادا کی تھی، وہ کیا کیفیات تھیں جن کے بارے میں وہ دوستوں سے پوچھتے پھرتے تھے۔ آخر سید صاحب نے فرمایا ڈاکٹر صاحب یہ تو راز و نیاز کی باتیں ہیں، انہیں عام نہ کیجئے، وہ اسمِ ذات کا بےپناہ ذکر کرتے تھے ان کی زبان اللہ کی یاد سے ہر وقت تر رہتی تھی۔ ریاض صاحب کے خط میں جو تفصیلات لندن سے آئی ہیں ان میں لکھا ہے کہ وہ اللہ اللہ کرتے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے، آخری کلمات یہ تھے۔ ’’اللہ اللہ اللہ یا اللہ رحم فرما‘‘۔ الحب للہ و البغض للہ کی زندگی بھر تلقین کرتے تھے اور اس پر عمل کراتے تھے۔ اگر انہوں نے کسی کے ساتھ محبت کی تو اللہ کی خاطر کسی کے ساتھ ان کا اختلاف تھا اللہ کی خاطر۔
عشقِ رسول ؐ:۔ اُن کا دامن عشقِ رسول ؐسے مالا مال تھا۔ رسول اکرم ؐکی سنت کی معرفت انہیں حاصل تھی، ان پر اللہ کا اس لحاظ سے خاصا کرم دیکھا کہ وہ ہر عمل کو سنت کی روشنی میں جانچنے کے عادی تھے سنت کو چھوڑ کر کسی دوسرے عمل سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا، میں نے ہزارہا مرتبہ دیکھا جب بھی پانی پیتے تھے التزام سے تین مرتبہ سانس لیتے تھے، بعد میں الحمدللہ اس درد سے پڑھتے کہ پاس بیٹھنے والا محسوس کر لیتا تھا کہ الحمدللہ ان کے دل کی گہرائیوں سے نکل رہا ہے صرف زبان کے اگلے حصے سے نہیں۔ بارگاہِ رسالت کا ادب و احترام اس درجہ ملحوظ خاطر رکھتے تھے کہ بہت سے عاشقانِ رسولؐ ان کی کیفیات کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے تھے۔ وہ سنت کے شیدائی تھے آنحضرت ؐکی اتباع ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھا ’’محمدی انقلاب‘‘ کو پاکستان میں نافذ کرنے کے لئے خصوصاً اور ساری کائنات میں پھیلانے کے لئے عموماً اپنے دل میں عجیب تڑپ رکھتے آخری سال میں یہ دعا اکثر ان کے لبوں پر جاری رہی۔ ’’اے اللہ اپنے پیغام کو حسین ترین اور موثر انداز میں ساری کائنات میں پیش کرنے کی توفیق عطا فرما‘‘۔ پنجاب یونیورسٹی میں آخری تقریر 30مارچ 76میں انہوں نے فرمایا تھا کہ آئیے ہم عہد کریں کہ نبی اکرم ﷺ سے بےوفائی نہیں کریں گے۔ یہ اُن کے عشق رسول کا مظہر ہے۔
ادب و تعظیم:۔ جناب سید صاحبؒ سراپا ادب تھے، اولیاء اللہ کا نام نہایت ادب و احترام سے لیتے تھے، علماءکی حد درجہ تعظیم بجا لاتے تھے، دنیاداری کے برعکس اہلِ دل، اہلِ علم اور اہلِ اللہ حضرات ان کے ہاں زیادہ عزت پاتے تھے۔ جب یہ علم ہوتا کہ یہ آدمی محض اللہ کی خاطر آیا ہے تو سب کام چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ آئمہ کرام اور فقہائے عظام کا نام ہمیشہ عزت سے لیتے تھے، ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کے بغیر کبھی نام نہ لیتے تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے دین سراسر ادب ہے، توحید سراسر ادب ہے۔
میں نے ان سے ادب کی لطافتیں سیکھی ہیں، مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ کوئی خط لکھوانے لگے تو میں نے حدیث کی ایک کتاب جو سامنے پڑی تھی پکڑ کر کاغذ کے نیچے رکھنے کی کوشش کی تو میرے ہاتھ سے فوراً کتاب چھین لی اور ایک کاپی اٹھا کر دے دی۔ ایک دفعہ قرآن مجید پر تفسیر کی کوئی کتاب رکھی تو فوراً اوپر سے اٹھانے کا حکم دیا فرمایا حفظِ مراتب کا ہمیشہ خیال رکھو، ہاں قرآن مجید کے نیچے رکھ سکتے ہو جس کسی کاغذ پر بسم اللہ .... لکھی ہوئی ہوتی اسے پھاڑ کر کبھی ردی کی ٹوکری میں نہ پھینکتے تھے۔ فرمایا کرتے کہ آنحضرت ؐکا ادب سیکھنا ہو تو حضرت ابوبکر ؓ سے سیکھو۔
ذوق شعر :۔ شعر و ادب کا انتہائی پاکیزہ اور اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ کسی زمانہ میں خود بھی شعر کہتے تھے۔ (کسی دوسری فرصت میں اس پر ان شاء اللہ مفصل گفتگو کروں گا) عربی میں بھی انہوں نے اشعار کہے۔ طنزو مزاح سے بھرپور شاعری بھی کی۔ وہ ایک ماہر نقاد بھی تھے ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے انہیں ذہانت و فطانت سے وافر حصہ عطا کیا تھا کہ ہر صنفِ ادب میں انہوں نے کوئی نہ کوئی یادگار چھوڑی ہے، جو شعر انہوں نے بچپن یا جوانی میں یاد کئے آج بھی ان کی لوحِ دماغ پر نقش تھے گفتگو کے دوران ’’تقریر کے دوران‘‘ خطبہ جمعہ میں وہ اس خوبصورتی سے عربی، فارسی، اردو اور پنجابی کے اشعار استعمال کرتے تھے کہ سامعین تصویر حیرت بنے رہ جاتے تھے۔ آپ نے جو جو شعر جس جس موقع پر استعمال کیا یوں معلوم ہوتا کہ شاعر نے یہ اس موقع کی مناسبت سے کہا تھا۔ شعر کی بحروں اور اوزان و قوافی پر انہیں مکمل عبور حاصل تھا۔ ان کے سامنے کوئی غلط شعر پڑھتا تو فوراً فرماتے اس شعر میں جھول ہے۔ اگر کبھی اچھا شعر سناتا تو جی کھول کر اس کی داد دیتے۔
زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے