• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے بحث و مباحثہ جاری ہے، علاوہ ازیں نیب قوانین میں تبدیلیوں کی خبریں بھی گرم ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں حکومت کی نسبت اپوزیشن جماعتیں زیادہ بیان بازی کر رہی ہیں خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ایک جیسے بیانات سامنے آرہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے بھی اس بارے میں سخت موقف کا اظہار کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ حکومت اٹھارہویں ترمیم کو ختم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی کیونکہ ایک تو یہ آئین کا حصہ ہے، دوسرا یہ کہ پا رلیمنٹ میں حکومت کے پاس اس مقصد کے لئے سادہ اکثریت بھی نہیں ہے پھر وہ کیونکر اٹھارہویں ترمیم کی بات کرتی ہے۔ یہ محض ایک شوشہ ہے۔ نیز یہ کہ موجودہ حالات میں یہ شوشہ چھوڑ کر حکومت درپیش مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن بظاہر تو یہ بیانات دے رہی ہیں لیکن اندرونی طور پر معاملات کچھ اور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم نے بعض معاملات میں صوبوں کو بااختیار تو بنایا لیکن اس سے وفاق کمزور ہو گیا اور صوبے بھی ان اختیارات سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ان وجوہات کی بنا پر نقصان تو ملک اور قوم کا ہو رہا ہے۔ ممکن ہے اٹھارہویں ترمیم اچھی نیت سے کی گئی ہو لیکن اس کے ما بعد نقصانات کو اس وقت سامنے نہیں رکھا گیا جو اب سامنے آئے ہیں۔

اسی طرح اٹھاون ٹو بی نہایت اہم معاملہ ہے، اس میں صدر مملکت کے اختیارات کو ختم کیا گیا اور وزیراعظم کو خود مختاری دی گئی ہے۔ اب اگر کسی حکمران جماعت کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے، اسکی مطلوبہ عددی برتری ہے تو وہ جو بھی کرے اسکو سوائے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ تیسری بات نیب قوانین میں تبدیلی کی ہے۔ ذرائع بتا رہے ہیں کہ اس وقت ان تینوں ایشوز پر کام ہو رہا ہے جو عوام سے تو ابھی چھپائے گئے ہیں لیکن اپوزیشن جماعتوں کو معلوم ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے معاملے پر بھی کام ہو رہا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ان تمام معاملات پر بیک ڈور رابطے ہوئے ہیں اور باہمی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے لیکن جن باتوں کا اظہار اور اقرار کسی طرف سے بھی نہیں ہو رہا وہ رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ان تمام معاملات خصوصاً اٹھارہویں ترمیم کی حمایت کرنے کیلئے مطالبات کی ایک فہرست تیار کر رہی ہیں جو آنے والے چند دنوں میں سامنے آ جائیگی۔ اسکے لئے اپوزیشن جماعتیں حکومت پر دبائو بڑھانے کی کوششیں شروع کرینگی۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کے بیانات اور حالیہ پریس کانفرنس میں تند و تیز لہجہ اس دبائو کی ابتدا ہے۔ ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں کے مطالبات میں چند باتیں مشترک ہیں، ان میں سنائی گئی سزائوں کا خاتمہ، پارلیمنٹ اور وزیراعظم کی مدت چار سال کرنے، جاری مقدمات کو ختم کرنا اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مریم نواز کی اہلیت اور چند دیگر مطالبات شامل ہیں۔

البتہ نیب قوانین میں تبدیلیوں پر سب متفق ہیں جن میں اہم یہ ہے کہ چیئرمین نیب کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنیکا اختیار ختم کیا جائے، احتساب عدالتوں کو ضمانت دینے کا اختیار حاصل ہو، نیب کتنے سال تک کے پرانے کیسوں اور درخواستوں پر کارروائی کرنے کا مجاز ہوگا اور کتنی رقم سے زیادہ کے خورد برد پر نیب کارروائی کر سکے گا۔ نیز ثبوت کے بغیر کسی کو گرفتار نہ کرنا اور ریمانڈ کی مدت جیسے معاملات پر غور اور مشاورت بھی جاری ہے۔ اپوزیشن کے مطالبات کو کس حد تک ماننا یا مسترد کرنا ہے، وزیراعظم کی مرضی پر منحصر ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں بعض اہم رہنما بہت سختی سے ان مطالبات پر قائم رہنے کے حق میں نہیں۔ اور اگر دونوں جماعتوں کے قائدین ان مطالبات پر ڈٹ جاتے ہیں تو امکان ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں بغاوت ہو جائے۔ بہرحال یہ بات اٹل ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے معاملے کو روکنا شاید ممکن نہ ہو۔آنے والے دنوں میں بعض اہم تبدیلیوں کا بھی امکان ہے۔ حکومتی سطح پر آئندہ دنوں میں بعض وزرا، مشیروں اور معاونین خصوصی کے عہدوں میں تبدیلیاں ہو سکتی ہیں اور بعض کو فارغ بھی کیا جا سکتا ہے۔

آنے والے دنوں یا عید الفطر کے بعد بعض اہم افراد کی گرفتاریوں کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف لاک ڈائون میں نرمی کی وجہ سے کسی حد تک کاروبارِ زندگی کا پہیہ تو چل پڑا ہے لیکن اب بھی بہت سے کاروبار بند ہیں۔ اس نرمی کی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلنے میں نمایاں تیزی آئی ہے۔ اس وائرس سے متاثر ہونے والوں اور مرنے والوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اب دنیا کے سامنے دو آپشن ہیں؛ معیشت اور لوگوں کے روزگار کو دیکھیں یا کورونا وائرس سے ہونے والے جانی و معاشرتی نقصانات۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس موذی وبا سے نجات دلا دے، آمین!

تازہ ترین