عیشا رانا،کچّا شاہی روڈ، صادق آباد
کچھ لوگوں سے ہمارے دھیان کا ایسا پکّارشتہ ہوتا ہے کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو کر بھی دل سے دُور نہیں ہوتے۔ ہماری یادوں، دُعاؤں میں ہمیشہ شامل رہتے ہیں۔دادا ابّو اور میرا رشتہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ میرے دادا، غلام محمّد ایک انتہائی شریف النّفس اور خوددار انسان تھے۔ بچّوں پر جان چھڑکنے والے ، اعلیٰ اخلاق کے مالک ۔ویسے تو دادا ابّو ہم سب بچّوں ہی کے فیورٹ تھے، لیکن میرا اُن سے اِک الگ ہی رشتہ تھا، قلبی لگاؤ، انسیت، جسے میں الفاظ میں بیان بھی نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کبھی اپنے پوتے، پوتیوں یا نواسے نواسیوں میں فرق نہیں کیا، لیکن وہ مجھے سب سے زیادہ پیار کرتے تھے۔مَیں اُن کی ہر دل عزیز پوتی تھی۔
ایک دفعہ وہ اپنے آبائی گائوں چلے گئے،مگر اگلی ہی صبح بغیر کسی کو بتائے گھر واپس آ گئے۔مجھے دیکھتے ہی گود میں اٹھالیا اور خُوب پیار کیا۔دادا جی کے یوں اچانک بغیر بتائے چلے آنے پر گاؤں میں موجود رشتے دار بھی پریشان تھےکہ جانے انہیں کیا ہوگیا، کہیں کوئی بات تو بُری نہیں لگ گئی، مگر دادا ابّو نے کہا کہ ’’مجھے میری پوتی ،عیشا بہت یاد آ رہی تھی۔اس کے بغیر میرا دل نہیں لگا، اس لیے مَیں واپس لوٹ آیا۔‘‘بعد میں انہوں نے بتایا کہ ’’مَیں نے عیشا کو خواب میں دیکھا تھا،وہ روتے ہوئے مجھے پکار رہی تھی۔ ‘‘ اگر کبھی امّی ان کی موجودگی میں مجھے ڈانٹ دیتیں، تو بس دادا ابّو کے ہاتھوں ان کی شامت آجاتی۔ دادا ابّو ہم سب بچّوں کو اپنے ہاتھ سے لقمے بنا بنا کرکھانا کھلاتے ، بلکہ مجھے تو اپنی گود میں بٹھا کر کھلایا کرتے تھے۔ میرےدادا جی اتنے فہیم اور سلجھی ہوئی شخصیت کے مالک تھے کہ نہ صرف خاندان والے، بلکہ محلّے میں بھی کسی کو کوئی مسئلہ در پیش ہوتا تو وہ بلا جھجھک ان سے مشورہ لینے آجاتا۔
دادا جی اپنے گائوں کے نمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ پنچایت کے فیصلے بھی کیا کرتے تھے۔ہر کسی کی خوشی ، غم میں شریک رہتے۔انہوں نے اپنی زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے، لیکن صبر کا دامن نہ چھوڑا۔دولت کی فراوانی بھی دیکھی اورتنگ دستی بھی ۔پرمیرے تایا جی کی وفات نے ان کی کمر توڑ کے رکھ دی۔اُن کے بعد دادا جی خاصے بیمار رہنے لگے تھے۔ہر وقت انہی کو یاد کرتے اور ساتھ ہی میرے ابّو کو نصیحتیں بھی کرتے کہ ’’میرے بعد تمہیں میری جگہ سنبھالنی ہے، میری تعلیمات کو فراموش نہیں کرنا۔ ‘‘یہی وجہ ہے کہ آج میرے ابّو بھی داداجی ہی کی طرح پوری تندہی سے لوگوں کے مسائل حل کرنےکے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ دادا جی روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ اعتکاف بھی کیا کرتے ، صوم و صلوٰۃ کے سخت پابند تھے۔یکم فروری 2009 ء کو،جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے، اُس دن بھی ہم سب بچّوں پر دَم کیااور قضائے عُمری بھی ادا کی تھی۔جب اُن کی یاد آتی ہے، تو آنکھیں خود بخود ہی نم ہو جاتی ہیںاور بس دل سےیہی دُعا نکلتی ہے کہ ’’اللہ پاک میرے دادا جی کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔‘‘