• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہا جاتا ہےکہ’’ جوشخص ہرفن مولا ہو،وہ بسا اوقات اپنے اُس فن سے انصاف نہیں کرپاتا، جواس کی وجۂ شہرت بناہو۔‘‘ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ،جن کا عمل اس بات کی نفی کرتا ہے۔اور انہی لوگوں میں سے ایک طارق عزیز بھی تھے۔ وہ فلم، ریڈیو، ٹی وی کے کئی شعبوں سے وابستہ رہے،تو پی ٹی وی کے پہلے انائونسر، نیوزکاسٹر، جزوی پروڈیوسر کا اعزاز بھی اُن کے حصّے میں آیا۔ مختلف پروگرامزکے میزبان اور’’موجد‘‘تھے۔ شاعری بھی کی ،سیاست بھی اوررُکنِ قومی اسمبلی بھی بنے۔ لیکن ان کا اصل میدان ٹی وی ہی تھا۔ 

بنیادی طور پر انہوں نے حقیقی شہرت ٹی وی کے پروگرام ’’نیلام گھر‘‘ہی سے پائی۔ بڑے پردے کا رُخ کیا تو ’’سال گرہ‘‘، ’’انسانیت‘‘،’’ قسم اس وقت کی‘‘،’’ چراغ کہاں ،روشنی کہاں ‘‘اور’’ہارگیا انسان‘‘جیسی فلموںمیں ادا کاری کے جو ہر دِکھائے، بالخصوص ’’سال گرہ ‘‘ اور’’انسانیت ‘‘میںتو بہت ہی جان دار کردارکیے۔پھرشعری مجموعہ ’’ہم زاد دادُکھ‘‘شایع ہوا، جس کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے۔ ؎ہم وہ سیہ بخت ہیں طارقؔ کہ شہر میں… کھولیں دُکاںکفن کی تولوگ مرنا چھوڑ دیں۔

لیکن مستند شعرا نے انہیں کبھی بطور شاعرتسلیم نہیں کیا۔ اسی لیے انہیںمشاعروں میں بھی نہیں بلایا جاتا تھا۔ان کی دوسری کتاب ’’داستان‘‘ان کی زندگی کے حالات واقعات پر مشتمل ہے۔جس میں انہوں نے مختلف ادوار میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو دل چسپ ، معلوماتی قصّوں کی صُورت بیان کیا ہے۔ کالم نگاری بھی کی، لیکن اس شعبے میں بھی مخالفت جاری رہی ۔ رُکنِ قومی اسمبلی بنے تو جاگیرداروں، سرمایہ کاروں، زمین داروں اورکاروباری اشرافیہ نے انہیں خود سے کم ترجانتے ہوئےایوان سےنا مانوس شخص ہی سمجھا اور ایسا ہی رویّہ برتا۔ 

روایتی سیاست دانوں نے اس بات پرغصّے اورناگواری کا اظہار کیا اُن جیسے ’’بڑے‘‘لوگوں میں ایک اداکار کیسے داخل ہوگیا ۔یہ اُن کے یعنی طبقہ ٔاشرافیہ کے ایوان کی تضحیک تھی۔ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے،تو طارق عزیز نے سیاست کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی سے کیا۔ انہیں اور معراج محمّد خان کو بھٹو صاحب کی بھر پورتوجّہ بھی حاصل تھی، لیکن وہ پارٹی کے نظریاتی سیاست دانوں کے ساتھ تھے،اس لیے سازشوں کا شکار ہوگئے۔ پھر وہ میاں نواز شریف کے قریب ہوگئےاور مسلم لیگ کے ٹکٹ پرممبرقومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔تاہم، اب وہ عمران خان کے گرویدہ تھے اور آخری وقت تک انہیں ہی اپنا لیڈر اورپاکستان کا حقیقی ہیروقرار دیتے رہے۔

طارق عزیز نےسیاست کے علاوہ فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں طبع آزمائی کی، لیکن ان شعبوں میں انھیں جو بھی اور جتنی بھی توجّہ حاصل ہوئی ،وہ ٹی وی اورپروگرام ’’نیلام گھر‘‘کےتوسّط سے ہوئی۔ یعنی اگروہ پانی سے چلنے والی گاڑی بھی بنا لیتےتو کا تعارف ان ہی الفاظ میںکروایا جاتا کہ ’’نیلام گھر والے طارق عزیزنے پانی سے چلنے والی گاڑی کا کام یاب تجربہ کیا ہے‘‘۔راول پنڈی کی ایک گنجان آبادی’’جھنڈا چیچی‘‘کئی حوالوں سے معروف ہے۔ یہاں کےاکثرباسی تلاشِ معاش میں بیرونِ مُلک جا گزیں ہوئے۔ علاوہ ازیں، ابتدائی ایّام میں یہاں کے لوگوں نے جو سستی اراضیاں خریدیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی قیمتوں میں خاصااضافہ ہوگیا ، تو اس علاقے کے اکثر لوگوں کا شمار کروڑ پتیوں میں ہونے لگا۔ 

یہاں تک کہ جولوگ ٹیکسی ڈرائیورز تھے،وہ کروڑوں روپے مالیت والی گاڑیوں کے مالک بن گئے،بلکہ سوزوکیاں چلانے والے چند افراد تواعلیٰ ایوان تک پہنچ گئے۔ لیکن اب بھی اس آبادی میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو محنت مزدوری کر کے بمشکل اپنا گھر چلاتے ہیں ۔ 80ءکی دَہائی کی بات ہے، جب پی ٹی وی کا راول پنڈی سینٹر چکلالہ میں قائم ہوچُکا تھا۔ اُس وقت یہ ایک ویران علاقہ تھااورٹی وی سینٹر، فوج کے ایک کیمپ کی عارضی عمارت میں قائم ہوا تھا، جس کے سامنے ہی وزارتِ اطلاعات کا دفتر بھی تھا۔ بنیادی طورپریہ سینٹر وفاقی دارالحکومت ،اسلام آباد سے کیے جانے والے حکومتی پروپیگنڈے کا سینٹر تھا۔

اس لیے تمام زور خبرنامے اورحالاتِ حاضرہ کے پروگراموں پرتھا۔ تاہم، مقامی فن کاروں کے مطالبے پر یہاں سےڈرامے اوردیگر پروگرامز بھی شروع کیے گئے، جنہوں نے مقبولیت کے ریکارڈ زقائم کیے ۔ راحت کاظمی، ساحرہ کاظمی، شجاعت ہاشمی، بشریٰ انصاری، اقبال انصاری، رابعہ تبسّم ، نرگس رشید، طارق ملک وغیرہ سب کا تعلق راول پنڈی ہی سے تھا۔ جھنڈا چیچی سے چکلالہ ٹی وی سینٹر کی مسافت 20 سے 25 منٹ تھی ،تانگے والا ایک روپیا کرایہ لیتا تھا۔ 

یہ وہی جگہ ہے جہاں اب فوج کا ایک گیریژن اورٹرپل وَن بریگیڈ کا دفتر بھی قائم ہے۔’’نیلام گھر‘‘ کی مقبولیت کی ایک وجہ ،پروگرام کے پہلے پروڈیوسر،عارف رانا کی محنت بھی تھی، جو اسے یکسانیت سے بچانے کے لیےنِت نئے تجربات کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے حکّام کی منظوری سے فیصلہ کیا کہ نیلام گھرکے کچھ پروگرامز باقی اسٹیشنز سے بھی ہونے چاہئیں ، تاکہ پاکستان کے ہر علاقے کے عوام پروگرام کا حصّہ بن سکیں ،چناں چہ جب طارق عزیز اور عارف رانا اس مقصد کے لیے راول پنڈی آئے ،تو انہوں نے ’’جھنڈا چیچی‘‘ کےایک بنگلے میں قیام کیا۔یہ بنگلہ مختلف ٹی وی سینٹرز سے ’’تادیبی کارروائی‘‘ پرٹرانسفر ہوکر راول پنڈی آنے والوں کی آماج گاہ تھا۔ اس بنگلے کے زیریں حصّے میں عبیداللہ بیگ اوران کی اہلیہ، سلمیٰ بیگ، اپنی ننّھی منّی شہزادیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ 

سلمیٰ بیگ پی ٹی وی کے ناظرین کے خطوط اورآرا پرمشتمل پروگرام ’’اپنی بات‘‘ کرتی تھیں، بالائی حصّے میں سہیل ظفر بھی،جو لاہور سینٹر کے ابتدائی دِنوں میں طارق عزیز کے ساتھی تھے، قیام پذیر تھے۔ جب کہ پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی، اختر وقارعظیم، عشرت انصاری، شاہد اقبال پاشا اورکراچی ٹی وی کے متعدّد پروڈیوسرز بھی یہاں ’’مستقل مندوبین‘‘ کی حیثیت سے حاضری لگاتے تھے۔ یہ پی ٹی وی کا ایک سنہری دَور تھا۔ ’’نیلام گھر‘‘ کے دو شو راول پنڈی کے لیاقت میموریل ہال میں ہوئے۔اس کے بعد طارق عزیز جب بھی پنڈی،اسلام آباد آئے، پرتعیش قیام کی پیش کش چھوڑ کر اسی بنگلے میں قیام کیا ۔وہاں خُوب محفلیں جمتیں۔رکن قومی اسمبلی بننے کے بعد اکثر و بیش تر وہ پارلیمنٹ لاجز میں رہنے کی بجائے دوستوں کے ساتھ اسی بنگلے میں قیام کو ترجیح دیتے تھے۔

رکن قومی اسمبلی کیسے بنے…؟ (قصّہ ایوان میں پہلی تقریر کا)

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین،عمران خان جب سیاست میں متحرک ہوئے اورالیکشن لڑنے کا اعلان کیا ،تو لوگ انتخابی جلسوں میں انہیں سُننے سے زیادہ دیکھنے کے لیےآتے تھے۔ ورلڈ کپ کا ہیرو، جب انتخابی میدان میں اُترا تومیاں نواز شریف نے رفقاء کو ہدایت کی کہ عمران خان کی شہرت کا توڑ کیا جائے ،توقرعۂ فال نیلام گھر کے میزبان ،طارق عزیز کے نام نکلا،جوٹی وی اورفلم کے حوالے سے بھی شوبز کی ایک مقبول شخصیت تھے۔ جب انہیں یہ پیش کش ہوئی تو وہ تذبذب کا شکار ہوگئے کہ بھٹو کی پیپلز پارٹی میں جمہوریت کی جدّوجہد کے لیے انہوں نے جیلیں کاٹیں ، ماریں کھائیں ، سوشلزم کی ڈگڈگی ہاتھ میں لیے ’’روٹی،کپڑااور مکان‘‘ کے نعرے لگائے۔ 

شہرشہر پھرے، لیکن نتیجہ صفر ،بلکہ کئی مواقع پر تووہ خودہی بھٹو صاحب کے عتاب کا شکار ہوئے۔ چناں چہ ساری زندگی سرمایہ داروں ، جاگیرداروں کے خلاف تقریریں کرنے والے طارق عزیز نے انہی لوگوں کے ہم آواز بننے کا فیصلہ کیااور یوں ساری زندگی دُکھ درد اورفاقہ مستی میں گزارنے والا طارق عزیز ’’حسابی کتابی‘‘ بندہ بن گیا۔ نوازشریف نے قومی اسمبلی کا ٹکٹ بھی دیا اورایوان تک جانے کے لیے ’’زادِہ راہ ‘‘ بھی فراہم کیا ۔اس طرح طارق عزیزقومی اسمبلی کے ایوان تک جا پہنچے۔ جس دن نئی قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہونا تھا، اس شب ’’جھنڈا چیچی ‘‘ والے بنگلے پر نشست ہوئی۔ جہاںعارف رانا ، سہیل ظفر اورشاید ایک دودوست اوربھی تھے۔ طارق صاحب نے کھانے کا خصوصی اہتمام کیا تھا کہ صبح اجلاس کے پہلے دن کی

حکمتِ عملی وضع کی جاسکے۔ ہم اُن دنوں قومی اسمبلی کی پریس گیلری کے سیکریٹری جنرل تھے۔ اس لیے ہمیں طارق صاحب نے خصوصی اہمیت دی اورکہا کہ’’ میری تقریرکی کوریج صرف جنگ اخبار ہی میں نہیں باقی اخبارات میں بھی ہونی چاہیے۔ خبربنانے سے پہلے مجھ سے ڈسکس ضرور کرلینااور سُرخیاں بھی مشورے سے بنائی جائیں وغیرہ وغیرہ ۔‘‘اگلی صبح جب طارق عزیز ایوان پہنچے توقدرے نروس نظر آئے۔ حالاں کہ ہزاروں کے مجمعے کے سامنے خطاب کرنے والی شخصیت تھے۔ شاید اس گھبراہٹ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایوان میں منتخب ہونے والے ’’طبقہ اشرافیہ‘‘ کی جولاٹ موجود تھی،اس نے اپنے طرزعمل سے طارق عزیز کو غیراہم ہونے کا احساس اس طرح دلایا کہ انہیں پہلی مرتبہ ایوان میں منتخب ہونے کی مبارک باد دی جا رہی تھی اور نہ ہی دوسرے لوگوں کی طرح ان سے معانقہ کیا جارہا تھا ، سب نےبس سرسری سی سلام دُعاہی کی۔ اپنی نشست پربیٹھنے کے بعد طارق عزیز نے پریس گیلری کی طرف دیکھا،جس پرہم نے ہاتھ ہلاکر اپنی موجودگی کا احساس دلایا تو انہوں نے قدرے اطمینان محسوس کیا۔ 

اس وقت الٰہی بخش سومرو قومی اسمبلی کے اسپیکر تھے۔ کارروائی کے دوران طارق عزیز نے پانچ مرتبہ بولنے کی کوشش کی ۔جب پہلی مرتبہ اسپیکر نے انہیں بولنے کا موقع دیاتوطارق عزیز نے اپنی گرج دار آواز میں کہا ’’جنابِ اسپیکر! پہلی بات تو مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جوارکان نشست پربیٹھنے سے پہلے آپ کے سامنے سرجُھکاتے ہیں، یہ کورنش بجالانے کے مترادف ہےاور غلامانہ ذہن کی عکّاسی ہے۔ اس لیے اس سلسلے کو ترک کیا جائے۔ ‘‘ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ اسپیکر نے تحکّمانہ انداز میں کہا ’’آپ پہلی مرتبہ ایوان میں آئے ہیں۔ پہلے کچھ سیکھیے ،پھر ایوان میں بات کیجیے گا۔‘‘ یہ کہہ کر ان کا مائیک بند کروادیا اورطارق عزیز خاموشی سے اپنی نشست پربیٹھ گئے۔ بعد ازاں،وہ کئی روز تک خاموشی سے اجلاس میں آتے اورچلے جاتے۔

اسیری کے دن…

2000ء میں جنگ ،راول پنڈی سے ہم نے ’’جیل کہانی‘‘ کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ جس میں کم و بیش تمام ہی بڑے سیاسی قائدین ،مثلاً خان عبدالولی خان، نواب زادہ نصراللہ خان، غلام مصطفیٰ جتوئی، ،پروفیسرعبدالغفور، جنرل (ر)نصیراللہ بابر، شیخ رشیداحمد، بیگم نسیم ولی، غلام مصطفیٰ کھراور اصغرخان وغیرہ کے انٹرویوز کیے۔ ان میں طارق عزیز بھی شامل تھے، جنہوں نے دومرتبہ ’’سیاسی جیل‘‘کاٹی۔ اپنی اسیری کی داستان میں انہوں نے بتایا کہ’’ جیل میں مجھے قیدیوں کا مخصوص لباس دیا گیا ، جس پر 257کانمبر بھی لگا ہوا تھا ۔حکم دیا گیا کہ جیلر صاحب کسی بھی وقت معائنے کے لیے آسکتے ہیں۔ اس لیے فوراً لباس تبدیل کرلیں، لیکن مَیں نے قیدیوں والا لباس پہننے سے صاف انکار کردیا اورکہا کہ مَیں اخلاقی نہیں، سیاسی قیدی ہوں۔ اس لیے مجرموں والا لباس ہرگزنہیں پہنوں گا۔ میرے انکار پران لوگوں نے مجھ پرتشدّد شروع کردیا۔ میرے کپڑے پھاڑ دیے اور مَیں نیم برہنہ حالت میں ساری رات کوٹھری کے فرش پر بیٹھا رہا۔ خیر ،صبح مجھ سے کہاگیا کہ آپ جوکپڑے گھر سے لائے ہیں ،پہن لیں۔ 

اجازت مل گئی ہے،لیکن شدید تشدد کے باعث میرا جسم ایک پھوڑے کی طرح دُکھ رہا تھا۔ مَیں نے مذکورہ اہل کاروں سے کہا کہ مجھے اسپتال لے چلو۔ تم نے مجھ پر تشدّد کرکے غلط کام کیا ہے، مَیں تمہاری رپورٹ کروں گا۔ جس پروہ لوگ وہاں سے چلے گئے اورتھوڑی ہی دیر میں ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا’’ طارق صاحب! مَیں تو آپ کا فین ہوں۔ آپ بڑے عظیم شخص ہیں، مجھے پتا چلا ہے کہ اہل کاروں نے آپ پرتشدّد کیا ،ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ آپ سگریٹ پیئں، سب ٹھیک ہوجائےگا۔‘‘ 

میں کچھ سمجھ توگیا تھا ،لیکن مَیںنے سگریٹ پی لی اورتھوڑی دیر بعد سوگیا۔ سوکراٹھا توخاصا ریلیکس تھا۔ چائے کی فرمائش کی تو چائے بھی مل گئی۔ جتنی لذّت وہ چائے پینے میں آئی۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ مَیںنے زندگی میں کبھی ایسی چائے پی ہو۔ پھر اس شخص نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ مشہور شخصیت ہیں۔ آپ سیاسی آدمی ہیں، کوئی جرم کر کے جیل نہیں آئے۔ اس لیے آپ بی کلاس کی درخواست دیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ پھر اس نے مجھے ’’اسپیشل سگریٹ‘‘ پلائی اور چلا گیا ،لیکن اس رات مجھ پرنئی قیامت ٹوٹی۔ 

رات کو کچھ لوگوں نے مجھ پر کمبل ڈال کر مارنا شروع کردیااور قریباً ایک گھنٹے تک متعفّن کمبل میں مجھے ٹھڈّے ،مکّے مارتے اورغلیظ گالیاں دیتے رہے۔ صبح میرا’’پرستار‘‘ پھر آیا۔ اسپیشل سگریٹ پلائی اور کہنے لگا ،’’سر جی ! آپ ایکٹر آدمی ہو، شاعر ہو ، یہ کن چکّروں میں پڑ گئے ہو۔ معافی نامہ لکھو اورجان چھڑوائو۔‘‘ مَیں نے کہا کہ مَیںمعافی مانگنے کی بزدلی ہرگز نہیں کرسکتا۔ وہ چلا گیا اور دو دن بعد پھر وہی بدبودار کمبل اورتشدّد… اسپیشل سگریٹ والا بھی غائب ہو گیا۔ 

پھر تین دن بعد ایک بھاری بھرکم ،مضبوط جسم والا شخص میرے پاس آیا اور پنجابی میں بولا ، ’’طارق صاحب تُسی کس کیس وِچ آگئے ہو‘‘، مَیں سمجھا، شاید پارٹی کا کوئی کارکن ہے، اس نے کہا کہ ’’مَیں اچھاشُوکر والا ہوں (لاہور کا مشہور بدمعاش) ایک قتل کیس میں اندر ہوں ۔ گھبرائو نہیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ‘‘ دوسرے ہی دن مجھے بی کلاس مل گئی اورایک مشقّتی بھی۔یوں اسیری کی اذّیت ختم ہوگئی۔‘‘

تازہ ترین