• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
جون 1991 کی بات ہے کہ راقم الحروف نے لوٹن کو اپنا مسکن بنایا، یہاں پر پچاس ہزار کے قریب مسلمان آباد ہیں جن میں پاکستان، کشمیر، بنگلہ دیش اور بھارت کے باشندے شامل ہیں. اردو بولنے لکھنے اور پڑھنے والوں کی قابل ذکر تعداد بھی موجود ہے، اس لیے نہ صرف لوٹن اور برطانیہ یورپ بلکہ جنگ کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے یہ کالم لوٹن سے دلچسپی رکھنے والے برصغیر کے اندر بسنے والے کئی باشندوں کے لیے بھی شاید دلچسپی کا باعث بنے۔ لوٹن ایک کثیر المذاہب، کثیر الثقافت، کثیر النسل ٹائون ہے، میزبان کمیونٹیز اس قصبے کی خاص طور پر پاکستانی کشمیری کمیونٹی پر بہت مہربان ہے کہ آبادی سے بھی زیادہ تعداد میں لوٹن بارو کونسل میں کونسلرز کی تعداد اس برادری سے ہے جس کا ذکر لوٹن میں ہونے والی قریب قریب ہر وہ تقریب جس میں پاکستان آزاد کشمیر سے مہمانانِ گرامی تشریف لائے ہوتے ہیں وہاں پر بڑے فخر و انبساط سے کیا جاتا ہے تاہم شومئی تقدیر کہ غالباً لوٹن کے پاکستانی کشمیری اپنی آبادی کے تناسب کے مطابق اسی ٹائون ہال کی ملازمتوں میں حصہ دار نہیں بنائے جاسکے، اگر ہیں تو اس کو سامنے لایا جائے تاکہ پھر یہ منفی تاثر بھی ختم ہو جائے، اسی طرح بھاری تعداد کونسل میں موجود ہونے کے باوجود، بشمول میئر اور ایگزیکٹو نہ صرف اس مرتبہ متعدد مرتبہ ماضی میں بھی کمیونٹی یورپ کی سطح کی پسماندہ شمار کی جاتی ہے، ہر چند کہ اکا دکا کونسلرز ایسے ضرور اب بھی موجود ہیں اور ماضی میں بھی جنہوں نے حتی المقدور کمیونٹی کے وسیع تر مفادات کی اپنے تہیں نگہبان بننے کی کوشش کی مگر عمومی صورتحال ہرگز درخشاں نہیں، جس پر کونسلرز کو فوکس ہونے کی ضرورت ہے، یہ بحرحال ایک جملہ معترضہ تھا اب اصل ٹاپک کی طرف آتے ہیں حال تک ایک وقت تھا جب کہ لوکل اکنامی بھاری طور پر آٹو موٹیو انڈسٹری( automotive industry) کا مرکز تھی، ایک وقت میں ایک انٹرنیشنل کمپنی میں 27 ہزار ملازمین کام کرتے تھے اور مزید 10 ہزار ایک اور میں لیکن جیسے جیسے 20 ویں صدی کے آخری چوتھائی میں گلوبلائزیشن وقوع پذیر ہوتی گئی آٹو موٹیو ڈیزائن اور پروڈکشن دوسرے ملکوں کو منتقل ہو گئی اور لوکل بزنس کا رحجان شفٹ ہوکر ٹیکنالوجی اور سروس انڈسٹریز کی طرف منتقل ہوتا گیا۔ لوٹن کا محولہ بالا تعارف، لوٹن، ڈنسٹیبل ، ہاوٹن ریجیس اور نواحی گائوں کے باب میں فرانسیز فرتھ کا بیڈفورڈشائر میں کیا گیا ہے، خیال رہے کہ لندن کے مضافات میں واقع برطانیہ کا ہمارا یہ مشہور و معروف ٹائون لوٹن بیڈفورڈشائر کائونٹی میں واقع ہے، اور فرانسیز فرتھ نے بیڈفورڈشائر فوٹو گرافک میموریز کو پیش کرکے لوکل ہسٹری پر ایک تاریخی کام کیا ہے اس کے مطالعہ سے آپ کو صرف لوٹن ہی نہیں اس کے اردگرد کی زندگی کے تاریخ پارے ملیں گے۔ نیٹ بھی آج کی دنیا میں معلومات کا وسیع ذریعہ ہے، نیٹ سرفنگ : سترہویں صدی سے لوٹن کی شہرت ٹوپیاں بنانے والے قصبہ کے طور پر بہت زیادہ رہی ہے جو لوٹن کی ایک بڑی صنعت کی شکل اختیار کر گئی تھی، 1885 میں بننے والے لوٹن ٹائون فٹبال کلب نے اس کی شہرت کو بلندی تک پہنچا دیا انگلش فٹبال لیگ کی کئی ٹاپ فیلڈز میں یہاں کے کھلاڑیوں کو کھیلنے کے اعزازات ملے کلب کا نک نام دی ہیٹرز( The Hatters) ہیٹ یعنی ٹوپیوں کے نام پر ڈالا گیا لوٹن کی شروعات، جن سیکسنز نے 6ویں صدی میں بیڈفورڈشائر فتح کیا تھا اس دور سے ملتی ہیں، انہوں نے ایک فارم یا سیٹلمنٹ کو دریالی کے ساتھ تخلیق کیا تھا پھر لوٹن بارو کونسل کے آرکائیو کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوٹن کا اولڈ سٹون ایج میں بھی زکر ہے، 1830 میں ہاتھ سے بنی ہوئی ایک کلہاڑی ڈالو فارم لوٹن سے ملی جسے برٹش میوزیم میں محفوظ رکھا گیا ہے، پتھر کے زمانے میں پتھر سے ٹول بنائے جاتے تھے جن کو زراعت کے لیے جانوروں کے ساتھ استعمال کیا جاتا تھا، جیالوجسٹس نے لوٹن میں اس نوعیت کی بے شمار چیزیں برآمد کی تھیں ایسا خام مادہ جن سے ٹولز تیار کیے جاتے تھے دریافت کیے گئے ، دی مڈل سٹون ایج جو ایک ہزار بی سی سے تقریباً چار ہزار بی سی کے عرصے پر محیط ہے اس عرصے میں بھی بعض آثار ملتے ہیں جن کو لوٹن میوزیم میں رکھا گیا ہے، بیڈفورڈشائر ہرٹیج ریکارڈ کو بھی چیک کیا جاسکتا ہے اور ولیم آسٹن کی ہسٹری آف لوٹن 1928، اس طرح جب تاریخ کے صفحات کھنگالیں تو نیو سٹون ایج، آئرن ایج اور مختلف ادوار بشمول ڈارک ایج لوٹن کے نشانات تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ لوٹن کے قابل ذکر طور پر متعدد کھرے اور جگہیں ڈارک ایج سے بھی ملتے ہیں جن کی تین کیٹیگریز ہیں، جن کو ایکسکا واکیٹیڈ سیٹل منٹ سائٹس، ایکسکا وا کیٹیڈ بریل سائٹس اور فائنڈز میں تقسیم کیا گیا ہے، بلیک سوان لین پرچھوٹے سائز کی ایکسکاویشنز (excavations) سے رومن اور اینگلو سیکسن پیریڈز کے پیشوں کے ثبوت ملتے ہیں رومنز نے برطانیہ سے اپنا انخلاء بالآخر 410 اے ڈی میں کیا تھا اس عرصہ اور نارمن کی فتح 1066 کے درمیان کی مدت کو روایتی طور پر ڈارک ایج سے تعبیر کرتے ہیں۔ قدیم پیرش آف لوٹن ملک کے بڑے علاقوں میں تھا، دی پیرش 15 ہزار چار سو 34 ایکڑ زمین پر مشتمل تھا یہ اعداد وشمار Volume II of The Victoria County History for Bedfordshire, published in 1908 میں موجود ہیں اور یہاں پر مختلف قسم کا انجاج اگایا جاتا تھا چلٹرنز کے کونے پر اکثر وٹن بیڈفورڈشائر کے معیار پر واقع ہے اور کافی اونچی سطح پر ہے، سینٹ میری چرچ مقابلتا کافی کم 360 فٹ سمندر کی سطح سے اوپر ہے، لی گریو مارش تقریباً 380 فٹ اونچا ہے ٹاون ہال قریب قریب 390 فٹ سمندر کے لیول سے اوپر ہے، لوٹن کا ماخذ لی ٹن (Lea-ton) ہے جس کے معنی ہیں لی کے کنارے فارم( farm by the Lea) لی دریائے لی ہے جو لوٹن سے بہتا ہے۔یہ نام دسویں صدی میں اینگلو سیکسن کرونیکل میں لیا گیا ہے، سال ہا سال تک یہ نام کئی تبدیلیوں سے گزرا ہے، نیا نام 1195 سے ہے۔ لوٹن 1876 میں ایک میونسپل بارو بنی، جس کا مطلب ہے کہ اسے لوکل گورنمنٹ کے فنکشنز حاصل ہوئے اور پبلک ہیلتھ، پلاننگ اور ٹرانسپورٹ سے بالا ہو کر سروسز کا دائرہ کار وسیع ہو گیا، پہلے میئر ولیم بگ تھے جو لندن کانونٹی بنک کے مینجر تھے، اس بارو کو کامیابی سے 1895،،1925،1933، 1939،اور 1964 میں وسیع کیا گیا جس سے بڑھتی ہوئی آبادی کو سمویا گیا، 1964 میں لوٹن ایک کانونٹی بارو بنا دی گئی جس کے نتیجے میں اسے اضافی پاورز تفویض کی گئیں جو 1889 سے بیڈفورڈشائر کانونٹی کونسل کے دائرہ اختیار میں چلی آ رہی تھیں، ٹائون علامتی اعتبار سے بیڈفورڈشائر کائونٹی سے منسلک رہا ہے 1997 میں یہ ایک یونیٹری اتھارٹی بنی جب کہ 2009 میں کائونٹی میں دودیگر یونیٹری اتھارٹی بیڈفورڈ بارو اور سنٹرل بیڈفورڈشائر کی تشکیل کی گئی ہے، آبادی کے لحاظ سے ریلوے کے باعث اس میں مختلف ادوار میں اضافہ ہوا ہے۔ لوٹن ہسٹری میں 19 تا 21 جولائی 1919، یہ تین ایام بہت اہمیت کے حامل گزرے ہیں، ان دنوں برطانیہ کی تاریخ کے ہنگامے لوٹن میں واقع ہوئے تھے جن کے نتیجے میں لوٹن ٹائون ہال کو آگ لگا دی گئی تھی اس وقت جن لوگوں نے جنگ عظیم میں قربانیاں دی تھیں ان کو ٹائون ہال میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کیلئے پندرہ شلنگ طلب کیے گئےتھے جو اس وقت ایک ہفتے کے مساوی تنخواہ تھی جس پر لوٹن کے بعض لوگوں نے غصے اور اشتعال میں آکر لوٹن کی گلیوں میں احتجاج کیا تھا ور پھر لوٹن ٹائون ہال کو آگ لگا دی تھی جبکہ ایک نزدیکی میوزک دکان سے پیانو بھی لوٹ لیے تھے ساتھ ہی رقص اور میوزک کی دھنوں پر ہجوم یہ راگ الاپنے لگا تھا کہ گھر کو آگ لگی رہنے دو ہجوم پیانو کے اوپر ڈانس کرتا رہا تھا اب گزشتہ سال ان واقعات کی صد سالہ یاد منائی گئی ہے اور لوٹن کونسل کے موجودہ ارباب اختیار کا یہ دعویٰ بھی مشتہر کیا گیا تھا کہ اب اس کونسل کی کوشش ہے کہ جو پروگرام ترتیب دئیے جائیں وہ لوکل لوگوں کی شراکت اور مشورہ جات سے ترتیب دیے جائیں، مگر کیا عملی طور پر واقعی ایسا ہے، کیا جب بعض اہم امور پر فیصلہ جات مقصود ہوتے ہیں تو کیا ان میں کونسلرز اور کونسل ارباب اختیار وسیع مشاورت کا اہتمام کرتے ہیں ایسا صرف پاکستانی کشمیری کونسلرز کونسلرز تک محدود تک نہیں بلک مجموعی طور پر کونسل میں کیا کسی اہم معاملہ پر کوئی اہم فیصلہ کرتے وقت تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ کیا جاتا ہے یا کیا جارہا ہے، یہ سوالات ہم کونسلرز کے لیے سوچنے کے لیے چھوڑ رہے ہیں، اگر واقعی ایسا ہے پھر تو ٹھیک ہے اور اگر ایسا نہیں ہو رہا تو پھر ان کے لیے یہ سوچ اور فکر کا مقام ہونا چاہیے کہ کیا وہ کمیونٹی کی نمائندگی کی بھاری ذمہ داریوں سے کماحقہ عہدہ برآ ہو رہے ہیں، پھر بعض شہریوں کی یہ رائے بھی ہے کہ لوٹن پر اگرچہ کونسل پر حکومت تو لیبر پارٹی کی ہے مگر اکا دکا اہم معاملات پر فیصلے ایسے بھی کر دیے جاتے ہیں جن سے شاید مرکز میں برسراقتدار کنزرویٹو کے فیصلوں کی جھلک نظر آتی ہے، ہمارے خیال میں لوٹن کونسل کے لیبر پارٹی کونسلرز کو اس طرح کے تاثر ابھرنے نہیں دینے چاہئیں اور اہم ترین امور پر فیصلہ جات پر لوٹن کی کثیر عوام کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرنی چاہئے کہ جن کے بھاری ووٹوں سے یہ پارٹی لوٹن میں قتدار کے مزے لیتی ہے یہ امپریشن نہیں ابھرنا چاہیے کہ لیبر پارٹی بھی مقتدر طبقات کی نمائندہ بنتی جا رہی ہے۔
تازہ ترین