• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
حکومتی ’’بڑوں‘‘ کو شاید اب یہ بات سمجھ آئی ہے کہ سول ایوی ایشن کے وزیر غلام سرور خان نے واقعی اپنے ادارے اور اس کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک میں مقیم لاکھوں پاکستانیوں کو وطن عزیز کے ساتھ جوڑے رکھنے والی ایئر لائن پی آئی اے پر بھی خودکش حملہ کردیا ہے۔ اس حملے میں وہ اکیلے نہیں بلکہ انہیں وزیراعظم کی آشیرباد بھی حاصل تھی جو نہ جانے کیوں پائلٹوں کی تنظیم پالپا کے خلاف بھرے پڑے تھے اور انہوں نے کراچی حادثے کا بہانہ بناتے ہوئے پاکستان کے سارے پائلٹوں کا مستقبل تاریک کردیا، یہی نہیں بلکہ پائلٹوں کو لائسنس دینے والے ادارے سول ایوی ایشن کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھا دیے۔ اس صورت حال کے نتیجے میں پاکستان کے دوسرے اداروں کی کارکردگی کو بھی مشکوک انداز میں دیکھا جائے گا۔ دشمن ممالک پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے بھرپور مہم چلائیں گے۔ پی آئی اے کی حالت پہلے ہی کچھ بہتر نہ تھی، اب تو یہ سوال بھی اٹھنے لگا ہے کہ آیا وہ اب یورپ یا دوسری بین الاقوامی پروازیں کرسکے گی یا نہیں۔لیکن اس سے حکومت پاکستان اور دوسرے سیاسی لیڈروں کو کیا فرق پڑتا ہے؟۔ پی آئی اے بند ہوئی تو اس کو اونے پونے داموں بیچ دیا جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ خریدار تیار بیٹھے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خریداروں نے ہی حکومت کو پائلٹوں کے جعلی لائسنسوں کے بارے میں ’’ٹپس‘‘ دی ہوں۔باقی رہی بات پائلٹوں کی تو ان کی دنیا میں کہاں کمی ہے۔ ایک اشتہار پر ہزاروں درخواستیں آجائیں گی۔ غیر ملکی اداروں سے لائسنس حاصل کرنے والے پائلٹس پر یقیناً وزیر ہوا بازی اور حکومت کو بھی اعتماد ہوگا۔ پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ پی آئی اے کا روز، روز فساد بھی ختم ہوجائے گا۔ نئے خریدار اور نئے پائلٹ پاکستانی جہاز اڑائیں گے، وہ بھی اگر یورپی یونین اور دوسرے ممالک نے سیفٹی چیکس کے بعد لائسنس کی تجدید کردی تو…؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت، وزیراعظم اور وزیر ہوا بازی نے ایک مرتبہ بھی یہ نہیں سوچا کہ قومی اسمبلی میں پاکستانی پائلٹوں کے لائسنسوں کو جعلی قرار دینے سے دنیا بھر کے اخبارات میں شہ سرخیاں لگ جائیں گی۔ پاکستان کے دوسرے اداروں کا اعتماد بھی بیرونی ممالک سے اٹھ جائے گا۔ دنیا بھر میں کام کرنے والے اوورسیز پاکستانیوں کی کوالیفیکشن اور ڈگریوں کو مشکوک تصور کیا جائے گا۔ برٹش پاکستانیوں سمیت دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کے سر شرمندگی سے جھک جائیں گے لیکن پاکستان کی حکومت ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والی شرمندگی کو محسوس ہی نہیں کررہی۔بعض حکومتی وزرا اور مشیروں کی فوج ظفر موج ہے کہ پاکستانی پائلٹوں کو بھی پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) کے ’’لیڈر‘‘ سمجھتی ہے اور انہیں سزا ملنے پر خوش ہے۔البتہ اب ایسا لگتا ہے کہ ’’ظل الہٰی‘‘ کے سامنے دو وزراء نے کلمہ حق ادا کرنے کی جسارت کی ہے۔ پتہ نہیں کہ انہیں امان ملے گی یا نہیں، تاہم ان دونوں (وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر) نے کابینہ کے اجلاس میں معاملے کی نزاکت کو رکھ کر یوٹرن کرنے والوں کو ایک اور یوٹرن لینے کا مشورہ دیا ہے مگر اس مرتبہ یوٹرن لینا شاید اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان اور اس کے اداروں کی ساکھ کو جو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا ہے؟ Damge Has Been Done وزیر ہوا بازی پہلے ہی یوٹرن لے چکے ہیں کہ جعلی نہیں مشکوک ڈگریاں ہیں۔ اب اس پر اور کتنے یوٹرن لے سکتے ہیں؟۔ اس مرتبہ سامنے پاکستان کے عوام نہیں بلکہ عالمی ادارے ہیں جو بال کی کھال نکالتے ہیں، جن کو اپنے اور دنیا بھر کے مسافروں اور شہریوں کی سیفٹی عزیز ہے۔ معلوم نہیں کہ حکومت نے اس معاملے کو کون سے ’’مفادات‘‘ یا کس مصلحت کے تحت ہینڈل کیا کہ اس سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہورہی ہے۔یقیناً حکومت نے ایسا نہیں چاہا ہوگا کہ ملک بدنام ہو، اس نے تو اپوزیشن کو ’’نیچا‘‘ دکھانے کا سوچا ہوگا۔ یا پھر کسی مشیر باتدبیر نے وزیراعظم اور حکومت کو بدنام کرنے کے لیے یہ صلاح دی ہو۔جو بھی ہوا ’’اس کا نقصان بہرحال پاکستان کو ہوا ہے۔ اگر کچھ پائلٹوں کے لائسنس جعلی یا مشکوک تھے تو وزیر ہوا بازی کو چاہیے تھا کہ وہ خاموشی کے ساتھ ان پائلٹوں کی تحقیقات کراتے، ان کو گرائونڈ کردیا جاتا۔ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد مشکوک یا جعلی پائلٹوں کے ناموں کو سامنے لا تے اس سے قومی اداروں کی ساکھ متاثر ہوئی نہ پاکستان کی جگہ ہنسائی ہوتی۔
تازہ ترین