یورپ میں اشتراکیت کے زوال، وارسا معاہدے میں شامل ممالک کے سرمایہ دارانہ معیشت کو اپنانے، 1990کی دہائی سے چین کی غیر معمولی ترقی اور جدید ریاستوں کے درمیان ترقی اور تجارت کی راہیں کھلنے سے عالمی سطح پر دولت کی فقید المثال پیداوار دیکھنے میں آئی۔ قومی دولت میں اضافہ ہوا لیکن دولت کی تقسیم کا رخ بالائی طبقے کی طرف رہا۔
وسیع تر عالمی تجارت کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کے ہنرمند وں کی آمدنی بڑھی تو ترقی یافتہ ممالک کے غیر ہنرمند افراد کی آمدنی میں کمی آئی۔ یوں ترقی یافتہ ممالک میں بے چینی نے جنم لیا۔ سماجی بے چینی کے نتیجے میں تنگ نظری کو فروغ ملا۔ غیر مسلم دنیا میں اگرچہ خواتین اور گروہی بنیادوں پر نفرت نہیں تھی لیکن وہاں بھی قوم پرستی کے جذبات اور غیر ملکیوں سے نفرت کو فروغ ملا۔
ہم نے عوامی مقبولیت، قوم پرستی، مطلق العنانی حتیٰ کہ فسطائی سوچ رکھنے والے سیاسی رہنمائوں کو ابھرتے دیکھا۔ واجبی فہم و فراست کے مالک ان رہنمائوں کا اپنے ممالک میں گورننس ریکارڈ خراب تھا۔ مقبولیت پسند اور قوم پرست رہنمائوں نے ایسے گروہوں پر توجہ دینا شروع کر دی جن کی مدد سے وہ اقتدار میں آئے تھے۔ وسیع ترعوامی مفاد کو نظر انداز کیا۔
خود پسندی کے شکار جو لوگ کسی شعبے کے ماہر نہ ہوں، کو یقین ہوتا ہے کہ ان کیلئے مسائل حل کرنا بہت آسان ہے۔ بہت سے مقبولیت پسند رہنمائوں کا شمار اسی صف میں ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا خیال تھا کہ اُن کے تمام مسائل کا باعث امریکا میں داخل ہونے والے غیر ملکی ہیں یا امریکا کے اپنے اتحادیوں سے کیے گئے ’’خراب‘‘ تجارتی اور سیکورٹی معاہدے۔
اُن کے ذہن میں تھا کہ امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدے کے تحت زیادہ اشیا برآمد کرنے والا ملک امریکی معیشت کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اسی طرح تارکین وطن امریکیوں کی ملازمتیں ’’چراتے‘‘ ہیں۔ بھارت میں بھی نریندر مودی کے ذہن میں ایک ہی خبط تھا: بھارت کا واحد مسئلہ مسلمان ہیں۔ 2002ء میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے وقت سے ہی مودی کی مسلم دشمنی عیاں تھی لیکن اُن کی سیاسی طاقت کی وجہ صرف یہی نہیں تھی۔
ناتجربہ کار ٹرمپ اور عمران خان کے برعکس نریندر مودی نے گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر کارکردگی دکھائی تھی۔ وہ بھارتی کاروباری افراد کے تعاون سے اپنے قوم پرست ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہے۔
اگرچہ اُنھوں نے بھارت کی معاشی شرح نمو برقرار رکھی لیکن 2016ء میں بڑے کرنسی نوٹوں کو ختم کرنے سے بھارت کی معاشی شرح نمو گر گئی۔ اس دوران مودی کی توپوں کا رخ مسلمانوں کی طرف رہا۔ اُنھوں نے نہ صرف کشمیریوں پر جبر و تشدد روا رکھا بلکہ پورے بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔
ہمارے ہاں عوامی مقبولیت کے دعویدار خاں صاحب کا گزشتہ کچھ برسوں سے ایک ہی دعویٰ ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی ہے۔ یہی نعرہ لگا کر اُنھوں نے اقتدار کا زینہ طے کیا۔
وہ بجٹ خسارے، بہت زیادہ قرضے، اشیائے صرف کی گرانی اور خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ نون کی بنائی گئی میٹروز کو بدعنوانی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا کرتے تھے۔ دعوے سے کہتے کہ اگر قرضہ اور قیمتیں بڑھ رہی ہوں، بجٹ خسارے میں اضافہ ہو رہا ہوتو یہ وزیراعظم کی بدعنوانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
عوام کے ایک حصے نے اُن کی بیان بازی پر یقین کر لیا اور دو سال قبل وہ ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ ان دو برسوں کے دوران پی ٹی آئی نے ایک طرف ملکی معیشت زمیں بوس کر دی تو دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نون کے منصوبوں میں کوئی بدعنوانی تلاش نہ کر سکی۔
اس دوران قرضہ، بجٹ خسارہ اور مہنگائی میں بدترین اضافہ ہوا۔ نامکمل پشاور میٹرو مسلم لیگ نون کی تینوں میٹرو منصوبوں سے زیادہ رقم ہڑپ کر چکی ہے۔
اگر کم رقم میں میٹرو منصوبے کامیابی سے مکمل کرنا نون لیگ کی بدعنوانی تھی تو ادھیڑ بن کا شکار، بلکہ شاہکار پشاور میٹرو تو پی ٹی آئی کی مہان کرپشن کا ثبوت ہونی چاہیے لیکن عوامی مقبولیت کی چادر اُوڑھے پی ٹی آئی قیادت پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتی۔
صدر ٹرمپ کے پاس دکھانے کیلئے تیز معاشی شرح نمو تھی اور پھر اُنھوں نے عالمی معاہدوں سے نکلتے ہوئے اپنے حامیوں کو اپنی فعالیت دکھا دی۔ نریندر مودی کے پاس بھارت کی بڑھتی ہوئی عالمی اہمیت ہے۔ حامیوں کو خوش کرنے کیلئے مسلمانوں پر جبر کی پالیسی ہے۔
اس دوران عمران خان کے پاس اپنے حامیوں کو اس کے سوا دکھانے کیلئے کچھ نہیں کہ اُنھوں نے مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیا ہے۔
تاہم اس وقت کورونا نے ان مقبولیت پسندوں، قوم پرستوں اور مطلق العنان حکمرانوں کے کھوکھلے دعوئوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ سائنسی اور تکنیکی طور پر دنیا کے سب سے جدید ملک امریکا میں کورونا متاثرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
جیربلسونارو کی حکومت میں برازیل میں بھی کورونا کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ تین جون تک کورونا کیسز میں تیز ترین اضافے میں پاکستان کا دنیا میں دوسرا نمبر تھا لیکن آبادی کے فی کس ٹیسٹ کیے جانے کے حساب سے یہ دنیا میں 142ویں نمبر پر سینگال، بھارت، نیپال اور سری لنکا جیسے ممالک سے بھی پیچھے ہے۔
مقبولیت کے زعم کا شکار ان رہنمائوں کواپنی ہی پالیسیوں کے خلاف بیان بازی کرتے دیکھنا افسوسناک بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو ریاستوں کو لاک ڈائون سے ’’آزاد‘‘ کرانے کیلئے اکسایا۔ عمران خان نے اپنی ہی حکومت کے نافذ کردہ لاک ڈائون کے خلاف بیانات دیے۔
مودی نے سائنسدانوں سے کہا کہ وہ تحقیق کریں کہ کیا گنگا کا پانی کووڈ 19کا علاج کر سکتا ہے؟ ادھر کشف و کرامات کے نادر لمحے میں خاں صاحب نے ملک میں سیاحتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کا اعلان کیا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب عالمی پروازیں بند ہیں اور اندرونِ ملک بھی پروازیں گنجائش سے نصف مسافر بٹھا کر پرواز کر رہی ہیں۔
کورونا وائرس نے معیشتوں کو کھربوں ڈالر کا نقصان پہنچا لیکن سب سے بڑھ کر کچھ رہنمائوں کی مطلق العنانی، قوم پرستی اور عوامی مقبولیت کو دھول چٹا دی۔ ممکن ہے کہ اسی آفت سے دنیا میں باصلاحیت جمہوری قیادت ابھرتی دکھائی دے۔