• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیرزادہ شریف الحسن عثمانی، سکھر

غالباً تیسری یا چوتھی جماعت کی اُردو کی کتاب میں ہم نےایک سبق پڑھا ، جس میں ایک معصوم بچّہ عید کے لیے خاص طور پر بنوائی گئی اپنی نئی ٹوپی، والدین کو بتائے بغیر اپنے غریب، یتیم دوست کو دے دیتا ہے ۔ جب عید پروالدین اس سے نئی ٹوپی نہ پہننے کی وجہ پوچھتے ہیں، تو وہ معصومیت سے جواب دیتاہے،’’ابّو! میرے پاس تو پہلے ہی کئی ٹوپیاں ہیں، مگر میرے دوست کے پاس نہ تو کوئی ٹوپی ہے اور نہ ہی اُس کے والدین اُسے خرید کر دے سکتے ہیں،لہٰذا مَیں اُسےاپنی ٹوپی دے آیا ہوں۔‘‘یہ سُن کر والدین خوش ہوکر اُسے شاباش دیتے ہیں۔لگتا ہے کہہ ہمیں آج پھر یہ بھولا بسرا سبق یاد کرنے کی ضرورت ہے۔حالات کا تقاضا یہی ہے کہ ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ کتاب کے اس ورق پر پڑی عشروں کی دھول جھاڑ کر ایک بار پھرسے اسے دہرایا جائےکہ یہ عید اس سے قبل آنے والی عیدوں سے بالکل مختلف ہے۔ کورونا کے خوف اور تباہ کاریوں نے دُنیا بَھر کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے۔ کئی مُمالک کی طرح پاکستان میں بھی حالات اور معمولات بدل کر رہ گئے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ اس بار ہم سب بھی اپنا اپنا انداز بدلیں اور وہ طرزِعمل اپنائیں، جو وقت کی ضرورت ہے۔

خوشی اور مسّرت کے اظہار اور اس میں اضافے کے لیے گزشتہ ہر عید پر ہم نے جو چاہا، سو کیا۔ والدین، اولاد، دوست احباب، رشتے داروں، متعلقین اور خود کو خوش کرنے کے لیے ہم نے دِل کھول کر خرچ کیا۔ خریداری، کھانے پینے، ملنے جُلنے، سیروتفریح اور دعوتوں کا اہتمام کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ جانے کتنی ہی عیدیں ہم اپنی خواہشات کے مطابق اپنے طریقے سے منا چُکے ہیں، لیکن یہ عیدبالکل ہی الگ ہے ۔لاک ڈاؤن کے سبب ہم نے جو وقت گزرا اور گزار رہے ہیں، وہ کسی کے وہم و گمان اور خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔ 

کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ہم سب اپنے ہی گھروں میں اپنی حفاظت کی خاطر خود کو’’ نظربند‘‘ کرلیں گے۔اپنے ہی مُلک میں اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں ہماری گلی کوچوں کی ناکہ بندی ہوگی، تاکہ ہم آپس میں ملنے جُلنے سے باز رہ سکیں۔ ہماری تمام درس گاہوں اور عبادت گاہوں کے دروازے ہم پر بند ہو جائیں گے۔ہم خود اپنی دکانوں، کارخانوں اور دفاتر پر مہینوں کے لیے تالے ڈال دیں گے۔ ریل گاڑیوں، بسوں اور ٹرکوں کے پہیے جام ہوجائیں گے، جہاز تک اُڑان بَھرنا بھول جائیں گے۔ نظامِ حیات مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔ مگر یہ سب کچھ صرف ہمارے وطن ہی میں نہیں، پوری دُنیا میں ہوا ہے۔ 

بڑے بڑے طاقت وَر، مضبوط، جدید اور دولت مند مُمالک نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اس وائرس نے سائنس اور طب کے محققین کو بے بس کر ڈالا ۔ دُنیا بھر میں لاکھوں افراد اس کا شکار بنتے چلے گئے۔ کروڑوں انسان، مہینوں کے لیے محصور ہو کر رہ گئے، جن میں ہم سب بھی شامل ہیں۔ تقریباً سب نے اس صُورتِ حال کے ہاتھوں بڑے بڑے مسائل کا سامنا کیا، لیکن حقیقتاًغریب اور محنت کش طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ یومیہ اجرت پر اپنے گھر کا چولھا جلانے والوں، تن خواہ دار ملازمین، چھوٹے دکان داروں اور کم آمدنی والوں کے لیے یہ سب کچھ کسی بھیانک عذاب سے کم نہیں۔ ان کے لیے تو ویسے بھی زندگی آسان نہیں تھی ، لیکن اس وبا کی آمد کے بعد ان پر جو بیتی، انہوں نے جو سہا، ہم ان پریشانیوں اور مصائب کا اندازہ تک نہیں لگا سکتے، جن کا وہ شکار ہیں۔ ایسے میں ہم کس طرح عید کی بھرپور خوشیاں منائیں؟ یہ وقت کا سب سے اہم سوال ہے اور تاریخ اس کے جواب کی منتظر ہے۔

ایک مرتبہ ایک مال دار شخص کے دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازے پر اس نے پریشان حال پڑوسی کوکھڑا پایا، جس نے اس سے کچھ رقم ادھار طلب کی، جواس نے دےدی، لیکن پڑوسی کے جانے کے بعد وہ دیر تک پیچ و تاب کھاتا رہا۔ اُس کی بیوی نےکہا ،رقم دے کر خود پراتنا غصّہ کرنے سے تو کہیں بہتر ہوتا کہ آپ اس سے معذرت کرلیتے۔ مال دار شخص نے پلٹ کرجواب، ’’بات رقم کی نہیں،مجھے خودپر اس لیے غصّہ آ رہا ہے کہ مَیں کس طرح اپنی دیوار کے سائے میں رہنے والے اپنے مسلمان بھائی سے غافل ہوگیا کہ اسے اپنی عزّتِ نفس کچل کر میرے پاس چل کر آنا پڑا، مَیں نے کیوں ایسی نوبت آنے دی؟ مَیں نے کیوں کر اس کے حالات کی خبر نہ رکھی؟‘‘توآج اپنے پڑوسیوں، رشتے داروں، دوست احباب ، ملازمین اور تمام نادار افراد کے بارے میں ہمارے جذبات اور سوچ کچھ ایسی ہی ہونی چاہیے۔ جب، جہاں، جیسے اور جتنا ہوسکے ،کسی کے کام آنا چاہیے۔ ہماری بے حسی، سنگ دِلی اور غفلت کے کئی واقعات ہمیں تاریخ میں پڑھنے کو مل جائیں گے۔ 

اس بار اپنی ہم دردی، ایثار اور قربانی کا سبق ہمیں تاریخ کو پڑھانا چاہیے۔ ہمارے نبی کریمﷺکی تعلیم ہے، ’’تمہارے پاس تمہاری ضرورت سے زیادہ جو کچھ ہے، وہ تمہارے پاس مستحقین کی امانت ہے۔‘‘توہمیں اس بار یہ امانت ان کے حق داروں تک پہنچانی ہوگی۔ مدد کے نام پر نہیں، تعاون سمجھ کر۔ دُنیا دکھاوے کے لیے نہیں، اپنے ربّ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے۔تصویریں کھنچوا کر، ویڈیو بنوا کر فیس بُک پر اسٹیٹس لگانے کی نیّت سے نہیں، اپنے خدا کے یہاں اپنا ’’اسٹیٹس‘‘ بہتر بنانے کے لیے۔ ترس کھا کر نہیں، ان کے درد کو اپنا درد محسوس کر کے ہمیں اُن کا حق ان تک پہنچانا ہوگا۔ 

اس بات کا انتظار کیے بنا کہ کوئی آکر ہمارا دروازہ کھٹکٹکائے، ہمیں خود ان کے دَر پر دستک دینا ہوگی۔ خود کو اور اپنے پیاروں کو خوش کرنے کے لیے تو ہم بہت سی عیدیں منا چُکے ہیں۔ اس بار عید کو اپنے ربّ کو خوش نودی کے لیے وقف کردینا چاہیے۔ یہی وقت کے سوال کا بہترین جواب ہوگا کہ اس بار ہمارا ارادہ عید منانے کا نہیں ، اسے سب کے لیے ’’عید‘‘ بنانے کا ہے۔

ایک بار شادی بیاہ کے موقعے پر بے جا اسراف کے حوالے سے نمودونمایش اورفضول رسومات کی بات چل رہی تھی، ایسے میں ایک صاحب نے اسے اپنی مجبوری بتاتے ہوئے یہ دلیل تراشی،’’بھائی! سادگی کے بارے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کادِل تو سب کا چاہتا ہے، لیکن خوشی اور غم کے مواقع پر زمینی حقائق اور وقت کے تقاضوں کو یک سر نظر انداز کر کے ہم خود کو دُنیا سے نرالا ثابت نہیں کر سکتے۔ نہ چاہ کر بھی ہمیں دُنیا کے ساتھ چلنا ہی پڑتا ہے۔‘‘ تو آج زمینی حقائق، وقت کے تقاضے، دُنیا کا چلن اور اسلام کی تعلیمات سبھی کچھ ’’ایک پیج‘‘پر ہیں، تو کیوں نہ اس بار ہم ان سب باتوںکی مانگ پوری کرکے عید منائیںاوراپنے مسلمان بھائیوںکے لیے جتنا ممکن ہوسکے بطور’’عیدی‘‘ ان کی مدد کردیں۔

تازہ ترین