گذشتہ دنوں تھرڈ ورلڈ سالیڈیرٹی کی طرف سے منعقدہ دو سیمینار میں شرکت کا موقع ملا، ایک کا موضوع اسلام کا سیاست میں کردار تھا، جس میں آکسفورڈ اورکیمبرج یونیورسٹی کے اساتذہ کے علاوہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈر، صحافی اور دیگر لوگ موجود تھے جبکہ دوسرے سیمینار میں پاکستان میں آئندہ متوقع انتخابات کو مانیٹر کرنے والی ایک NGO پتن کے سربراہ سرور باری تھے۔جنہوں نے اپنے تنظیمی ڈھانچے اور انتخابات کی مانیٹرنگ کے لئے انتظامات پر تفصیلی روشنی ڈالی جو کہ متاثر کن تھی جس میں سب سے اہم اور دلچسپ پہلو یہ تھا کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں تمام سیاسی پارٹیوں کے طریقہ سیاست میں نظریے یا آئیڈیالوجی کا فقدان ہے۔ جس طرح 1970 ء اور 1977 ء کے انتخابات میں سیاسی پارٹیاں ایسے منشوررکھتی تھیں۔ جس سے سیاست میں نظریے پر بات ہوتی تھی اب وہ چیزیں سیاست سے خارج ہوچکی ہیں۔ مجھے بھی یاد ہے کہ اس زمانے میں جب پی پی پی نے سوشلزم کا نعرہ لگایا تو مذہبی جماعتوں نے اس نعرے کو ملحدانہ قرار دیا اور وہ پیپلزپارٹی کو کمیونسٹوں کی پارٹی کہتے تھے پاکستان کی سیاست موقع پرستی میں تبدیل ہوچکی ہے جہاں نظریئے یا اصول کی بات کرنے والے کو سادہ لوح سمجھا جاتا ہے اور چالو اور کھڑے پاؤں جھوٹ بولنے والے کو کامیاب اور ہوشیار سیاستدان مانا جاتا ہے۔ بلکہ سیاستدان ٹی وی کے ٹاک شوز کے علاوہ آپس میں سیاست پر بہت کم بات کرتے ہیں۔ زیادہ تر کاروباری اور مختلف پراجیکٹ سے مال بنانے کی گفتگو ہو رہی ہوتی ہے پہلے وقتوں میں پاکستان میں سیاسی پارٹیاں ، ٹریڈ یونینز ، طلبہ تنظیمیں غرض ہر جگہ لیفٹ اور رائٹ کے حوالے سے سیاست تقسیم تھی اب پاکستانی سیاستدان عام کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ اب کون سا لیفٹ اور رائٹ ہے یہ تو پرانی بات ہوچکی ہے حالانکہ حقائق ایسے نہیں ہیں اگر آپ یورپ کی جمہوریتوں کو بھی دیکھیں جہاں جمہوریتیں اپنی بلوغت میں ہی وہاں بڑے جاندار طریقے سے لیفٹ اوررائٹ کی سیاسی تقسیم موجود ہے ۔ فرانس ، جرمنی ،ہالینڈ میں تو لیفٹ کے لیڈر کھلم کھلا خود کو سوشلسٹ کہتے ہیں۔ انہیں نہ تو شرم محسوس ہوتی ہے نہ ہی وہ سوشلسٹ ہونے کو قصہ پارینہ قرار دیتے ہیں گو کہ یورپ میں سوشلسٹ ہونے کا نعرہ کلاسیکل سوشلزم کے معانی میں نہیں لیا جاتا۔ البتہ یورپی لیفٹ کے پبلک ویلفیئر کے حوالے سے بہت سے People Friendly نقاط ہوتے ہیں۔ اس طرح کی تمام بحثیں اور ایجنڈے پاکستان کی سیاست میں سے صاف ہوچکے ہیں۔ حکمران طبقے نے جنرل ضیا کے دور سے لیکر اب تک مسلسل شعوری کوشش سے اس تقسیم میں لیفٹ اور لبرل کی اصطلاحات کی ختم کردی ہیں اور اب سیاست میں مذہب کے کردار پرزیادہ بات ہوتی ہے جو کہ میرے گذشتہ دنوں شرکت کرنے والے تھرڈ ورلڈ سالیڈیرٹی کے دوسرے سیمینار کا موضوع تھا۔ جس میں ڈاکٹر کامران اور ڈاکٹر اشتیاق نے بڑی دلچسپ گفتگو کی اور پاکستان کی سیاست میں بڑھتے ہوئے مذہبی اثرات پر سیر حاصل روشنی ڈالی مذہبی سیاست کرنے والے علامہ اقبال کا یہ شعر ” جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی، کو ہر جگہ اپنی سیاست کے جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور مذہب کو میدان سیاست میں گھسیٹ لاتے ہیں ان کے ذہن میں جو سیاسی اسلام ہے اسے نظام کے طور پر نافذ تو کرنا چاہتے ہیں لیکن نہ تو اس پر کسی کو تنقید کی اجازت ہے نہ ہی بحث مباحثے کی گذشتہ 35 برسوں میں پاکستان کی سیاست میں مذہب کا عنصر مضبوط ہوا ہے۔ گو کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کی انتخابی مقبولیت بہت کم ہے لوگ انہیں اپنے مسائل کا نجات دہندہ نہیں سمجھتے۔ تاہم مذہب کے جبری اور متشدد استعمال سے نہ صرف فرقہ واریت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ مذہب کی سٹریٹ قبولیت کو بھی بڑھاوا ملا ہے اور عوام کا بڑا حصہ اس بات پر قائل ہوچکا ہے کہ ان کے بڑھتے ہوئے مسائل کی اصل وجہ ان کی مذہب سے دوری ہے اوریہ کہ یہ سب مصائب ان کی غلطیوں اور اللہ کی ناراضگی کا نتیجہ ہیں۔ دوسری جانب مذہبی لوگو نے بڑی ہوشیاری سے سیکولر سیاست کو مروڑ کے لادینیت اور دہریت کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور عوام کو مسخ شدہ مطالب پر قائل کررکھا ہے جس کی وجہ سے سیاست سے سیکولر ازم خارج ہو چکا ہے، اس توڑے مروڑے مفہوم کو لوگوں کے ذہنوں میں قائم رکھنے کے لئے گروہ پورا پہرہ دیتا ہے تحریک ختم نبوت برطانیہ کے ایک عہدے دار بھی اس سیمینار میں موجود تھے۔ انہوں نے جب یہ بات کہی کہ پاکستان کے مدرسوں کا انتہا پسندی کی سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہے تو ڈاکٹر کامران نے اس کا ٹھوس انداز میں جواب دیا اور پورے حوالے دیکر بتایا کہ پاکستان کے تمام بڑے مدارس کے سربراہان دراصل انہیں مدارس کے ہی تربیت یافتہ ہیں اور یہی مدارس انتہا پسند مکتبہ فکر کے پہرے دار بھی ہیں۔ برطانیہ اور خصوصی طور پر لندن میں اس قسم کے سیمینار اس لئے بھی کار آمد ہوتے ہیں کہ ایسے موضوعات پر یہاں کھل کر بات چیت ممکن ہو۔ آزاد معاشروں کے فائدے ہیں۔ اس قسم کی بات چیت پاکستان میں رہتے ہوئے نہ تو کسی سیمینار میں ہوتی ہے نہ ہی میڈیا کسی قسم کا خطرہ مول لیتا ہے کیونکہ وہاں رہتے ہوئے کسی قسم کی آزاد گفتگو انفرادی طور پر بھی اور ادارے کے طور پر بھی ہر طرح کے خطرناک اور جان لیوا ماحول پیدا کرسکتی ہے۔ حتیٰ کہ تعلیمی اداروں میں بھی جہاں اساتذہ مذہب سے متصادم کسی موضوع کو ایک حد سے زیادہ نہیں پڑھا سکتے۔ پاکستان کی طلبہ تنظیموں میں جو مذہبی سیاسی جماعتوں کے سٹوڈنٹ ونگ ہیں۔ وہ فوراً ایسے اساتذہ کا محاسبہ شروع کردیتے ہیں جو ان کے مذہبی نظریات کے خلاف ہو۔ مجھے یاد ہے 1980 ء کی دہائی میں یونیورسٹیوں کے ایسے کئی اساتذہ کو محض اس بنا پر انتقام کا نشانہ بنایا گیا اورملازمتوں سے فارغ کردیا گیا تھا کیونکہ وہ ان تنظیموں کے من پسند نظریات نہیں رکھتے تھے۔ ان میں پنجاب یونیورسٹی سے پروفیسر خالد محمود، مشاہد حسین اور ڈاکٹر ساجد نصیر قابل ذکر ہیں۔ اس زمانے میں ہم سمجھتے تھے کہ یہ سارا Phenomenon جنرل ضیاء کے دور تک محدود رہے گا کیونکہ جماعت اسلامی جنرل ضیاء کی بی ٹیم کے طور پر کام کرتی تھی اور جہاں جہاں طلبہ تنظیموں اور ٹریڈ یونینز میں ان کے Wings تھے وہ حساس ادروں کے لئے جاسوسی کاکام بھی کرتے تھے مجھے جنرل ضیاء کے دور میں جس سازش کیس میں ملوث کیا گیا تھا ۔ اس کے ٹرائل کے دوران ایسی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی فائلیں بھی ریکارڈ پر ملیں جن میں میری یونیورسٹی کی تمام سرگرمیاں درج تھیں اور یہ تمام رپورٹیں میرے ساتھی طلبہ بناکر بھیجتے تھے اس طرح طلبہ تنظیمیں آمریت کے تحفظ کے لئے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کیا کرتی تھیں اپنے اسی طرز سیاست کو وہ مذہب کی سیاست کے ساتھ جوڑتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان کو سیاست میں سے برداشت خارج ہوچکی ہے اور مسائل کا نظریاتی بنیادوں پر حل ممکن نہیں رہا۔ محض سطحی اور Cosmatic Change پر بات ہوتی ہے۔ وہ پیپلزپارٹی کرے یا تحریک انصاف یا کوئی اور پارٹی سیاست سے جدت خارج ہوچکی ہے۔