• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین سے چند روز کی چھٹی چاہئے اور اس لئے ہرگز نہیں کہ موڈ حرام خوری اور کام چوری کا ہے۔ پڑھائی لکھائی کے کام میں آنکھ کا رول بہت اہم ہے۔ کمال دیکھیں کہ آنکھ نامی اس پرزے کا کبھی غلط استعمال نہ کرنے کے باوجود آنکھیں، خاص طور پر بائیں آنکھ بری طرح ’’مس بی ہیو‘‘ کر رہی ہے۔ گزشتہ دس بارہ دنوں سے اخبار پڑھنا مشکل اور پھر تقریباً ناممکن سا ہو رہا تھا۔ زور زبردستی یا میگنی فائنگ گلاس سے مدد لیتا تو سر دکھنے لگتا اور میں سوچ میں پڑ جاتا کہ سر میں تو ہے ہی کچھ نہیں تو دکھن کس بات کی۔ عزیز از جان آصف عفان سے بات کی تو رسان سے بولا ’’زندگی بھر آپ نے نہ آنکھ ماری، نہ آنکھ اٹھا کر کسی کو دیکھا نہ کبھی کسی کو آنکھیں دکھائیں تو زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ عینک کا نمبر تبدیل ہوگیا ہو، میں ابھی اک ٹاپ کے آئی سپیشلسٹ سے کل کا وقت لے لیتا ہوں‘‘ سو اگلے روز مجھے ڈاکٹر اسد اسلم خان کے حضور پیش کر دیا گیا۔ ڈاکٹر اسد کی اپنی آنکھیں پُرسکون اور چہرہ جی بھر کے شانت تھا جس پر بچوں کی سی معصومیت سایہ فگن تھی آپ میو اسپتال کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں۔مریض کو مختلف قسم کے مراحل سے گزارا گیا۔ یاسین خان اور زاہد چودھری بھی ان سایوں کی طرح ساتھ تھے جو کبھی نہ ہاتھ چھوڑتے ہیں نہ ساتھ۔ رویہ ان دونوں کا بھی ’’گل ای کوئی نئیں‘‘ جیسا تھا لیکن اس وقت ان کے سارے اندازے ’’دھڑام‘‘ ہو گئے جب ڈاکٹر صاحب نے ’’موتیے‘‘ کی خبر سنائی تو بے ساختہ جیدی کی یاد آئی جو چند روز پہلے ہی فوت ہوئے تو بہت دکھ ہوا حالانکہ ملاقات بھی کبھی نہ ہوئی تھی۔ جینئس کسی بھی فیلڈ کا ہو، اس کا بچھڑنا ہمیشہ گراں گزرتا ہے۔ جیدی مرحوم نے ہی کہا تھاہم نے پھولوں کی آرزو کی تھیآنکھ میں موتیا اتر آیالیکن میرے کیس میں تو یہ بھی صحیح نہیں کہ کبھی پھولوں کی آرزو کی ہو۔ ہمیشہ ’’جو آتا ہے آنے دو‘‘ والا موڈ طاری رہا، اس لئے ’’موتیا سن کے بے مزہ نہ ہوا‘‘ لیکن ٹیسٹوں کا سلسلہ شروع ہے۔ ہفتہ کے دن رپورٹس ملیں گی، اتوار کو چھٹی، سوموار کو آپریشن جس میں نہ چیرا چیری ہو گی نہ ٹانکے لگیں گے۔ الٹرا سائونڈ ’’سائیٹ سسٹم‘‘ ٹھیک ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ، تب ان سب کیلئے دعا نکلی کہ ’’رب العالمین ان سب کا بھلا کرے جو انسانوں کیلئے نت نئی آسانیاں فراہم کرتے ہیں‘‘۔بعد از آپریشن احتیاطی تدابیر کے طور پہ آنکھ پر پلاسٹک چڑھانا، کالی عینک لگانا، سر نہ جھکانا شامل ہے۔ سر نہ جھکانے کی وجہ یہ کہ نوزائیدہ آنکھ پر بوجھ نہ پڑے۔ دل ہی دل میں یہ سوچ کر بہت خوش ہوا کہ سر نہ جھکانے کی تو پریکٹس ہی بے شمار اور بہت پرانی ہے۔یہ ساری ’’ڈول‘‘ تین چار دنوں پر مشتمل ہو گی۔ ہاتھ پائوں تو ماروں گا کہ آپ کو بور اور بیزار کرنے کی کوشش جاری رکھوں لیکن اصل فیصلہ تو حالات ہی کریں گے کہ یہی انسان کی اصل اوقات ہے۔جسم کی مشین کا ایک آدھ پرزہ بھی اپ سیٹ ہو جائے تو پوری مشین میں انارکی پھیل جاتی ہے۔ آنکھ تو آنکھ بتیس دانتوں میں سے ایک آدھ بھی بگڑ جائے تو آدمی بغیر کسی لفٹ کے چھت سے جا لگتا ہے۔ حیرت ہے کہ بے وفائی بائیں آنکھ نے کی حالانکہ زندگی بھر رجحان میلان ’’بائیں‘‘ جانب ہی رہا لیکن ہونی ہو کر رہتی ہے۔ پہلے ’’بائیں بازو‘‘ نے دھوکا دیا، اب بائیں آنکھ فلرٹیشن پر اتر آئی ہے۔ ویسے دائو تو دائیں آنکھ بھی لگا گئی ہے لیکن نسبتاً بہت کم۔ یوں تو جسم کا ہر پرزہ ہی طلسم ہوشربا جیسی نعمت ہے لیکن آنکھ کا تو اپنا ہی مقام و مرتبہ ہے۔آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گاجانے والے تو مجھے یاد بہت آئے گااور- ’’جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے‘‘تاج محل کے بارے کسی نے کہا تھا کہ ’’محبت کی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو ہے‘‘خدا جانے کس کی آنکھیں دیکھ کر فیض بولے تھے...’’تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے‘‘آنکھ کا اصل مزہ تو پنجابی میں آتا ہے جب ’’اکھ لڑی بدو بدی‘‘ ہو جائے۔ مولانا عبدالمجید سالک مرحوم کا نواسا میجر جاوید امین میرا بہت ہی پیارا دوست تھا جو بہت جلد رخصت ہو گیا۔ اس نے اس پنجابی گانے کا کیا خوب ترجمہ انگریزی میں کیا تھا۔"EYES FOUGHT PER FORCECHANCE YOU GET SELDOM SELDOMNO BODY HAS SEEN TOMORROWLETʼS ENJOY TODAY"’’اکھ لڑی بدوبدیموقع ملے کدی کدیکل نئیں کسے نے ویکھیمزہ لیئے اج دا‘‘میرے نزدیک اصل آنکھ وہ ہے جو دیکھے کم، روئے زیادہ اور آنسو بھی باہر نہیں اندر گریں لیکن ایسی آنکھ انسانوں کو کم ہی نصیب ہوتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین