• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوال تو کڑا ہے پر جواب مانگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا سے آسودگی اٹھتی جا رہی ہے، یہ سلسلہ کب تک چلے گا، کیا وہ سکھ چین کے دن لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ کیا وہ محبتیں، لگاوٹیں، وہ مروّتیں، وہ شفقتیں اور عنایتیں خواب و خیال کی باتیں بن کر رہ جائیں گی۔ عجب طرح کی ہوا چلی ہے کہ کیسے کیسے نایاب لوگ دنیا سے اٹھتے جا رہے ہیں، ضرور اٹھیں کہ یہ عمل رکنے والا نہیں لیکن اٹھتے اٹھتے کچھ اُس خلا کا بھی خیال کریں جو اپنے پیچھے چھوڑے جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب میں بزرگوں کے رحلت کر جانے پر کہا کرتا تھا کہ اپنے کام کاج نمٹا کر گئے ہیں اور نئی نسل کے لئے جگہ خالی کر گئے ہیں مگر قدرت نے مجھے جھنجوڑا اور یہ احساس دلایا کہ جانے والوں کی خوبیوں کو پرکھو اور بتاؤ کہ کیا نئی دنیا میں ایسی ہی خوبیوں سے مالا مال لوگ نظر آرہے ہیں۔

اس میں کورونا کا ہاتھ تھا یا کیا تھا، مجھے اس سے غرض نہیں۔ مجھے جو فکر کھائے جاری ہے یہ ہے کہ جو روایات وقت گزرنے کے ساتھ زائل ہوتی جاتی ہیں، ان کا تحفظ کیوںکر کیا جائے۔ کیا نئی نسل آگے چلے جانے والوں کے چھوڑے ہوئے نشانوں کی قدر کرے گی اور کیا جن روایات کو ہم عزیز جانتے ہیں، کیا نئی نسل ان سے وابستگی کا رشتہ استوار کرے گی۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ایسے آثار نظر نہیں آ رہے، نیا زمانہ اپنے اچھوتے تقاضے لے کر آیا ہے اور نئی نسل کو ان بدلے ہوئے حالات میں جینا ہے، اس لئے سوچیں تو خیال ہوتا ہے کہ اس نسل کو کیا پڑی ہے کہ ہماری کہنہ روایات کی پاس داری کرے۔ اس مقام پر آکر پھر وہی بڑا سوال سر اٹھانے لگتا ہے کہ بتائیے پھر کیا کرنا چاہئے، کیا تدبیر کی جائے، کون سی راہ اختیار کی جائے۔

اس کا ایک ہی جواب ہے جو بہت سے لوگوں کو ناگوار گزر سکتا ہے۔ یہاں ایک تاریخی واقعہ دہرانا چاہوں گا۔ کہتے ہیں کہ ایک عالم دین کے علم میں یہ بات آئی کہ کسی علاقے میں لوگ دین سے بالکل ہی پھر گئے ہیں، کہنے کو مسلمان ہیں مگر ان میں مسلمانوں والی کوئی بات باقی نہیں رہی۔ عالم دین نے اپنے رضاکاروں کی ایک جماعت تیار کی اور اسے ہدایت کی کہ اس علاقے میں جائے اور اصل صورتحال معلوم کرے۔ جماعت وہا ں گئی اور کچھ روز بعد خالی ہاتھ لوٹ آئی۔ خالی ہاتھ یوں کہ علاقے میں کسی کو اس جماعت کے نظریات اور خیالات سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ عالم دین نے ان سے پوچھ گچھ کی۔ انہیں بتایا گیا کہ لوگ دین سے لاتعلق ہو گئے ہیں۔ مولانا نے ان لوگوں سے ایک چبھتا ہوا سوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ علاقے کے لوگوں میں عقیدے کی کوئی ذرا سی رمق بھی نہیں ہے؟ جواب ملا کہ بس سال کے سال تعزیہ داری کرتے ہیں۔ مولانا نے رضا کاروں کی جماعت کو حکم دیا کہ جاؤ اور تعزیہ داری میں شریک ہو جاؤ۔اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ نئی دنیا کے نئے حالات میں وقت پر اپنے ہونے کا ٹھپہ لگانے والی نسل کے ساتھ شامل ہو جاؤ اور خود کو ان کے رنگ میں رنگنے کے بجائے اپنے رویے اور طرزِ عمل سے ان کی طور طریقوں پراثر انداز ہونے کی کوشش کرو۔

مغرب میں آکر آباد ہونے والے ہم لوگ بہت ہی کڑی آزمائشوں سے گزر کر آئے ہیں۔ ہمارے سامنے اسی مسئلے نے جس شدت سے سر اٹھایا تھا، وطن عزیز میں بسنے والوں کو اس کی تپش کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ اب تو خیر وہاں بھی حالات بدل رہے ہیں لیکن ان میں وہ تمازت نہیں جس سے مغرب میں بستیاں بسانے والوں کو دوچار ہونا پڑا۔ یہاں کی قدریں مختلف تھیں، روایات مختلف تھیں، تقاضے جدا تھے اور وقت کے مطالبے بالکل ہی نرالے تھے۔ ہمارے بچے جب گھر سے نکلے تو انہیں احساس ہوا کہ گھر اور باہر دو الگ الگ دنیائیں آباد ہیں۔ انہوں نے حالات سے جنگ نہیں کی اور مکمل شکست بھی نہیں مانی۔ انہوں نے ایک نیا ماحول پیدا کیا جس میں پرانی روایتوں کے امین والدین بھی خوش تھے اور باہر کی دنیا میں ان کے رفیق اور ہم نوا بھی مطمئن تھے۔ پھر وقت گزرتا گیا، پرانی نسل کے چراغ ایک ایک کرکے گُل ہوتے گئے اور جس وقت ہمارے بچوں نے اپنی عملی زندگی میں قدم رکھا، کیا اندر کی دنیا اور کیا باہر کی دنیا، سارا ماحول اور ساری فضا ان کے لیے موزوں اور سازگار ہو چکی تھی۔

ہماری یہ نئی پود اب خیر سے کامیاب زندگی گزار رہی ہے، وہی زندگی جس میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، جو قدم سے قدم ملاکر نہیں دوڑا، پیچھے رہ جانا اس کا مقدر ٹھہرا اور حالات نے اس کا ساتھ نہ نبھایا۔ اب ہمارے بچے نئے ماحول کے مطابق جی رہے ہیں، اعلیٰ ملازمتیں کر رہے ہیں، بڑے بڑے منصب کو جا پہنچے ہیں اور دنیا میں نام پا رہے ہیں۔ ہر چند کہ پرانی نسل کو اب بھی ان سے گلے شکوے ہوں گے لیکن کچھ سمجھوتے کی راہیں کھلی ہیں، کچھ مصالحت کا راستہ نکلا ہے۔ کچھ لو اور کچھ دو کے مرحلے پر آکر شاید پرانی نسل کچھ گھاٹے میں رہی لیکن وہ گھاٹا بہت بھاری بھی نہ تھا۔ اب لوگوں نے عید، بقرعید پر وطن جانے کا سلسلہ کم کیا ہے، اب تدفین کے لیے میتیں وہیں، کسی گاؤں کے آبائی قبرستان نہیں لے جائی جا رہی ہیں۔ شادی بیاہ پر اب بھی پیسہ بے دریغ لٹاتے ہیں لیکن ایسی عادتیں آسانی سے نہ گئیں تو کورونا وائرس کہیں نہیں گیا جو ان کے چال چلن کو راہ راست پر لانے کے لیے قدرت کا ایک نرالا ہی حربہ ہے۔ سچ ہے، ہر بلا کے اندر کچھ بھلا بھی چھپا ہوتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین