• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس نے زندگی کا سفر بہت نیچے سے شروع کیا تھا، اندرونِ سندھ کے ایک شہر سے کراچی جیسے گنجان آباد شہر پہنچنا ہی اس کے خاندان کے لیے جان جوکھوں کاکام تھا لیکن ترقی کی جستجو اور آگے بڑھنے کی لگن اس کے سامنے آنے والی مشکلات کو نہ روک سکی۔ پھر کراچی جیسے شہر میں زندگی کاآغاز بھی ایک چھوٹی سی دکان سے کیا لیکن ہر وقت زندگی میں کچھ کر گزرنے اور آگے بڑھنے کی لگن نے رکنے نہ دیا پھر ماں باپ کی دعائیں بھی رنگ لائیں اور قسمت نے بھی ساتھ دیا کہ چھوٹا سا کاروبار دیکھتے ہی دیکھتے بڑھتا گیا، یہ ایسا کاروبار تھا جس میں نہ صرف دولت تھی بلکہ عزت بھی ایسی کہ سیاست، صحافت اور طاقت کے حلقے اس سے ملنے کے لیے بے تاب رہتے، اور یہ سب اتنے کم وقت میں ہوا تھا کہ دنیا رشک کیا کرتی۔ لیکن کہتے ہیں نہ کہ اچھا وقت بہت تیز چلتا ہے اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، ابھی عمر پچاس برس بھی نہ ہوئی تھی کہ پتہ ہی نہ چلا کب شوگر کا مرض لاحق ہوا، شوگر کا علاج چل ہی رہا تھا کہ دل کے مرض نے بھی آگھیرا۔ زندگی گزارنے میں احتیاط میں اضافہ کیا تو پھر کورونا کی وبا نے ملک میں سر اٹھانا شروع کیا، اس وبا کی سنگینی کے حوالے سے جہاں ایک طرف حکومت اور باشعور لوگ عوام میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے، حکومت لاک ڈائون کے ذریعے لوگوںکو گھر وں میں رہنے کی ہدایت کررہی تھی تو دوسری جانب کچھ ایسے لوگ بھی منظر عام پر آگئے جو سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو کورونا بیماری کے حوالے سے غلط معلومات فراہم کرنے لگے کہ کورونا کوئی بیماری ہی نہیں ہے یہ ایک مہم ہے جس کے ذریعے لوگوں کو مارا جارہا ہے، کسی نے کہا کہ کورونا کے نام پر جعلی انجکشن لگا کر لوگوں کو مارا جارہا ہے، تو کسی نے کہا کہ آدمی پیٹ کا درد لیکر بھی اسپتال جاتا ہے تو اسے کورونا وارڈ میں ڈال کر مار دیا جاتا ہے، کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ کورونا سے مرنے والے مریض کے بدلے اسپتال انتظامیہ کو دس سے پندرہ ہزار ڈالر ملتے ہیں اس لئے اسپتال والے مریضوں کو کورونا کے نام پر مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ سب جھوٹ اور افواہوں کے علاوہ کچھ نہیں، کورونا حقیقت میں ایک خطرناک بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے اور اگر حد سے زیادہ احتیاط نہ کی جائے تو یہ بیماری چند دنوں میں انسان کی زندگی کو ختم کردیتی ہے۔

بہرحال میرے دوست نے کورونا کی وبا کے آغاز میں ہی حکومت سندھ کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے خود کو اور اپنے اہل خانہ کو گھر میں قرنطینہ کرلیا اور ڈیڑھ ماہ تک نہ وہ گھر سے نکلا اور نہ ہی اپنے اہلِ خانہ کو گھر سے نکلنے دیا۔ پورا رمضان اس نے گھر پر ہی گزارا لیکن پھر رمضان المبارک کے آخری جمعے کو اسے اپنی والدین کی بہت یاد ستائی جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے، حکومت نے لاک ڈائون میں نرمی کردی تھی جبکہ سپریم کورٹ نے تو بازار کھولنے کا حکم بھی جاری کردیا تھا لہٰذا اس نے جمعۃ الوداع کی نماز مسجد میں ادا کرنے اور والدین کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لیے قبرستان جانے کا پروگرام بنایا جس کے لیے اس نے کئی ماسک ساتھ رکھے گلوز بھی پہنے۔ پہلے وہ حجام کی دکان پر گیا، حجام کو بھی ماسک پہنایا، کرسی پر سینی ٹائزر سے اسپرے کیا، پھر بال کٹوائے، شیوبھی کرائی، جس کے بعد انتہائی احتیاط کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے مسجد بھی گیا اور پھر نماز کے بعد قبرستان میں والدین کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی، جبکہ قبرستان میں کئی مانگنے والوں کو اللہ کے نام پر پیسے بھی دیے اور ان تمام کاموں سے فارغ ہوکر وہ ایک بار پھر واپس گھر واپس آچکا تھا۔ اسی رات کو اسے احساس ہوا کہ اس سے کوئی غلطی سرزد ہوچکی ہے کیونکہ اسے رات کو بخار چڑھ چکا تھا جو اگلے دن تیز ہوگیا، جسم میں دردبھی بڑھتا جارہا تھا، نارمل دوا سے بھی طبیعت بہتر نہیں ہورہی تھی، دل میں یہی دعا کرتا رہا کہ یہ عام بخار ہو کورونا نہ ہو لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا، اگلی صبح میرے دوست کو سانس لینے میں شدید مشکل پیدا ہوئی اور پھر اسے بڑے اسپتال لے جایا گیا۔ وہ کئی ماہ کی احتیاط کے بعد بھی کورونا وائرس کا شکار ہوچکا تھا اور آج بھی وہ کورونا سے جنگ میں مصروف ہے۔

اس سے گزشتہ روز فون پر بات ہوئی تو اس نے قوم کے لیے یہی پیغام دیا ہے کہ خدارا! کورونا سے ڈریں یہ بہت خطرناک بیماری ہے، یہ آپ کی زندگی کو دنوں میں ختم کرکے رکھ دیتی ہے جو لو گ اس سے بچ جائیں وہ خوش نصیب ہیں لیکن خدارا اس سے لڑنے کا نہ سوچیں، گھروں میں رہیں، رش والی جگہوں سے جانے سے گریز کریں، زیادہ میل جول سے بچیں، ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کریں کیونکہ کچھ پتا نہیں ہے کہ ایک غلط سانس لینے سے کورونا آپ کے اندر سرایت کرجائے اور پھر روح کے ساتھ ہی باہر نکلے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو کورونا جیسی خطرناک وبا سے محفوظ رکھے اور میرے دوست سمیت تمام بیماروں کو زندگی کی جانب واپس لے کر آئے۔ آمین!

تازہ ترین