• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کی وبا سے عالمی معاشی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ میں اِس موضوع پر مسلسل کالم تحریر کررہا ہوں کیونکہ موجودہ حالات میں کوشش کے باوجود کسی نئے موضوع پر لکھنے کیلئے دل و دماغ آمادہ نہیں۔

ملک اور ملک سے باہر میرے قارئین، بزنس مین اور معیشت دان ہر روز کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے نئے حالات، مستقبل میں اُن کے اثرات اور کراچی میں تیزی سے پھیلتے کورونا وائرس پر مجھ سے معلومات شیئر کررہے ہیں۔

اُن کی خواہش ہے کہ اِس معلومات کو اپنے کالم کا حصہ بنائوں۔ کل میری ایک دوست شہزادی نواز دھانجی جو پاکستان میں سینئر بینکر تھیں اور اب اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ شفٹ ہو گئی ہیں، نے امریکی اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مالی حالات پر مبنی ایک رپورٹ بھیجی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں امریکہ میں چیپٹر 11فائل کرنے والی کمپنیوں کا سونامی شروع ہونے والا ہے۔

امریکی قوانین کے مطابق بینک کرپسی سے پہلے کمپنیوں کو چیپٹر 11فائل کرنا پڑتا ہے۔ بلومبرگ کے مطابق گزشتہ ہفتے ریسٹورنٹ، ڈپارٹمنٹل اسٹورز، ایپرل ٹریڈرز (79فیصد)، آٹوموبائلز(70فیصد)، الیکٹرونکس اپلائنسز(61فیصد) اور آئل اینڈ گیس سیکٹر (28فیصد) کو اپنے لینڈ لارڈز سے 3ماہ فری رینٹل کے نوٹسز ملے ہیں جبکہ کچھ مالز میں کرایہ داروں کو ڈیفالٹرز نوٹسز بھی جاری کئے گئے ہیں جس میں عدم ادائیگی کی صورت میں لیز منسوخ کرکے اسٹورز کو بند کرنا شامل تھا۔

ایک تخمینے کے مطابق صرف اپریل کے مہینے میں رینٹ کی عدم ادائیگی 7.4ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے جو مجموعی رینٹ کا 45فیصد بنتا ہے لہٰذا لینڈ لارڈ اُن کرایہ داروں جنہوں نے اپنے اسٹورز عارضی طور پر بند کیے ہوئے ہیں، کو بینک کرپسی سے بچانے کیلئے رینٹ کی چھوٹ دینے پر مجبور ہیں لیکن کورونا وائرس کے دوران دنیا میں آن لائن بزنس کی ڈیمانڈ میں 10فیصد اضافہ ہورہا ہے جو مستقبل میں آن لائن بزنس کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔

ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی حالیہ رپورٹ ’’ایشین ڈویلپمنٹ آئوٹ لک‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس سے عالمی معیشت کو 5.8کھرب ڈالر سے 8.8کھرب ڈالر کے نقصانات متوقع ہیں جو عالمی جی ڈی پی کا 6.4فیصد سے 9.7فیصد ہے جبکہ اسی رپورٹ میں 158ملین سے 242ملین افراد کے بیروزگار ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ یہ نقصانات اور بیروزگاری کے اعداد و شمار ایشین ڈویلپمنٹ کی گزشتہ ماہ کی رپورٹ سے تقریباً دگنا ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر کورونا وائرس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو سفری بندش اور لاک ڈائون سے ایئر لائنز، ہوٹلز، ٹورازم اور مالی اداروں کا دیوالیہ ہونا اور عالمی مالیاتی بحران دور نہیں۔ اکثر سوال پوچھا جاتا ہے کہ کورونا وائرس کی اس عالمی وبا میں جاپان کیوں نارمل ہے؟ حالانکہ دنیا میں سب سے زیادہ ضعیف افراد جاپان میں پائے جاتے ہیں۔

موجودہ حالات میں جاپان میں دفاتر، فیکٹریاں، ریسٹورنٹس، مالز، بلٹ اور میٹرو ٹرینز اور انٹرنیشنل بارڈرز کھلے ہیں جبکہ اسکول اور پبلک مقامات بند ہیں۔ جاپانیوں کی طرز زندگی کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ جاپان میں بچپن ہی سے بچوں کو کوڈومو ماسک پہننے کو دیا جاتا ہے جو بڑے ہوکر اُن کی عادت بن جاتی ہے۔ جاپانی کلچر میں ملاقات کے وقت ہاتھ ملانا شامل نہیں بلکہ وہ جھک کر استقبال کرتے ہیں۔

سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہیں اور اپنی اِن عادتوں کی وجہ سے آج وہ کورونا وائرس کی وبا سے کافی حد تک محفوظ ہیں۔ ہمیں اور ہمارے بچوں کو بھی مستقبل میں جاپانیوں کی طرح اچھی عادتیں اپنانا ہوں گی جو کورونا کے بعد طرز زندگی کا حصہ بن جائیں گی۔

گزشتہ ہفتے میں نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا، سینئر وزراء ناصر حسین شاہ، سعید غنی، مکیش چائولہ اور اکرام دھاریجو سے چیف منسٹر ہائوس میں ملاقات میں پوچھا کہ ’’کیا یہ صحیح ہے کہ کراچی میں آغا خان اور دیگر اسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے اب کوئی بستر دستیاب نہیں؟‘‘

وزیراعلیٰ سندھ کا جواب ’’ہاں‘‘ میں تھا۔ یہ صورتحال مجھ سمیت کراچی چیمبر کے صدر آغا شہاب، سراج قاسم تیلی اور وفد میں شامل دیگر بزنس لیڈرز کیلئے باعث تشویش تھی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کورونا وائرس سب سے تیزی سے کراچی میں پھیل رہا ہے۔ پاکستان میں اب تک کورونا وائرس کے 89249کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں 33536سندھ سے ہیں جس میں 20827کیسز صرف کراچی سے ہیں۔

اسی طرح کورونا وائرس سے پاکستان میں مجموعی اموات 1838ہوئی ہیں جن میں سندھ میں 575جس میں 353کراچی سے ہیں۔ اِن اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے مجھے خدشہ ہے کہ مستقبل میں کراچی میں کورونا وائرس کے مریضوںکی تعداد تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے اُنہیں طبی سہولتیں ملنا مشکل ہوگا۔ کراچی پاکستان کا صنعتی و معاشی حب ہے اور پاکستان کا 70فیصد ریونیو اسی شہر سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ غریب پرور شہر پورے پاکستان سے آئے ہوئے لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔

کراچی کا باسی ہونے کے ناطے میں وزیراعظم عمران خان، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ تمام ذرائع اور وسائل استعمال کرکے کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے کراچی کے اسپتالوں میں اضافی بستر، آکسیجن اور وینٹی لیٹرز ہنگامی بنیادوں پر فراہم کریں جس کی دستیابی ٹی وی چینلز پر نشر کی جائے تاکہ مریض دھکے کھانے سے بچ سکیں نہیں تو کراچی کا نقصان ملک کیلئے ناقابل برداشت تباہی ثابت ہوگی۔

میری پالیسی سازوں کو تجویز ہے کہ وہ آنے والے بجٹ میں غیرترقیاتی اخراجات کم کرکے صحت کے شعبے کیلئے زیادہ سے زیادہ رقم مختص کریں جو حالات کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

تازہ ترین