• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیصل واوڈا کی کمپلین نیب کے سامنے موجود ہے، شہزاد اکبر

فیصل واوڈا کی کمپلین نیب کے سامنے موجود ہے، شہزاد اکبر 


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ “ میں معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے سابق جج ارشد ملک کی برطرفی کے حوالے سے کہا کہ بنیادی چیز یہ ہے کہ کس نے ان سارے معاملات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔

مریم نواز سے باقاعدہ تفتیش ہونی چاہیے تفتیش اس لیے ہونی چاہیے کہ ان کی دکھائی گئی ویڈیو میں سنگین الزام ہے،فیصل واوڈا کی کمپلین نیب کے سامنے موجود ہے،ان کی پراپرٹیز کی جو کنفرمیشن ہے وہ ساری نیب کے پا س ہے اس میں کوئی چیز پینڈنگ نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ جج کی برطرفی کے حوالے سے ابھی تفصیلی فیصلہ یا شارٹ بھی نہیں آیا ہے اس لیے اس کی ایگزیکٹ وجوہات کیا ہوں گی کسی کو نہیں پتہ شہباز شریف اور مریم نواز کا اس میں اہم کردار ہے انہوں نے روایتی طور پر پہلے سے مٹھائی کھانے کا کیا اس پورے قصے کو میرٹ پر دیکھ لیجئے ابھی تک جو معاملات سامنے آئے ہیں جو بنیادی انکوائری کا حصہ ہے وہ جج کا اپنا ایفی ڈیوٹ ہے کیوں کہ اس جج کے کنڈیکٹ سے پہلے جاننا ضروری ہے کہ وہ کیسے احتساب کورٹ میں آئے ہیں اس کے بعد اہم واقعہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے سامنے یہ کیس ملزمان کی اپنی درخواست پر لگایا جاتا ہے۔ 

اس میں دو تاریخیں بہت اہم ہیں جب ان کی تعیناتی ہوتی ہے احتساب کورٹ میں بطور جج یہ احتساب ٹو میں شاید جج تعینات ہوئے تھے 2018 میں اس وقت شاید رفیق بیگ وزیر قانون تھے شاہد خاقان وزیراعظم تھے۔ جب میں جانتا ہوں احتساب عدالت میں دو ہی جج ہیں اور میں ایک پر عدم اطمینان کا اظہار کرتا ہوں۔

جس ایفی ڈیوٹ کی بنیاد پر بیان پر اس جج کا کورٹ آف کنڈیکٹ پر اس کو ہٹایا گیا یہ لاہور ہائیکورٹ اس سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے بالکل درست فیصلہ کیا کہ جیسے ہی اس طرح کی بات سامنے آتی ہے بشیر جج صاحب نے اچھا کام کیا جب ان پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا اسلام آباد ہائیکورٹ اس پر فیصلہ کر دے اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ بھی کر دیا لیکن اس کے پیچھے اسلام آباد ہائیکورٹ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کہانی کے مختلف کرداروں سے جج ارشد ملک کا کوئی پرانا واسطہ یا تعلق تھا۔ 

دو ویڈیوز ہیں ایک نازیبا ویڈیو ہے دوسری وہ ہے جو ان جج کی نوازشریف جن کو یہ سزا دے چکے تھے یا لوگ ان کے بیہاف پر جا کر ملتے تھے ناصر بٹ یا ناصر جنجوعہ تھے جس دور میں ارشد ملک کہہ رہے ہیں کہ ٹرائل چل رہا تھا اس وقت بھی ناصر بٹ اور ناصر جنجوعہ میرے گھر آکر ملتے تھے بعد میں جب ضمانت ہوجاتی ہے جب بھی ان کا کردار ہے۔ 

ایف آئی اے تحقیقات کر رہی ہے اس کا مرکزی کردار ناصر بٹ مفرور ہے وہ شاید برطانیہ میں ہے جو میری انفارمیشن ہے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں سب نشاندہی کر رہے ہیں مریم نواز کی کہ جس دن وہ پریس کانفرنس ہوئی اور انہوں نے ویڈیو نہیں دیکھی ہے جس نازیبا ویڈیو کی بات کی جارہی ہے وہ صرف مریم نواز کے ہی قبضہ میں تھی اور انہوں نے اس کو چلایا تھا اور پریس کانفرنس بھی کی تھی ۔ 

بنیادی چیز یہ ہے کہ کس نے ان سارے معاملات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ انصاف کے اصل تقاضے یہ ہونے چاہیے تھے کہ آپ کے پاس جو ویڈیو تھی وہ کب ویڈیو آئی اس پر کیا عمل درآمد کیا اور وہ جو ایفی ڈیوٹ میں کہہ رہے ہیں اس کے مطابق فرانزک آڈٹ کی بات تب ہوتی ہے جب کوئی جج اس چیز سے انکاری ہو اور جج کا جو ایفی ڈیوٹ آیا ہے اس سے آگے ہی بات چلنی ہے ہم روایتی قیاس آرائی کر رہے ہیں جو شاید صحافت میں مجبوری ہوتی ہے لیکن اب اس تحقیقات کی رپورٹ آئے گی اس کے مطابق ہی دیکھا جائے گا۔ 

میری اطلاع کے مطابق جتنے لوگ پریس کانفرنس میں شامل تھے ان سب نے کہا کہ ہمیں آج پریس کانفرنس سے پہلے ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے اس میں کیا تھا یہ تمام چیزیں مریم نواز کے پاس ہیں ۔

اس ملک کے تحقیقاتی ادارے یہ اتنا زور آور خاندان ہے مریم سے کتنی تفتیش کر پائے ہیں یہ ایف آئی اے کی ناکامی ہے اس لیے ناکامی ہے کہ مریم نواز سے باقاعدہ تفتیش ہونی چاہیے تفتیش اس لیے ہونی چاہیے کہ ان کی دکھائی گئی ویڈیو میں سنگین الزام ہے ۔ 

فرانزک آڈیٹ کے لیے جو اصل ویڈیو ہیں جنہوں نے دکھائی ان کو دینی ہے یہ حکومت کی طرف سے بالکل ہے کہ اس کا فرانزک آڈٹ کروانا ہے اس سے یہ چیز ثابت ہوگی کہ یہ ملاقات ہوئی تھی اور جو اس کے contents ہیں contents کو فرانزک آڈٹ نے ثابت نہیں کرنا وہ جتنے لوگ اس میٹنگ میں ہیں جو بات کی جارہی ہے اس کی تحقیق کرنی ہے۔ 

مثال کے طور پر ابھی ہم دونوں کی بات کوئی ریکارڈ کر لے جب اس ویڈیو کا فرانزک ہوگا تو وہ یہ ثابت کرے گا کہ یہ ویڈیو صحیح ریکارڈ ہوئی اور اس ٹائم میں ہوئی بس یہی ثابت کرے گا وہ یہ ثابت نہیں کرے گا کہ اس کے contents کیسے ہیں سچ ہیں یا جھوٹ ہیں اس کے لیے تفتیش ہونی ضروری ہے جس پر الزام لگا اس کی تفتیش ہوچکی جس نے الزام لگایا اس کی بھی تفتیش ہوتی ہے۔ 

سپریم کورٹ نے کہا کہ پورے پاکستان کے پاس ویڈیو ہے ایف آئی اے نے کہا ہمارے پاس ویڈیو نہیں ہے تو ویڈیو جو موجود ہے اس میں یہ تو دیکھ لیں کہ ٹمپرڈ ہے یا نہیں ہے اگر ٹمپرڈ ویڈیو ہے تو آپ کے پاس تو بہترین موقع ہے کہ جج کے خلاف جو باتیں ہوئیں وہ ٹمپرڈ ہے اس کے جواب میں کہا کہ جو اس طرح کے ریمارکس ہوتے ہیں۔ 

اس کو آپ جوڈیشل ڈیگنی کا حصہ نہ سمجھیں جو تفتیش چل رہی ہے اس کا جو فرانزک کرایا جانا ہے وہ اس کا ٹیکنیکل پہلو ہے اور فرانزک کے حوالے سے آپ کہہ رہے ہیں حکومت کے پاس موقع ہے وہ موقع صرف میڈیا کی حد تک ہے اصل چیز اس کا مقدمہ ہے جس کی تفتیش ہو کر یہ ثابت کرنا ہے کہ کیا وہ جو content ہے ارشد ملک ان سے تو انکاری نہیں ہو رہے۔ 

ارشد ملک کیا اس پر متفق ہیں کہ یہ کہا تھا کہ مجھ پر دباؤ تھا اس لیے نوازشریف کے خلاف فیصلہ دیا اس حوالے سے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ انہوں نے تفتیشی ادارے کے سامنے جا کر کیا بیان دیا ان کا کوئی بیان ابھی کسی عدالت میں جمع نہیں ہوا اتنا مجھے پتہ ہے ایک ڈی آئی جی لیول کا تحقیقاتی افسر اس کے اندر ہیں یہ نہیں جانتا ارشد ملک کتنی دفعہ پیش ہوئے وہ یقیناً پیش ہوئے ہوں گے اور ان سے سوال جواب کیا گیا ہوگا۔

ناصر بٹ نے شاہزیب کے پروگرام میں کہا تھا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھاکہ انہوں نے مجھے کہا کہ فیصلہ انصاف پر نہیں دینا نوازشریف کے خلاف دینا ہے اس جواب میں کہا میری نظر میں شاہزیب نمبر ون اینکر ہیں وہ اس لیے کہ اچھا پروگرام کرتے ہیں انہوں نے بہت ریسرچ کر رکھی ہوتی ہے میں بھی چار دفعہ سوچتا ہوں۔ 

ان کے پروگرام میں جانے سے پہلے ناصر بٹ کو جو سوال کیے جارہے ہیں ان سے کوئی کراس سوال نہیں کیا جارہا ہے ناصر بٹ کے جواب کو ایسے پیش کیا جارہا ہے جیسے ان کے منہ سے جو نکل رہا ہے وہ بالکل درست ہے ۔ ناصر بٹ مسلم لیگ نون کے حماتی ہیں جب وہ آکر کوئی بات کرتے ہیں تو آپ دیکھ لیجئے ان کا جج کے ساتھ کیا تعلق ہے جج صاحب ناصر بٹ کو کیوں بلاتے ہیں وہ کون ہیں ۔ 

جب تک تفتیش کسی فورم کے سامنے جمع نہیں ہوتی تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس طرح کرنا چاہیے یا اس طرح نہیں کرنا چاہیے تفتیش میں کورٹس ڈائریکشن بھی نہیں دیتیں کہ ایسا نہ لگے کہ وہ اثر انداز ہو رہی ہیں اس لیے میں اور آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ غلط کیا۔ 

میزبان شہزاد اقبال سے کہا کہ آپ نے یہ فرمایا کہ مریم نواز نے تحریری جواب بھجوادیامجھے بتائیے اس ملک میں کوئی غریب اپنا تحریری جواب بھجواتا ہے ایک کریمنل تفتیش کے اندر اس پر شہزاد اقبال نے کہا کہ میں مریم نواز کو ڈیفنڈ نہیں کر رہا ہوں میں آپ کو بتا رہا ہوں یہ ایف آئی اے کا کام ہے ان سے جواب طلب کرے یہ میرا کام نہیں ہے اگر یہ تحریری جواب غلط ہے تو ایف آئی اے کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے تھامیں ایف آئی اے نہیں ہوں یہ آپ کے ادارے پر سوالیہ نشان ہے کہ مریم نواز اتنی طاقتور ہیں کہ وہ انہیں بلا نہیں پا رہے۔ 

بیرسٹر شہزاد اکبرنے کہا کہ اس طاقتور طبقہ کے سامنے ایف آئی اے کی کیا ہمت ہے نیب بھی جیو بھی صحافی بھی سارے لوگ بے بس ہیں ۔ اگر تحقیقات کی تفصیلات آچکی ہوتیں کسی فورم پر تو لاہور کی انکوائری کمیٹی کے پاس اور زیادہ مواد ہوتا کہ جج کا کنڈیکٹ کہاں کہاں غلط ہے۔ 

اس کمیٹی کو غالباً پتہ ہی نہیں ہوگا کہ ویڈیو صحیح ہے یا نہیں ہے اس کے جواب میں معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہ سو فیصد درست بات ہے اگر ویڈیو کا فرانزک ہوا ہوتا تو لاہور کی جو کمیٹی تھی سات ججز کی وہ بہتر فیصلہ کرسکتی تھی بہتر فیصلہ یہی ہونا تھا کہ عہدے سے برخاست کردینا تھا لیکن اگر ایڈمینسٹرٹیو کمیٹی یہ سمجھتی کہ اس ویڈیو کا فرانزک ہونا لازمی ہے تو سات سنیئر ججز بیٹھے ہیں۔ 

لاہور ہائیکورٹ کے وہ ایک لمحہ میں حکم کرسکتے تھے کہ فرانزک کرایا جائے ایک آزاد کمیشن مقرر کر سکتے تھے فرانزک بی کرواسکتے تھے اس کے لیے کمیشن بھی بنوا سکتے تھے لیکن اگر ان کو یہ لگا کہ یہ ملاقات سے انکاری نہیں ہیں اس کی جو تحقیقات کے اندر کی باقی چیزیں ہیں۔ 

دوسری تحقیق چل رہی ہے اس میں ثابت ہونی ہے لیکن اس کا جو کنڈیکٹ ہے یہاں چیز ہی ختم ہوجاتی ہے کہ جب اس کے گھر جا کر دوران ٹرائل ناصر بٹ اور ناصر جنجوعہ جس کو وہ خود ایڈمٹ کر رہا ہے اپنے ایفی ڈیوٹ میں ، جو چیزیں قانون کے مطابق ہو رہی ہیں انہیں ایسا ہی ہونا ہے قانون کے مطابق ، میزبان شہزاد اقبال نے کہا کہ فرانزک کرانے کی بات حکومت نے بھی کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے یہ ریمارکس ہیں سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے فرانزک کرایا جائے ۔ 

علی ظفر تحریک انصاف کے وکیل ہیں اور دوسرے وکیلوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ اگر یہ بات اسٹبلش ہوگئی کہ جج جانبدار ہیں تو یہ معاملہ معطل کر کے ری ٹرائل کے لیے بھیج دیا جاتا ہے اس حوالے سے شہزاد اکبر نے کہا کہ جو جانبداری والی بات ہے اس کو اسٹبلش ہونے کے لیے فورم میڈیا نہیں ہوگا اس پر میزبان نے کہا کہ میں آپ سے ایک پروفیشنل سوال کر رہا ہوں ۔ 

شہزاد اکبر نے کہا کہ شہباز شریف انہوں نے بطور چیف منسٹر پنجاب اور احتساب کمیشن کے سربراہ سیف الرحمٰن تھے ان کی آڈیو کال لیک ہوئی تھی اس پر بھی اس طرح کے الزامات تھے کہ جج پر دباؤ ڈالا ہے یہ کیس بھی جب سپریم کورٹ میں گیا تو اس پر جانبداری کے حوالے سے کہا تھا کہ چونکہ یہ سنجیدہ الزامات آرہے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ ری ٹرائل کے لیے بھیج دیں ہمارے سامنے مثال موجود ہے۔ اگر ججز کو لگے کہ جانبداری تو بالکل وہ ٹرائل کا آرڈر کرسکتے ہیں۔

اگر ری ٹرائل کا آرڈر کریں گے تو دونوں کیسز میں جانا پڑے گا جس کیس بریت ہوئی ہے وہاں ان کو دوبارہ فیس کرنا پڑے گا۔یہ ویڈیو نکال کر ہر گز یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ نواز شریف بے گناہ ہیں۔ 

اے آر یو کا کام ہے باہر جو بھی اثاثے ہیں اس کی تحقیقات کر کے اس ملک میں لایا جایا اور فیصل واوڈا کی بہت سی ایسی پراپرٹیز ہیں بیرون ملک کیا اے آر یو نے اس حوالے سے پتہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

اس حوالے سے شہزاد اکبر نے کہا کہ فیصل واوڈا کی کمپلین نیب کے سامنے موجود ہے نیب کی طرف سے ہی ان کی پراپرٹیز کی جو کنفرمیشن ہے وہ ساری کر کے نیب کے پا س ہے اس میں کوئی چیز پینڈنگ نہیں ہے ایسٹ ریکوری یونٹ کے پاس،اوپن سورسز سرچیز کر کے ہمارے پاس ایکسپرٹ ہیں جو اس طرح کی معلومات حاصل کرلیتے ہیں وہ تفتیش میں وہ بہت مدد کرتی ہیں لیکن اگر کریمنل ٹرائل میں چاہیں تو آئی ایم ایل جو ہوتا ہے۔ 

اس کے جواب میں چیزیں چاہیے ہوتی ہیں وہ ہم سے جتنی چیزیں بھی ان کیسز کے اندر مانگی گئیں وہ ہم دے چکے لیکن فیصل واوڈا کے کیس کے اندر ایک چیز اور اہم ہے اس وقت سندھ ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں دونوں چیز پر ان کے جو مخالف امیدوار ہیں۔ 

وہ شاید ایک عدالت میں گئے ہیں اسلام آباد میں کوئی عام شہری یا نون لیگ کا کوئی کارکن گیا ہوا ہے یہ پیر کو کیس دوبارہ فکس ہوگیا ہے اب تو یہ بات اے آر یو کے بھی ہاتھ سے نکل گئی عدالت نے اس پر فیصلہ کرنا ہے۔

تازہ ترین