• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سیاسی دانشوروں نے ملکی سیاسی تاریخ میں ’’منتخب حکومتوں کے واحد عشرے‘‘ 2008تا 18ء میں اپنی سیاسی تحریروں و کلام میں جو بیانیے ارادتاً تشکیل دیے یا اس ابلاغ میں سیاسی جملوں کی تکرار سے کچھ غیر ارادی طور پر بیانیوں میں ڈھل گئے۔

ان میں جمہوریت پسندوں کیلئے یہ خوب تھا کہ ’’بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے‘‘ اگرچہ اس میں انہیں یہ ماننا پڑا کہ آمریت بھی بہتر ہو سکتی ہے لیکن متذکرہ عشرہ بہترین آمریت 1999-2008کے اختتام پر پے درپے ڈیزاسٹرز کے بعد شروع ہوا تھا، سو یہ بیانیہ خوب بھا گیا اور اسٹیٹس کو کی روایتی سیاسی قوتوں (حکومت و اپوزیشن) نے اس پر کامل و غیر علانیہ اتفاق کرکے وہ دھما چوکڑی مچائی کہ بیانیہ اپنی کشش اور وقتی اثر دکھانے کے بعد بالآخر بے اثر ہو کر پٹ گیا، فرینڈلی اپوزیشن اسی کا انڈا یا بچہ تھی۔

 ہوا یوں کہ جنگ/جیو اور دی نیوز کے ذریعے پاکستان میں پاناما لیکس کی بریکنگ نیوز کی تمام تر تفصیلات آشکار کرنے کے ایڈیٹر انچیف میرشکیل الرحمٰن کے گرین سگنل نے بدترین جمہوریت کو بدترین کے طور پر ہی پیش کیا، بدترین جمہوریتوں میں کرپشن کی غضبناک نیوز اسٹوریز تو پہلے ہی ملکی میڈیا کے سب سے بڑے گروپ کے تینوں متذکرہ ذرائع میں نمایاں اور مسلسل جگہ بنا چکی تھیں اب اس میں کڑے احتساب کے عمران خانی مطالبے اور کرپٹ حکومتوں کی بے اثر اور پھسپھسی وضاحتوں کا اضافہ ہو گیا۔

 خان صاحب نے تو سیاسی فائدہ خوب اٹھایا، ادھر بدترین جمہوریت والی حکومتوں کو ناقابلِ تلافی سیاسی خسارہ ہوا، نتیجتاً عوام آئین کے بنیادی تقاضے لوکل گورنمنٹ کے قیام اور کنسٹرکشن انڈسٹری میں تیزی اور وسعت جیسے آمریت کے دور کے بہترین پہلوئوں کو یاد کرنے لگے گویا کرپشن کے حبس میں میرے جیسے مڈل کلاسیوں کی بھاری تعداد لُو کی دعا مانگتی نظر آئی۔ 

لیکن اس طبقے کی علت یہ ہوتی ہے کہ کم بخت جمہوریت پسند ہی نہیں جمہوریت پرست ہوتے ہیں، بالکل ایسے جیسے بہترین فوجی آمر پورے خلوص و جذبے سے ملکی ترقی کے اہداف پورے کرتے، لازماً ایک مخصوص مقام پر آکر ڈیزاسٹر کی طرف مڑ جاتے ہیں، پھر پے درپے غلطیاں کرتے کسی نہ کسی عوامی تحریک کے نتیجے میں رخصت ہو جاتے ہیں، پھر اسٹیٹس کو میں پھنسے جمہوریت پرست مڈل کلاسیے ’’جمہوریت جمہوریت ہی ہوتی ہے‘‘ پر سر دھنتے اور بدترین جمہوریتوں والی سیاسی جماعتوں کی ’’پرستش‘‘ کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ 

میں خود کو اس ’’مڈل کلاسی سیاسی سوچ اور فیصلہ سازی‘‘ کا مثالی نمونہ سمجھتا ہوں، کیونکہ میری سوچ رائے اور بیانیے میں ڈھل کر سیاسی تحریروں کے ذریعے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی عملی شکل اختیار کرتی ہے اور برسوں سے کر رہی ہے۔

جہاں تک پرویز مشرف صاحب کی ’’بہترین آمریت‘‘ کے مثبت پہلوئوں کا تعلق ہے، ان کا متعارف کرایا گیا منتخب لوکل گورٹمنٹ سسٹم کا قیام، آئین اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق، عوام دوست اور انہیں حقیقی معنوں میں امپاورڈ کرنے کا نظام تھا، جس سے صرف ووٹ ہی نہیں ووٹر کی حیثیت و اہمیت کو بھی تسلیم کیا گیا۔ 

نجی الیکٹرونک میڈیا کی فراخدلانہ اجازت اور اس کے تیز تر فروغ، پھر اسے آزاد رکھنا، ہائر ایجوکیشن کو قومی ایجنڈے کی ترجیح میں لانا، ڈالر کو قابو میں رکھنا اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور قرضوں کو تقریباً اختتام پر لے آنا، مشرف صاحب کی بہترین آمریت کے بڑے کارانِ خیر تھے لیکن پھر وہ عوامی اطمینان کے غافلانہ اطمینان پر خود کو سنبھال نہ پائے۔

پھسلنے لگے اور پھسلتے ہی گئے، ڈیزاسٹر پر ڈیزاسٹر ہونے لگے، بلوچستان، لال مسجد، رائل پام جیسے پُرتعیش اور متنازع پروجیکٹس، نیب کی حدود و قیود، ججز کی گھروں میں نظر بندی، جیو انگلش کی بندش، این آر او اور ایمرجنسی جیسے ڈیزاسٹر نے بڑی بڑی کامیاب سیاسی چالوں سے بنی ’’بہترین آمریت‘‘ نے ’’بدترین آمریت‘‘ کی یاد دلا دی، نیب کی جنگ بند کرنے کی مہم جوئی اور حکومتی کرپشن کی غضب کہانیوں نے میرے جیسے مڈل کلاسیوں سے بہترین آمریت ہضم کرا دی، تاہم مشرف دور کے ڈیزاسٹرز سے ہم پھر بدہضمی میں مبتلا ہو گئے، ایمرجنسی کے خلاف پنجاب یونیورسٹی کے جن 9اساتذہ کے خلاف مقدمے درج ہوئے اس میں بندۂ ناچیز بھی شامل تھا۔ 

ہماری بدہضمی کیلئے بلوچستان ایشو پر مشرف حکومت کی بدترین مس ہینڈلنگ کافی تھی اور لال مسجد کے طرزِ عمل پر شدید اختلاف کے باوجود غریب محصور برقع پوش، ڈنڈا بردار لیکن معصوم بیٹیوں کے خلاف مسلح فورسز کے بدترین استعمال کا غم تو اب بھی ہے۔

آج عزیزم شاگرد حامد میر محوِ حیرت ہیں کہ میں عمران خان کا کھلا قلمی سپورٹر تھا اور وہ بھی جنگ میں اور اب میر شکیل الرحمٰن کی غیر آئینی، غیر قانونی، غیر اخلاقی گرفتاری اور صحافت مخالف اقدام نے مجھے پھر بدہضمی میں مبتلا کر دیا ہے اور میں تبدیلی حکومت سے مایوس ہو گیا ہوں۔

 یہ اپنی جگہ درست ہے، لیکن وہ سچی کہانی جس کے گواہ حامد میر سمیت پاکستانی آسمانِ صحافت پر چمکتے کتنے ہی ستارے جانتے ہیں کہ جب ’’بہترین آمریت‘‘ کے فقط نواب اکبر بگٹی سے محدود تنازعے سے ’’بلوچستان ایشو‘‘ جیسا تباہ کن نتیجہ نکلا جس نے ملکی سلامتی کیلئے بلوچستان پر دہشت گردی کے حملوں سے نمٹنے کا انتہائی کٹھن چیلنج پیدا کر دیا تو میر شکیل الرحمٰن نے بلوچستان کیلئے کمال کی شیئرڈ کوریج پالیسی سے عذاب میں مبتلا صوبے کے کتھارسس کا بھی سائنٹفک اہتمام کیا جو ’’بہترین آمریت‘‘ کے نتائج کو ڈیفیوز کرنے اور شدید خوفزدہ صوبے میں مرہم رکھنے کا نتیجہ خیز اہتمام تھا۔

 حامد سمجھو شیئرڈ پالیسی سننے کیلئے یہ تمہیدی کالم لازم ہے، وگرنہ آپ اور قارئین کو میری پوزیشن بطور ’’شریک جرم‘‘ سمجھنے میں بہت دشواری ہوتی، سو قارئین اور آپ بلوچستان کوریج کی شیئرڈ پالیسی کی تیاری میں اسیر میر شکیل الرحمٰن کے کردار اور اس میں میری ’’معاونت جرم‘‘ کی کہانی جاننے کیلئے اگلے آئین نو کا انتظار کریں۔

تازہ ترین