حکومت نے نا مساعد معاشی حالات کے باوجود اپنی طرف سے ایک اچھا بجٹ پیش کرنے کا دعوی کیا ہے، اس بجٹ کے نمایاں خدوخال کچھ ایسے نہیں ہیں کہ جن کی وجہ سے اسے غیر روایتی بجٹ کہا جاسکے البتہ اسے موجودہ مشکل معاشی حالات میں ایک مناسب میزانیہ قرار دیا جا سکتا ہے، تاہم جنوبی پنجاب میں اس بجٹ کے حوالے سے کچھ زیادہ خوشگوار اثرات سامنے نہیں آئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بجٹ میں زرعی شعبہ کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے حالانکہ یہ وہی شعبہ ہے کہ جسے ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے،اور اب یہ بھی سچ ہے کہ تحریک انصاف نے پچھلے دو بجٹوں میں بھی اس شعبہ کو وہ اہمیت نہیں دی جس کا یہ حقدار ہے،اس بار توٹڈی دل کے حملوں کی وجہ سے زراعت کے شعبہ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت کھادوں،بیجوں اور زرعی اجناس کی بہتر پیداوار کے لیے کسانوں کو آسان شرائط پر قرضے دینے کی کوئی سکیم متعارف کرائی جاتی، بجٹ میں ایسی کوئی مد نہیں رکھی گئی کہ جس سے کسانوں کو کوئی ریلیف مل سکتا ہو۔
ملک میں دوسرابڑا متاثرہ طبقہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کا ہے اس بار تنخواہوں اور پنشن کو بالکل نظر انداز کر دیا گیاہے، حالانکہ افراط زر میں اضافہ ہوا ہےاور مہنگائی کئی گنا بڑھ چکی ہے سرکاری ملازمین میں اس فیصلے پر خاصہ غم و غصہ پایا جاتا ہے اور ملتان میں کلرکوں کی سب سے بڑی تنظیم ’’ایپکا ‘‘ نے حکومت کے خلاف سخت احتجاج کا اعلان کیا ہے،چھوٹے تاجر بھی اس بجٹ کو ظالمانہ قرار دے رہے ہیں انہوں نے اسے ایک ایسا بجٹ قرار دیا ہے جس میں چھوٹے طبقوں کوریلیف دینے کے لیے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
ایک طرف تو یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف کورونا کے بارے میں میں حکومت کی مبہم پالیسیوں سے خوف و ہراس بڑھتا جارہا ہے لاہور میں وزیراعظم کی آمد پر جو اعلی سطحی اجلاس ہو،ا اس میں کوئی دو ٹوک موقف اختیار کرنے کی بجائے پھر وہی ’’اگر مگر‘‘ کی کیفیت برقرار ہی، وزیراعظم عمران خان نے مکمل لاک ڈاؤن کرنے سے ایک بار پھر انکار کیا اور دوسری طرف یہ بھی کہا کہ پہلے سختی نہیں کی گئی، اب ایس او پیز پر عملدرآمد کے لئے سختی کی جائے گی اور اس کے لیے انہوں نے ٹائیگر فورس سے کام لینے کا عندیہ بھی دیا۔
حالانکہ یہ ٹائیگرفورس ابھی تک کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ ملتان میں کورونا کیسز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور نشتر ہسپتال میں تسلسل کے ساتھ اموات بھی بڑھ رہی ہیں جہاں تک ایس او پیز پر عملدرآمد کا تعلق ہے تو اس کی حالت ایسے مردِ بیمار جیسی ہے جو نہ اٹھ سکتا ہے اور نہ چل سکتا ہے،انتظامیہ کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ ہفتہ اور اتوار کو بھی جب مکمل لاک ڈاؤن کی ہدایت کی گئی ہے بازارکھلے رہتے ہیں اور دکانوں پر بغیر حفاظتی اقدامات کی رش لگا رہتا ہے، سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان لاک ڈاؤن میں سختی کی بات کر رہے ہیں۔
اس پر عملدرآمد کون کرائے گا؟ کیا موجودہ انتظامیہ اس امر کی صلاحیت رکھتی ہے ؟ کیا ایک واضح پالیسی کے بغیر انتظامیہ کچھ کرسکتی ہے؟ اوپر سے وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اسد عمر جولائی اور اگست کے مہینوں میں کورونا کیسز کے بارے میں لاکھوں کی تعداد بتا کر عوام کو خوف زدہ کر رہے ہیں، شاید اس کے پیچھے یہ رمز پوشیدہ ہو کہ اس طرح عوام میں کورونا کے حوالے سے سنجیدگی پیدا ہو اور وہ ایس او پیز پر عمل کرنا شروع کردیں، مگر ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ جب تک لوگوں پر سختی نہیں کی جائے گی اس وقت تک وہ اس وبا کو ایک مذاق ہی سمجھتے رہیں گے۔
ایک ایسا مذاق جو بھیانک نتائج کی طرف جارہا ہے، جہاں تک جنوبی پنجاب میں کورونا مریضوں کو ہسپتالوں میں داخل کرنے کی گنجائش کا تعلق ہے تو وہ بھی اب تقریبا ختم ہوتی جارہی ہے مظفرگڑھ میں واقع طیب اردگان ہسپتال جہاں بڑی تعداد میں کورونا مریضوں کو بھیجا جاتا رہا ہے اب وہاں مذیدمریض داخل کرنے کی گنجائش نہیں رہی اور انتظامیہ نے باقاعدہ بورڈ پر لکھ کر اس کا اعلان کردیا ہے اور حالات یہی رہے تو جلد ہی نشتر ہسپتال ملتان میں بھی اس طرح کا بورڈ لگ جائے گا، ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ پورے جنوبی پنجاب میں کسی ایک ہسپتال میں بھی کورونا کے مریضوں کو پلازمہ لگانے کی سہولت موجود نہیں ہے۔
جبکہ لاہور کراچی اور راولپنڈی جیسے شہروں میں یہ سہولت فراہم کی جاچکی ہے اور کئی مریضوں کو ’’پلازمہ ٹرانسفیوژن تھراپی ‘‘کے ذریعے اس موذی مرض سے بچا بھی لیا گیا ہے ملتان میں نشترہسپتال جس کے پاس بڑی بڑی طبی لیبارٹری اور دیگر مطلوبہ سہولیات موجود ہیں یہاں یہ سہولت فراہم کیوں نہیں کی جا رہی ؟نشتر ہسپتال کی انتظامیہ کئی بار یہ وعدے کر چکی ہے کہ عنقریب پلازمہ ٹرانسفیوژن تھراپی شروع کر دی جائے گی مگر ابھی تک یہ کام شروع نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے بہت سے ایسے کورونا مریض جو اپنا مدافعتی نظام کھو چکے ہیں اور اور ان کے لئے واحد راستہ پلازمہ تھراپی کا ہی رہ گیا ہے۔
یہ سہولت نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں،جہاں تک وینٹی لیٹرز کا تعلق ہے تو کورونا کا کوئی عام مریض مریضوں کے دباؤ کی وجہ سے کسی سرکاری ہسپتال میں یہ سہولت حاصل نہیں کرسکتا،البتہ دعوے بہت زیادہ کیے جاتے ہیں کہ ہسپتالوں میںوینٹی لیٹر ز مطلوبہ تعداد سے زیادہ ہیں لیکن زمینی حقائق ہیں کہ جب کسی مریض کو اس کی ضرورت پڑتی ہے تو اسے یہ دستیاب نہیں ہوتا اور وہ کسمپرسی کی حالت میں ہی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے،دوسری جانب ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے کسی بھی ضلع کی انتظامیہ نے ابھی تک ایسی کوئی سرگرمی نہیں دکھائی جس سے یہ اندازہ ہو کہ وہ کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے ایک نئے جذبے سے کام کر رہی ہے،شہروں کے کسی بھی حصے میں بھی کوئی سختی نظر نہیں آتی اور ہر جگہ دے گئے حکومتی احکامات کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، حتی کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی جسے ایک واضح ایس او پی کے تحت کام کرنے کا کہا گیا تھا، کوئی بھی احتیاطی تدابیر اختیار کئے بغیر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ادھر سیاستدانوں میں کورونا وبا کے پھیلنے کی خبریں بھی تسلسل سے آنے لگی ہیں، سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو بھی کورونا کا مرض لاحق ہو چکا ہے جس کا الزام ان کے بیٹے علی قاسم گیلانی نے وزیر اعظم اور نیب کو دیا ہے کہ ان کی وجہ سے انہیں یہ کورونا لاحق ہوا ہے ہے، اس سے پہلے چیف وہپ وایم این اے ملک عامرڈوگر، صوبائی وزیر ڈاکٹر اختر ملک، سابق ایم این اے سید تنویرالحسن گیلانی،پی ٹی آئی کے سٹی صدر ملک عدنا ن ڈوگر، سابق ایم پی اے ڈاکٹر جاوید صدیقی،معطل ایم پی اے سلمان نعیم، وزیرشاہ محمود قریشی کے پرسنل سیکرٹری طیب خان،ایم پی اے بیرسٹر وسیم خان بادوزئی اور کئی دیگر سیاستدان کورونا کی لپیٹ میں آئے۔